Tafseer-e-Baghwi - Al-Israa : 55
وَ رَبُّكَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ لَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیّٖنَ عَلٰى بَعْضٍ وَّ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا
وَرَبُّكَ : اور تمہارا رب اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَنْ : جو کوئی فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَ : اور لَقَدْ فَضَّلْنَا : تحقیق ہم نے فضیلت دی بَعْضَ : بعض النَّبِيّٖنَ : (جمع) نبی) عَلٰي بَعْضٍ : بعض پر وَّاٰتَيْنَا : اور ہم نے دی دَاوٗدَ : داو ود زَبُوْرًا : زبور
اور جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں تمہارا پروردگار ان سے خوب واقف ہے اور ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض پر فضیلت بخشی اور داوٗد کو زبور عنایت کی۔
55۔” وربک اعلم بمن فی السموات والارض “ یعنی تمہارا رب جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں سے ہے ان کو مختلف صورتوں دے کر اور ہر ایک کو الگ الگ اخلاق سے آراستہ کر کے ان کو مختلف احوال سے اور بادشاہت سے نوازا ۔ ” ولقد فضلنا بعض النبین علی بعض “ بعض نے کہا کہ اس سے مراد آسمان والے اور زمین والے ہیں کہ بعض آسمان والوں کو زمین والوں سے بلند مرتبہ عطا کیا اور بعض زمین والوں کو بعض زمین والوں سے فضلیت بخشی۔ جیسے بعض انبیاء کو بعض پر فضلیت دی ۔ قتادہ کا بیان ہے کہ اس کی مثال یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا خلیل اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کلام سے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ” کن فیکون “ کے لفظ سے پیدا کر کے ان امور سے سرفراز فرمایا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو عظیم سلطنت عطا فرمائی کہ ان کے بعد ایسی سلطنت کسی کو نہیں ملی اور حضرت دائود علیہ اسلام کو زبور عطافرمائی۔ ” وآتینا دائود زبورا ً “ زبور وہ کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود (علیہ السلام) کو سکھائی جو ایک سو پچاس سورتوں پر مشتمل تھی ۔ اس میں سب دعائیں اور اللہ کی حمد وثناء تھی اس میں کوئی حلال و حرام اور کوئی چیز فرض نہیں کی گئی اور نہ ہی اس میں کوئی حدود غیر تھے۔ اس آیت کا معنی یہ ہوگا کہ یہ انبیاء (علیہم السلام) کی اس فضلیت کے منکر نہیں تو پھر نبی کریم ﷺ کی فضلیت کے منکر کیسے ہوگئے اور ان کو جو قرآن دیا گیا اس کے منکر کیسے ہوگئے۔ یہ خطاب ان تمام لوگوں کے ساتھ ہے جو انبیاء علہیم السلام کی فضلیت کے قاتل ہیں ۔ اہل کتاب میں سے ان کے علاوہ اور مذاہب کے لوگوں میں سے۔
Top