Tafseer-e-Baghwi - Al-Israa : 90
وَ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبُوْعًاۙ
وَقَالُوْا : اور وہ بولے لَنْ نُّؤْمِنَ : ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے لَكَ : تجھ پر حَتّٰى : یہانتک کہ تَفْجُرَ : تو رواں کردے لَنَا : ہمارے لیے مِنَ الْاَرْضِ : زمین سے يَنْۢبُوْعًا : کوئی چشمہ
اور کہنے لگے کہ ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ (عجیب و غریب باتیں نہ دکھاؤ یعنی یا تو) ہمارے لئے زمین میں سے چشمہ جاری کردو۔
90۔” وقالولن تومن لک “ ہم اس کی تصدیق نہیں کریں گے۔” حتیٰ تفجر لنا من الارض ینبوعا ً ، تفجر تاء کے فتحہ اور جیم کے ضمہ کے ساتھ اور بغیر تشدید کے۔ ” ینبوعا ً “ واحد ہے اور باقی قراء نے تشدید کے ساتھ پڑھا ہے اور اس پر اتفاق ہے۔ جیسا کہ ایک آیت میں ہے ” فتفجر الانھار خلالھا تفحیرا ً “ انہار جمع ہے تشدید کے ساتھ ہے جو کثرت پر دلالت کرتا ہے اور اس کے بعد ” تفجیر ا “ فرمایا۔ حضرت ابن عباس ؓ کا مندرجہ ذیل بیان نقل کیا ہے کہ عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ ، ابو سفیان بن حرب اور قبیلہ عبد الدار کا ایک اور آدمی ( بقول بغوی نضر بن حارث ) اور ابو البختری ، اسود بن المطلب ، رمعہ بن اسود ، ولید بن مغیرہ، ابو جہل بن ہشام، عبد اللہ بن ابی امیہ ، امیہ بن خلف ، عاص بن وائل ، نبیہ بن حجاج، منبہ بن حجاج اور ان کے ساتھ کچھ اور لوگ سب کے سب غروب آفتاب کے بعد کعبہ کی پشت کے پاس جمع ہوئے اور باہم مشورہ کیا کہ کسی کو محمد ﷺ کے پاس بھیج کر ان کو بلوائو اور ان سے بات چیت کرو اور جھگڑا طے کرلو تا کہ تمام حجت ہوجائے اور ( پھر تم جو کچھ کرو) تم کو معذور سمجھا جائے ، چناچہ ایک شخص کو بھیج کر یہ پیام کہلوایا کہ تمہاری قوم کے سردار تم سے گفتگو کرنے جمع ہوئے ہیں آ کر بات چیت کرلو۔ رسول اللہ ﷺ کو خیال ہوا کہ لوگوں کی رائے میں کوئی تبدیلی پیدا ہوگئی ہے آپ تو دل سے چاہتے تھے کہ کسی طرح ان کو ہدایت ہوجائے ، پیام ملتے ہی فوراً چلے آئے ، جب آ کر بیٹھ گئے تو حاضرین نے کہا کہ محمد ﷺ ہم نے آدمی بھیج کر تم اس غرض سے بلوایا ہے کہ تمہارے متعلق ہم حجت تمام کردیں ، کوئی عربی شخص آج تک اپنی قوم پر وہ مشکلات نہیں لایا جو تم اپنی قوم پر لائے ہو تم نے اسلاف کو گالیاں دیں ، ان کے مذہب کو برا کہا ، اہل عقل کو سبک سرقرار دیا ، ان کو معبودوں کو برا بھلا کہا ، جماعت میں پھوٹ ڈال دی ، کوئی ایسی قبیح بات نہیں جو تم نے اپنے اور ہمارے درمیان پیدانہ کردی ہو ، اگر اس چیز ( قرآن اور اسلام) کو پیش کرنے سے تمہارا حصول زر ہے تو ہم آپس میں چند کر کے تم کو اتنا مال دینے کو تیار ہیں کہ تم سب سے زیادہ دولت مند ہو جائو اور اگر تم عزت کے طلب گار ہو تو ہم تم کو اپنا سردار بنالیں گے اور حکومت چاہتے ہو تو اپنا حاکم بھی تم کو قرار دے سکتے ہیں اور اگر کوئی جن تم پر مسلط ہوگیا ہے جو یہ کلام تم کو بتاتا ہے اور تم کو اس کو لوٹا نہیں سکتے تو ہم تمہارے علاج کے لیے اپنامال خرچ کرنے کو تیار ہیں ( کسی کاہن یا عامل کو روپیہ دے کر اس کا اتارکر دیں گے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جتنی باتیں تم نے کہیں ان میں سے کوئی بات بھی صحیح نہیں ہے۔ میں یہ قرآن پیش کر کے نہ زرکا طلب گار ہوں نہ عزت و سیادت کا ، نہ حکومت و اقتدار کا مجھے تو اللہ نے تمہارے پاس پیغمبر بنا کر بھیجا ہے اور مجھے ایک کتاب عطا فرمائی ہے اور مجھے حکم دیا کہ ( ماننے والوں کی جنت کی) خوشخبری دے دوں اور ( نہ ماننے والوں ک دوزخ سے) ڈرائوں ۔ اب میں اللہ کا پیام پہنچا چکا اور تم کو نصیحت کرچکا ، اگر مان لو گے تو یہ دنیا اور آخرت میں تمہاری خوش نصیبی ہوگی رد کر دو گے تو میں اللہ کے حکم پر صبر کروں گا اور منتظر رہوں گا کہ اللہ میرا اور تمہارا کیا فیصلہ کرتا ہے۔ کہنے لگے محمد جو کچھ ہم نے پیش کیا اگر تم کو وہ قبول نہیں تو ( اپنی پیغمبر کا ثبوت پیش کرو) تم واقف ہو کہ ہماری یہ بستی بہت تنگ ہے ( ہر طرف سے پہاڑ گھیرے ہوئے ہیں ہم اس کو کسی طرف بڑھا نہیں سکتے) اور ہمارے پامس مال بھی سب ( یعنی اہل یمن و شام) سے کم ہے اور ہماری زندگی بھی بہت زیادہ دکھی ہے۔ پس تم اپنے رب سے درخواست کرکے ان پہاڑوں کو جنہوں نے ہماری بستی کو تنگ کر رکھا ہے۔ یہاں سے ہٹوا دو کہ ہمارا یہ شہر پھیل جائے اور شام و عراق کی طرح ( ہمارے ملک میں بھی) ہمارے لیے دریا بہا دو اور یہ بھی اپنے رب سے کرا دو کہ ہمارے آباء و اجداد زندہ ہوجائیں جن میں قصی بن کلاب ( قریش کا مورث اعلیٰ ) بھی ضرور ہو وہ بڑا سچا آدمی تھا۔ پھر ہم ان سب سے دریافت کریں کہ جو کچھ تم کہہ رہے ہو وہ سچ ہے یا جھوٹ، اگر وہ تمہاری تصدیق کردیں گے تو ہم بھی تم کو سچا مان لیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے اس لیے نہیں بھیجا گیا جو پیام مجھے دے کر بھیجا گیا تھا وہ میں نے تم کو پہنچا دیا ، اگر مان لوگے تو دنیا و آخرت میں یہ تمہاری خوش نصیبی ہوگی قبول نہ کرو گے تو میں اللہ کے حکم کے انتظار میں صبر کروں گا ۔ کہنے لگا اچھا اگر تم یہ نہیں کرتے تو اپنے رب سے کہہ کر اتنا ہی کرا دو کہ وہ تمہاری تصدیق کرنے کے لیے ایک فرشتے کو بھیج دے اور تم کو کچھ باغ اور سونے چاندی کے خزانے دے دے کہ جس تکلیف ( اور افلاس) میں ہم تم کو دیکھ رہے ہیں اس سے تم بےغم ہ جائو ، تم بازاروں میں کھڑے ہماری طرح روزی کی جستجو میں لگے رہتے ہو پھر اس کی فکرکو نہ رہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا اللہ نے مجھے اس لیے نہیں بھیجا ، مجھے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے ، کہنے لگے اچھا تو ہمارے اوپر آسمان کو ہی گروا دو کیونکہ تمہارا دعویٰ ہے کہ تمہارا رب اگر چاہے تو ایسا کرسکتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا یہ اختیار اللہ کو ہے اگر وہ تمہارے ساتھ ایسا کرنا چاہے گا تو کردے گا ، ایک شخص بولا ہم تو تمہاری بات اس وقت تک نہیں مانیں گے جب تک اللہ اور فرشتوں کو تم ہمارے سامنے لا کر شہادت نہ دلوا دو یہ بات سن کر رسول اللہ ﷺ اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کے ساتھ آپ کی پھوپھی عاتکہ بنت عبد المطلب کا لڑکا عبد اللہ بن ابی امیہ بھی اٹھ کھڑا ہوا اور ( راستہ میں ) کہنے لگے محمد ! (ﷺ) تمہاری قوم نے چند باتیں تمہارے سامنے رکھیں اور تم نے کسی بات کو قبول نہیں کیا۔ پھر انہوں نے چند باتیں طلب کیں جن سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ کے ہاں تمہارا مرتبہ خصوصی ہے تم نے ان کو نہ مانا ، پھر انہوں نے تم سے کہا کہ جس عذاب سے تم ڈرا رہے ہو وہ جلد لے آئو تم نے ایسا بھی نہیں کیا اب بخدا میں تمہاری اس بات کا صرف اس وقت ہی یقین کرسکوں گا کہ تم میری نظر کے سامنے سیڑھی لگا کر آسمان پر چڑھ جائو ۔ پھر میرے سامنے وہاں سے ایک کھلی ہوئی کتاب لے کر آ جائو اور تمہارے ساتھ چار فرشتے بھی آئیں جو تمہاری تصدیق کریں اور میرا تو خیال ہے کہ اگر تم ایسا کر بھی گزرو گے تب بھی میں تمہاری تصدیق نہیں کرسکوں گا۔ کافروں کی اتنی نفرت دیکھ کر رسول اللہ ﷺ غمگین ہو کر اپنے گھر لوٹ آئے اور آیات ذیل ” بشر ا رسولا ً “ تک نازل ہوئیں۔
Top