Tafseer-e-Baghwi - Al-Israa : 99
اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ قَادِرٌ عَلٰۤى اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَ جَعَلَ لَهُمْ اَجَلًا لَّا رَیْبَ فِیْهِ١ؕ فَاَبَى الظّٰلِمُوْنَ اِلَّا كُفُوْرًا
اَوَ : کیا لَمْ يَرَوْا : انہوں نے نہیں دیکھا اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ الَّذِيْ : جس نے خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین قَادِرٌ : قادر عَلٰٓي : پر اَنْ يَّخْلُقَ : کہ وہ پیدا کرے مِثْلَهُمْ : ان جیسے وَجَعَلَ : اس نے مقرر کیا لَهُمْ : ان کے لیے اَجَلًا : ایک وقت لَّا رَيْبَ : نہیں شک فِيْهِ : اس میں فَاَبَى : تو قبول نہ کیا الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) اِلَّا كُفُوْرًا : ناشکری کے سوا
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اس بات پر قادر ہے کہ ان جیسے (لوگ) پیدا کر دے اور اس نے ان کے لیے ایک وقت مقرر کردیا ہے جس میں کچھ بھی شک نہیں تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا
99۔ ’ اولم یروا ان اللہ الذی خلق السموات والارض “ اس کی عظمت اور اس کا زمین و آسمان بنانے میں بہت بڑی طاقت ہے۔ ” قادر علی ان یخلق مثلھم “ اس کے بچپن اور چھوٹے ہونے کی وجہ سے اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا فرمان ” لخلق السموات والارض اکبر من خلق الناس “ ۔۔۔” وجعل لھم اجلا ً “ ان کے عذاب کا وقت ۔ ” لاریب فیہ “ ان کی طرف سے آنے والے معجزات میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ۔ بعض نے کہا کہ اجل سے مراد موت ہے۔ بعض نے کہا کہ اس سے مراد قیامت کا دن ہے۔ ” فابی الظالمون الا کفوراً “ ان کا انکار کرنا محض عناد و دشمنی کی وجہ سے ہے
Top