Tafseer-e-Baghwi - Al-Israa : 79
وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ١ۖۗ عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا
وَمِنَ : اور کچھ حصہ الَّيْلِ : رات فَتَهَجَّدْ : سو بیدار رہیں بِهٖ : اس (قرآن) کے ساتھ نَافِلَةً : نفل (زائد) لَّكَ : تمہارے لیے عَسٰٓي : قریب اَنْ يَّبْعَثَكَ : کہ تمہیں کھڑا کرے رَبُّكَ : تمہارا رب مَقَامًا مَّحْمُوْدًا : مقام محمود
اور بعض حصہ شب میں بیدار ہوا کرو (اور تہجد کی نماز پڑھا کرو یہ شب خیزی) تمہارے لئے (سبب) زیادت (ثواب) ہے اور قریب ہے کہ خدا تم کو مقام محمود میں داخل کرے۔
79۔” ومن اللیل فتھجدبہ “ اپنی نیند کے بعد کچھ قیام کیجئے کیونکہ تہجد کا وقت رات سونے کے بعد ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سو گیا پھر وہ بیدار ہوگیا ۔ اس آیت سے مراد قیام اللیل ہے۔ تہجد کی نماز ابتداء ً نبی کریم ﷺ پر فرض تھی اور آپ ﷺ کی امت پر بھی فرض تھی ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ ” یایھا المزمل قم اللیل الا قلیلا ً “ پھر اس کے بعد تخفیف نازل ہوئی ۔ پھر اس کا وجوب منسوخ ہوگیا ۔ امت کے حق میں اور پانچ نمازیں فرض ہوگئیں اور استحباب باقی رہا ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ” فاقرء واما تیسر من القرآن “ نبی کریم ﷺ کے حق میں وجوب باقی رہا۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا تین اشیاء نبی کریم ﷺ پر فرض ہیں اور تمہارے لیے سنت ہیں ۔ وتر ، مسواک اور رات کا قیام ( تہجد) ” نافلۃ لک “ اور وہ تمہارے لیے زائد ہیں۔ اس سے مراد زائد فضلیت ہے۔ تمام فرائض پر کیونکہ آپ پر اللہ نے اس کو فرض کیا ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک تہجد کا وجوب منسوخ ہے۔ آپ ﷺ کے حق میں بھی جس طرح امت کے حق میں منسوخ ہوگیا تھا۔ اب یہ آپ ﷺ کے حق میں نفل ہوگیا ۔ یہ قول مجاہد اور قتادہ کا ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ” فافلۃ لک “ ارشاد فرمایا اور یہ ارشاد نہیں فرمایا ” علیک “ آپ پر سوال یہ ہوگا کہ پھر اس میں تخصیص کی کیا وجہ ہے جس طرح آپ پر خاص تھا اسی طرح تمام مسلمانوں پر تہجد فرض تھی ۔ تخصیص یہ تھی کہ بندوں کے نوافل ان کے گناہوں کا کفارہ بنتا تھا اور آپ کے نوافل آپ کے درجات کی بلندی کا سبب بنتا تھا اور آپ کے نوافل آپ کے درجات کی بلندی کا سبب بنتا تھا کیونکہ آپ ﷺ کے ” ماتقدم من ذنبہ وما تاخر “ آپ ﷺ کے نوافل گناہوں کا کفارہ جب نہیں بنتے تو رفع درجات کا ذریعہ بنتے ہیں۔ نوافل نماز کے متعلق احادیث مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ رات کا قیام کرتے تھے حتی ٰکہ آپ ﷺ کے پائوں سوج جاتے تھے ۔ آپ ﷺ کو کہا گیا کہ آپ اتنا تکلیف کیوں کرتے ہیں حالانکہ آپ کے پچھلے اور اگلے تمام گناہ معاف کردیئے گئے ہیں ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” افلا عبدا ً شکوراً “ کہ میں شکر کرنے والا بندہ کیوں نہ بنوں۔ زید بن خالد جن ہی ؓ کا قول ہے کہ میں رات کو رسول اللہ ﷺ کی نماز کو غور سے دیکھنا چاہتا تھا اس لیے میں حضور ﷺ کے دروازے کی دہلیز پر تکیہ لگائے دیکھتا رہا ۔ آپ اٹھے اور دو ہلکی رکعتیں پڑھیں ، پھر دو طویل رکعتیں پڑھیں ، دو طویل رکعتیں ، دو طویل رکعتیں پھر دو رکعتیں پڑھیں جو اس سے پہلے والی رکعتوں سے کم تھیں، پھر دو رکعتیں جو ان سے بھی چھوٹی تھیں ، پھر دو رکعتیں پڑھیں جو ان سے بھی کم تھیں، پھر دو رکعتیں جو ان سے بھی چھوٹی تھیں ، پھر دو رکعتیں جو ان سے بھی کم تھیں ، اس کے بعد وتر پڑھے، یہ کل تیرہ رکعتیں ہوئیں۔ حضرت عبد الرحمن نے حضرت عائشہ ؓ سے حدیث بیان کی کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے آپ ﷺ کی رمضان کی نماز کے متعلق دریافت کیا ۔ فرمایا کہ آپ ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں ( رات کی نماز) گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے کہ آپ ﷺ کی پہلی چار رکعتوں کی خوبی اور طول کے حال کے کیا کہنے ۔ پھر چار رکعتوں کی خوبی اور طول بھی ناقابل بیان ہے۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے تھے ، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ وتر پڑھنے سے پہلے آپ سو جاتے ہیں۔ فرمایا عائشہ ! ؓ میری آنکھیں سوتی ہیں دل نہیں سوتا ۔ حضرت عمرو بن زبیر ؓ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ؓ ارشاد فرماتی ہیں کہ عشاء کی نماز سے فراغت کے بعد فجر تک رات میں رسول اللہ ﷺ گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھے اور آخر میں ایک رکعت پڑھتے تھے اور دو سجدے کرتے تھے جس کی مقدار سر اٹھانے سے پہلے اتنی ہوتی تھی کہ آدمی پچاس آیات پڑھ لے اور مؤذن اذان فجر کہہ کے جب خاموش ہوجاتا اور فجر نمودارہو جاتی تو آپ اٹھ کر دو خفیف رکعتیں پڑھتے ، پھر دائیں کروٹ پر لیٹ جاتے ، پھر مؤذن آ کر نماز کی اطلاع دیتا اور آپ نماز کے لیے باہر تشریف لے جاتے۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ جب بھی ہم نبی کریم ﷺ کو نماز میں مشغول دیکھتے تو آسانی سے دیکھ سکتے تھے اور جب ہم نبی کریم ﷺ کو سوتے دیکھنا چاہتے تو آسانی سے دیکھ لیتے۔ راوی فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ پورے ماہ کے روزے رکھنے لگتے تو ہم کہنے لگے کہ اب آپ ﷺ کبھی افطار نہیں کریں گے اور جب آپ ﷺ افطار کرنے لگتے تو ہم کہتے کہ آپ ﷺ اب کبھی روزہ نہیں رکھیں گے۔ ” عسیٰ ان یبعثک ربک مقاما ً محموداً “ جب عسیٰ کا لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے استعمال کیا جائے تو اس کا معنی واجب کا ہوگا کیونکہ وہ کسی بندے کو کوئی چیزدے کر اس کو ترک نہیں کردیتا ۔ مقام محمود سے کیا مراد ہے ؟ مقام محمود سے مراد شفاعت کا مقام ہے جہاں اپنی امت کے لیے شفاعت فرمائیں گے ۔” اولون وآخرون “ تمام محامد فرمائیں گے۔ حضرت عمرو بن العاض ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم مؤذن کی آواز سنو تو تم بھی مؤذن کی طرح الفاظ کہو، پھر مجھ پر درود بھیجو کیونکہ جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس بار رحمت بھیجے گا ۔ پھر وہ میرے لیے وسیلہ کی دعا کرے کیونکہ وہ جنت میں ایک مقام کا نام ہے، بندوں کے لیے مناسب نہیں کسی ایک کے لیے ہے اور میں امید کرتاہوں کہ وہ میں ہوں جو شخص میرے لیے وسیلہ کی دعاکرے گا اس کے لیے شفاعت ہوگی ۔ حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اذان کی آواز سننے کے بعد ارشاد فرمایا ” اللھم رب ھذہ الدعوۃ التامۃ والصلوٰۃ والقائمہ آت محمدن الوسیلۃ والفضیلۃ وابعثہ مقاما ً محموداً الذی وعدتہ “ اس کے لیے شفاعت واجب ہوجائے گا ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر نبی کے لیے اس کی دعا قبول کی جاتی ہے اور مجھے اختیار دیا گیا ہے کہ میں اپنی امت کے لیے شفاعت کی دعا کروں اور وہ تمہیں پہنچنے والی ہے اگر اللہ چاہے جو شرک پر نہ مرا ہے۔ شفاعت کبری حضرت انس ؓ کی روایت سے صحیحین میں آیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن مسلمانوں کو روک دیا جائے گا جس کی وجہ سے ان کو فکر ہوگی اور وہ کہیں گے کاش ! ہم کسی سے اپنے رب کے دربار میں سفارش کرا سکتے ہیں اور اللہ اس مقام سے ہم کو بچا دیتا ، چناچہ لوگ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس جا کر کہیں گے ، آپ سب لوگوں کے باپ ہیں، اللہ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا اور اپنی جنت میں آپ کو جگہ دی اور فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا اور تمام چیزوں کے نام آپ کو سکھا دیئے ، آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کر دیجئے کہ وہ اس جگہ سے ہم کو رہائی عطا فرما دے ۔ آدم (علیہ السلام) فرمائیں گے میں تمہارے لیے اس مقام پر نہیں ہوں ، آپ کو درخت ممنوعہ کا پھل کھانے کا اپنا قصور یاد ہوگا ۔ فرمائیں گے تم لوگ نوح (علیہ السلام) کے پاس جائو ( طوفان کے بعد) وہ پہلے پیغمبر تھے جن کو اللہ نے زمین والوں کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا تھا۔ لوگ حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) فرمائیں گے میں اس مقام پر نہیں ہوں ، آپ کو اپنا وہ قصور یاد ہوگا کہ نادانی میں ( اپنے بیٹے کے لیے) نجات کی درخواست کی ۔ پھر آپ فرمائیں گے تم لوگ ابراہیم خلیل الرحمن کے پاس جائو ، لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے ، آپ فرمائیں گے میں اس مقام پر نہیں ہوں آپ کو اپنے وہ تین جھوٹ یاد ہوں گے جو آپ کی زبان سے نکلے تھے ( شاہ مصر کے سامنے، حضرت سارہ کو اپنی بہن قرار دینا اور قوم کے ساتھ میلے میں شرک نہ کرنے کے لیے اپنے کو بیمار کہنا اور بتوں کو خود توڑنے کے بعد قوم کے سامنے یہ کہنا کہ بڑے بت سے پوچھو اس نے ایسا کیا ہے) آپ کہیں گے تم لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائو ، ان کو اللہ نے تورات عنایت فرمائی تھی ، ان سے کلام کیا تھا، ان کو اپنا مقام بنا کر خطاب کیا تھا۔ لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرمائیں گے میں اس مرتبے پر نہیں ہوں ، آپ کو اپنی وہ غلطی یاد ہوگی کہ ایک آدمی کو ( غلطی سے) قتل کردیا تھا۔ فرمائیں گے تم لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائو ، وہ عبد اللہ تھے، رسول اللہ تھے ، روح اللہ تھے ، کلمۃ اللہ تھے، لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے ، آپ (علیہ السلام) جواب دیں گے میں اس مقام پر نہیں ہوں ، تم لوگ محمد ﷺ کے پاس جائو ، اللہ نے ان کی اگلی پچھلی لغزشیں معاف فرما دی تھیں ۔ لوگ میرے پاس آئیں گے میں اپنے رب سے اس کے مکان میں داخل ہونے کی اجازت کا طلب گارہوں گا اور اجازت ملنے پر اس کے پاس داخل ہوں گا اور جوں ہی میری نگاہ اس پر پڑے گی فوراً سجدے میں گر پڑوں گا اور جتنی دیر اللہ چاہے گا سجدے میں پڑے رہوں گا ۔ پھر اللہ فرمائے گا محمد ﷺ سر اٹھا اور ( جو کچھ کہنا ہے) بیان کر ، تیری بات سنی جائے گی ۔ مانگ ( جو کچھ مانگنا) چاہے) تیرا سوال پور ا کیا جائے گا ۔ میں سجدے سے سر اٹھائوں گا اور اپنے رب کی وہ حمد وثناء کروں گا جو مجھے وہ سکھا دے گا ، پھر شفاعت کروں گا ۔ اللہ تعالیٰ میرے لیے ایک حد مقرر کر دے گا ( یعنی محدود تعداد کی رہائی کا حکم دے دے گا ) میں جا کر ان کو دوزخ سے نکال کر جنت میں پہنچا دوں گا ، پھر لوٹ کر آئوں گا اور دوبارہ بارگاہ الٰہی میں داخلے کی اجازت کا خواستگار ہوں گا اور اجازت مل جائے گی اور اندر داخل ہوں گا اور جونہی میری نظر اس پر پڑے گی فوراً سجدے میں گر پڑوں گا اور جتنی دیر اللہ چاہے گا سجدے میں پڑا رہوں گا ، پھر اللہ فرمائے گا ، محمد سر اٹھائو ( اپنا مقصد) بیان کرو، تمہاری بات سنی جائے گی ، شفاعت کروتمہاری سفارش قبو ل کی جائے گی ، مانگو ، تمہارا سوال پورا کیا جائے گا ، میں سر اٹھائوں گا اور حسب تعلیم الٰہی اپنے رب کی حمد وثناء کروں گا ، پھر شفاعت کروں گا ، اللہ میرے لیے ( دوزخ سے لوگوں کو باہر نکال لانے کی) حد مقرر فرمادے گا ، میں بارگاہ خدا وندی سے باہر آ کر ان کو دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کر دوں گا ( تیسری مرتبہ بارگاہ خداوندی میں داخل ہونا سجدہ میں گرپڑنا اللہ کی طرف سے خطاب ہونا سجدے سے سر اٹھا کر حمد وثناء کرنا ، قیدیوں کی محدود تعداد کو رہا کرنے کا حکم ملنا اور جا کر ان کو دوزخ سے نکاح کر جنت میں پہنچا دینا بھی انہی الفاظ کے ساتھ اس حدیث میں حضور ﷺ نے بیان فرمایا ہے جو اوپر ذکر کیے گئے ہیں ۔ اس کے آخر میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا) یہاں تک کہ دوزخ کے اندر سوائے ان لوگوں کے جن کو ( ہمیشہ دوزخ میں رکھے جانے کی قرآن نے صراحت کردی ہے اور) قرآن نے ( ہمیشہ کے لیے ان کو) دوزخ میں روک دیا ہے اور کوئی باقی نہیں رہے گا ۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ” عسیٰ ان یبعثک ربک مقاما ً محمودا ً ‘ ‘ حضور ﷺ نے فرمایا یہ ہی وہ مقام محمود ہوگا جس کا وعدہ اللہ نے تمہارے نبی کے لیے کرلیا ہے۔ صحیحین میں حضرت انس ؓ کی روایت سے بھی یہ حدیث شفاعت ذکر کی گئی ہے۔ اس روایت میں حدیث کے الفاظ اس طرح آئے ہیں ، میں اپنے رب کے پاس داخل ہونے کی اجازت طلب کروں گا ، مجھے اجازت مل جائے گی اور اللہ میرے دل میں کچھ کلمات حمد القاء کر دے گا جن سے میں اپنے رب کی حمد کروں گا ، اس وقت وہ الفاظ میرے سامنے نہیں ( یعنی جو کلمات حمد میں قیامت کے دن مقام شفاعت میں پہنچ کر استعمال کروں گا وہ اس وقت میرے ذہن میں نہیں ) میں انہی الفاظ سے اپنے رب کی حمد کروں گا ، پھر سجدہیں گرپڑوں گا ، اللہ فرمائے گا محمد (ﷺ) سر اٹھائو اور ( جو کچھ گزارش کرنا چاہتے ہو) بیان کرو تمہاری بات سنی جائے گی ، مانگو تم کو دیا جائے گا ۔ شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی ۔ میں عرض کروں گا یا رب امتی امتی ، حکم ہوگا جائو اور جس کے دل میں جو کے برابر ایمان ہو اس کو نکال لائو ، میں جا کر حکم کی تعمیل کروں گا ، پھر واپس آ کر وہ کلمات ثنائیہ ( حسب سابق) عرض کروں گا ۔ پھر سجدے میں گر پڑوں گا حکم ہوگا جا کر اس کو نکال لو جس کے دل میں رائی کے دانے سے بھی کم ایمان ہو، میں جا کر ایسا ہی کروں گا ۔ پھر حضور ﷺ نے تیسری اور چوتھی مرتبہ جانے اور شفاعت کرنے کا ذکر فرمایا اور فرمایا میں عرض کروں گا ، اے میرے رب مجھے ان لوگوں کے نکال لینے کی اجازت دے دے جو لاالٰہ الا اللہ کے قائل تھے، اللہ فرمائے گا قسم ہے اپنی عزت و جلال و کبریا اور عظمت کی جو لاالٰہ الا اللہ کا قائل تھا میں اس کو ضرور ضرور (دوزخ سے) نکال دوں گا ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن سورج اتنا قریب آجائے گا کہ ہر شخص پسینے کی وجہ سے ڈوبا ہوگا ۔ اسی حالت میں لوگ حضرت آدم (علیہ السلام) سے فریاد کریں گے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) فرمائیں گے مجھے اس کا اختیار نہیں ۔ پھر محمد ﷺ کی باری آجائے گی اور وہ شفاعت کریں گے اور اللہ فیصلہ کرے گا ۔ محمد ﷺ جا کر جنت کا دروازہ پکڑ لیں گے ، اس روز اللہ ان کو مقام محمود میں کھڑا کرے گا ، یہ مقام ایسا ہوگا کہ میدان قیامت میں جمع ہونے والے سب لوگ اس کی تعریف کریں گے۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں سب سے پہلے اٹھنے والا ہوں گا جب قبروں سے اٹھایا جائے گا اور میں سب کے آگے ہوں جب تمام وفود آئیں گے اور میں بولوں گا جس دن سب خاموش ہوجائیں گے اور میں ہی سب کی شفاعت کرنے والا ہوں گا جب سب کو روکا جائے گا اور میں ہی خوشخبری سنانے والا ہوں گا جب سب مایوں ہوجائیں گے ۔ اس دن عزت اور خزانوں کی چابیاں میرے ہاتھ میں ہوں گی اور تعریف کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا اور آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے میں سب سے عزت والا ہوں گا ، میرے ارد گرد ایک ہزارخادم چکر لگائیں گے کہ وہ چمکتے ہوئے موتی ہیں یا جڑے ہوئے موتی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں گا اور پہلے جس کی قبر کھودی جائے گی وہ میری ہوگی اور میں ہی پہلا شفیع اور مشفع ہوں گا ۔ شفاعت کے متعلق بہت ساری احادیث مروی ہیں ان کا انکار کرنے والا عمرو بن عبید تھا جو اہل سنت والجماعت کی متفقہ رائے کے مطابق بدعتی ہے۔ یزید بن صہیب فقیر نے کہا خوراج کی رائے نے مجھے فتنہ میں ڈال دیا تھا ، ایک بار حج کے ارادے سے ایک جماعت کے ساتھ ہم چلے اور مدینے کی طرف سے گزر ہوا تو وہاں جابر بن عبد اللہ ؓ رسو ل اللہ ﷺ کی حدیث بیان کر رہے تھے اور جہنمیوں کا انہوں نے ذکر کیا تھا۔ میں نے حضرت جابر ؓ سے کہا اے رسول اللہ ﷺ کے صحابی ! آپ یہ کیا بیان کر رہے ہیں ( اللہ نے تو فرمایا ہے ” انک من تدخل النار فقد اخزیتہ ، کلما ارادوا ان یخرجوا منھا اعیدوا فیھا “ بیشک تو جس کو آگ میں داخل کر دے گا اس کو رسوا کر دے گا اور دوزخی جب دوزح سے نکلنا چاہیں گے تو ان کو دوزخ کے اندر ہی لوٹا یا جائے گا ۔ حضرت ابو وائل ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ رب العزت نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دوست بنایا اور تمہارا صاحب بھی اللہ کا دوست ہے ۔ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی ” عسیٰ انت یبعثک ربک مقاماً محمودا “ مجاہد کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں ’ ’ عسیٰ ان یبعثک ربک مقاما ً محمودا ً “ فرمایا وہ اپنے عرش پر بیٹھے ، عبد اللہ بن سلا م کا قول ہے کہ فرمایا وہ اپنی کرسی پر متمکن ہوا۔
Top