Tafseer-e-Baghwi - Al-Israa : 87
اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ١ؕ اِنَّ فَضْلَهٗ كَانَ عَلَیْكَ كَبِیْرًا
اِلَّا : مگر رَحْمَةً : رحمت مِّنْ رَّبِّكَ : تمہارے رب سے اِنَّ : بیشک فَضْلَهٗ : اس کا فضل كَانَ : ہے عَلَيْكَ : تم پر كَبِيْرًا : بڑا
مگر (اس کا قائم رہنا) تمہارے پروردگار کی رحمت ہے۔ کچھ شک نہیں کہ تم پر اسکا بڑا فضل ہے۔
87۔” الا رحمۃ من ربک “ لیکن ہم نے اپنے رب کی رحمت کی وجہ سے ایسا نہیں کیا ۔ ” ان فضلہ کان علیک کبیرا ً “ اگر یہ سوال کیا جائے کہ یہ سوال کیا جائے کہ یہ کیسے ہمارے سینوں سے مٹ جاتا حالانکہ یہ تو کلام اللہ ہے۔ اس کا جواب دیا کہ مصاحف سے مٹ جانا اور سینے سے بھول جانا ۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا ، قیامت سے پہلے قرآن کو اٹھا لیا جائے گا ۔ قبل اس کے کہ قرآن اٹھا لیا جائے تم اس کو پڑھا کرو ( یعنی اس کو سمجھ لو اور اس پر عمل کرو) ایک شخص کہنے لگا یہ تحریریں تو اٹھائی جاسکتی ہیں ( کہ نئی نقلیں کرنا لوگ چھوڑ دیں اور پرانی تحریریں بوسیدہ فرسودہ ہو کر مٹ جائیں، مترجم) لیکن جو قرآن سینوں میں ہوگا رہ کیسے اٹھا لیا جائے گا ، فرمایا لوگ رات گزاریں گے سینوں میں قرآن ہوگا ، پھر اٹھا لیا جائے گا ، صبح کو اٹھیں گے تو کچھ بھی یاد نہ ہوگا اور نہ لکھئے ہوئے کاغذوں میں کچھ ملے گا ۔ آخر شاعری میں لگ جائیں گے ( اور قرآن کی جگہ شاعری لے لے گی) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص نے فرمایا قیامت برپا ہونے سے پہلے قرآن لوٹ کر وہیں چلا جائے گا جہاں سے اترا تھا، شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح عرش کی گرد اگر اس کی گن گناہٹ ہوگی ، اللہ فرمائے گا کیوں کیا بات ہے ؟ قرآن کہے گا اے میرے مالک مجھے پڑھا تو جاتا ہے مگر مجھ پر عقل نہیں کیا جاتا۔
Top