Tafseer-e-Baghwi - Al-Israa : 93
اَوْ یَكُوْنَ لَكَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰى فِی السَّمَآءِ١ؕ وَ لَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَیْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗ١ؕ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا۠   ۧ
اَوْ : یا يَكُوْنَ : ہو لَكَ : تیرے لیے بَيْتٌ : ایک گھر مِّنْ : سے۔ کا زُخْرُفٍ : سونا اَوْ : یا تَرْقٰى : تو چڑھ جائے فِي السَّمَآءِ : آسمانوں میں وَلَنْ نُّؤْمِنَ : اور ہم ہرگز نہ مانیں گے لِرُقِيِّكَ : تیرے چڑھنے کو حَتّٰى : یہانتک کہ تُنَزِّلَ : تو اتارے عَلَيْنَا : ہم پر كِتٰبًا : ایک کتاب نَّقْرَؤُهٗ : ہم پڑھ لیں جسے قُلْ : آپ کہ دیں سُبْحَانَ : پاک ہے رَبِّيْ : میرا رب هَلْ كُنْتُ : نہیں ہوں میں اِلَّا : مگر۔ صرف بَشَرًا : ایک بشر رَّسُوْلًا : رسول
یا تمہارا سونے کا گھر ہو یا تم آسمان پر چڑھ جاؤ اور ہم تمہارے چڑھنے کو بھی نہیں مانیں گے جب تک کہ کوئی کتاب نہ لاؤ جسے ہم پڑھ بھی لیں۔ کہہ دو کہ میرا پروردگار پاک ہے۔ میں تو صرف ایک پیغام پہنچانے والا انسان ہوں۔
93۔” او یکون لک بیت من زخرف “ اس سے مراد سونا ہے۔ اس سے زینت حاصل کرنا مراد ہے۔” او ترقی “ اور وہ اوپر کی جانب چڑھتا ہے۔” فی السمائ “ یہ عبد اللہ بن امیہ کا قول ہے ۔” ولکن تومن لرقیک “ اور وہ یہ کہتے کہ ہم اوپر آسمان پر چڑھنے کا یقین نہیں رکھتے۔” حتی تنزل علینا کتابا ً نصراہ “ ہم آپ کو اس کے ساتھ اتباع کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔ ” قل سبحان ربی “ ابن کثیر و ابن عامر نے ” قال “ پڑھا ہے۔ اس سے مراد محمد ﷺ ہوں گے اور دوسرے قراء نے اس کو امر کے صیغہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ کہہ دیجئے اے محمد ! (ﷺ) ” ھل کنت الابشراً رسولا ً “ اس کو حکم دیا کہ ان کی پاکی اور ان کی بزرگی بیان کرے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر آپ اس بات کا ارادہ کرتے ہیں کہ جو کچھ وہ طلب کرتے ہیں وہ اللہ نازل فرما دیں لیکن اللہ تعالیٰ کسی بشر کے معجزہ طلب کرنے پر کوئی آیت یا نشانی پیش نہیں کرتے اور میں بھی ایک بندہ ہی ہوں۔ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو نشانیاں اور معجزات عطا کیے جو ان کو تمام ماسوا سے مستغنی کرنے والے ہیں ۔ جیسے قرآن کا معجزہ و شق قمر کا معجزہ آپ کے ہاتھوں کی انگلیوں سے چشمے کا جاری ہونا اور ان جیسے معجزات اور قوم عام طور پر ان معجزات و آیات کا انکار کرتی ہیں ۔ اب ان کے لیے یہ نہیں کہ وہ اور کوئی دلیل طلب کریں تا کہ وہ اس پر ایمان لائیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے سوال کو ان پر لوٹا دیا۔
Top