Asrar-ut-Tanzil - Al-An'aam : 96
فَالِقُ الْاِصْبَاحِ١ۚ وَ جَعَلَ الَّیْلَ سَكَنًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ حُسْبَانًا١ؕ ذٰلِكَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ
فَالِقُ : چیر کر (چاک کر کے) نکالنے والا الْاِصْبَاحِ : صبح وَجَعَلَ : اور اس نے بنایا الَّيْلَ : رات سَكَنًا : سکون وَّالشَّمْسَ : اور سورج وَالْقَمَرَ : اور چاند حُسْبَانًا : حساب ذٰلِكَ : یہ تَقْدِيْرُ : اندازہ الْعَزِيْزِ : غالب الْعَلِيْمِ : علم والا
وہ صبح کا نکالنے والا ہے۔ اور رات کو (موجب) آرام بنایا اور سورج اور چان (کی رفتار کو) حساب کے لئے رکھا یہ (اللہ کے) مقرر کیے ہوئے (اندازے) ہیں جو غالب ہے حکمت والا ہے
رکوع نمبر 16 ۔ آیات نمبر 96 تا 100 ۔ اسرار و معارف : کفار و مشرکین کے عقاید باطلہ کے لیے دلائل عقلی پر بحث فرماتے ہوئے ارشاد ہوا کہ کارگہ حیات میں جو گرمی حیات ہے ذرا اس پر غور کرو اور یہ دیکھو کہ کونسی ایسی عظیم طاقت ہے جو گٹھلی سے درخت نکال کر کھڑا کردیتی ہے کو ن ہے جو دانے سے ہری بھری کھیتیاں پیدا فرماتا ہے یقیناً اللہ ہی واحد ذات ہے ورنہ مخلوق تو خود پیدا ہوتی ہے جب یہ نہ تھے جنہیں تم اپنا حاجت روا سمجھ رہے ہو تو بھی گٹھلی اور دانہ تو اگتے تھے بلکہ عالم حیوانات میں توالد و تناسل کا نظام خود دعوت فکر دے رہا ہے کہ نطفے یا انڈے سے زندہ بچہ اور زندہ جانور سے نطفہ یا انڈہ مزید جاندار کو پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے یہ کتنی عجیب کاریگری ہے کہ بےجان سے جاندار کو پیدا کردیتا ہے اور جاندار سے آگے چلانے کے لیے پھر بےجان قطرے کو سبب بنا دیتا ہے اس طرح پیدا ہونے والی مخلوق کو کیوں شریک ٹھہراتے ہو یہ کیسی واہیات بات ہے جسے تم نے اختیار کر رکھا ہے یہ تو زمینی نظام ہے ذرا آسمان کی طرف نگاہ کرو اور دیکھو کون ہے جو ظلمت شب سے سپیدہ سحر کو پیدا کر رہا ہے تاریکی تو روشنی کی دشمن تھی اس کی کوکھ سے روشنیوں کو جنم دینے والا کون ہے اور خود شب کی تاریکی اگرچہ لوگوں کو بھاتی نہ ہو مگر اللہ نے یہ بھی بہت بڑی نعمت پیدا فرما دی کہ دن بھر کے تھکے ہارے انسان رات کو آرام پاتے ہیں ان کی توانائیاں پھر سے جمع ہو کر نئے دن کو کام کرنے کے قابل ہوجاتی ہیں ذرا عقل کو کام میں لاؤ اور سوچو کہ اگر رات نہ ہوتی تو کیا روئے زمین کے انسان مل کر بھی آرام کا کوئی وقت طے کرسکتے تھے یا جو آرام رات دیتی ہے اسے دن کی روشنی میں پا سکتے تھے ہرگز ممکن نہ تھا۔ شمسی و قمری حساب : یہ صرف اللہ تعالیٰ کا احسان ہے ذرا دیکھو چاند اور سورج کو کس طرح ایک مقرر راستے پر اور مقررہ اوقات میں پابند کردیا کہ دیگر بیشمار فوائد کے ساتھ وقت کا شمار ہی کتنی بڑی نعمت ہے یہ اتنے بڑے روشن کرے اس پابندی سے حرکت کرتے ہیں کہ دن رات گھنٹے منٹ اور سیکنڈ تک اوقات کا شمار ممکن ہے یہاں چاند اور سورج دونوں کو وقت کے شمار کے لیے فرمایا گیا ہے اس لیے شمسی حساب سے تاریخ یا مہ و سال کا حساب منع اور گناہ نہیںٰ ہاں عبادات کو قمری حساب پر معین فرمایا جس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ چاند کے طلوع و غروب سے ہر آدمی آسانی سے حساب کرسکتا ہے چونکہ رمضان اور حج وغیرہ عبادات کا مدار قمری شمار پر ہے اس لیے اس کی حفاظت ضروری اور ترک سخت گناہ ہے مگر روز مرہ کی باتوں میں شمسی حساب منع نہیں ہاں اس کا ترک گناہ نہ ہوگا یہ سب اس غالب اور قدرت والے واحد لاشریک کے مقرر کردہ امور ہیں ورنہ مخلوق تو آج بھی اتنی ہی عاجز ہے جتنی روز اول تھی بھلا سارے لوگ مل کر بھی چاند یا سورج کی حرکت میں جلدی یا تاخیر کرسکتے ہیں ہرگز نہیں اللہ کریم ایسا قادر ہے کہ ایک ایک ستارے کا وقت طلوع و غروب اور راہ سفر اس طرح مقرر فرما دیا کہ تم خشکی میں یا سمندر میں رات کی تاریکیوں میں انہیں دیکھ کر راستہ معین کرلیتے ہو۔ یہ ایسی زبردست نشانیاں ہیں کہ ذرا علم و شعور ہو تو انسان کے پاس عظمت باری کے اقرار کے سوا چارہ نہیں۔ ذرا اپنا حال دیکھو اس قادر مطلق نے تمہیں ایک نفس سے حضرت آدم (علیہ السلام) سے پیدا فرمایا اور پھر تم میں طریق توالد و تناسل جاری کردیا یہ پیدائش صلب پدر ہو کہ شکم مادر زندگی ہو یا موت سب تمہارے چند روزہ ٹھکانے بنائے اور آخرت کو تمہاری منزل بنا دیا تم خود اثنائے راہ میں ہو ذرا آگے جانے والوں کو دیکھو اور پیچھے آنے والوں پہ نگاہ کرو اگر تم میں ذرا سوچنے کا مادہ باقی ہے تو تمہیں واضح دلائل مل جائیں گے۔ بارش پر غور کرو کس طرح پانیوں کو بلندی پہ لے جاتا ہے بادل کو ہوا اڑائے پھرتی ہے مگر جب پانی برستا ہے تو زمین بھی سنبھالنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ کن بلندیوں سے لا کر اسے زمین کی تہوں میں پہنچا دیا اور اسے تمام نباتات کے اگنے کا سبب بنا دیا کبھی سمندر تھا پھر بادل میں نظر آیا فضا میں تیرتے ہوئے قطروں کی شکل میں برسا اب نباتات اور درختوں میں جان بن کر دوڑ رہا ہے سبرزے اور چارے میں موجود ہے غلے اور دانے موتیوں کی طرح پروئے ہوئے آ رہے ہیں کھجور کے پھلوں کے گچھے بن گئے اور رنگارنگ کے پھل انگور ، زیتون انار الگ بہار دینے لگے پانی تو ایک ہی تھا کہاں کہاں پہنچا کیا کیا بنا کچے اور پکے پھل لے کر دیکھو کتنی بڑی تبدیلی سے دوچار ہوچکا ہوتا ہے۔ بھلا یہ کون کرتا ہے صرف اللہ تو کیا صرف تمہاری ضرورتوں کے لیے اسے دوسروں کی مدد بھی درکار ہے تم جنوں کو اس کا شریک سمجھ لیتے ہو جو خود ایک عاجز مخلوق ہیں اور کبھی جہالت میں مبتلا ہو کر اللہ تعالیٰ کو اپنے اوپر قیاس کرلیتے ہو کبھی اس کے بیٹے بناتے ہو کبھی بیٹیاں تسلیم کرتے ہو وہ ان سب چیزوں سے پاک ہے اور کوئی اس کا ثانی ہے نہ ہمسر وہ تمہاری فرض کردہ جاہلانہ باتوں سے بہت ہی بلند ہے۔
Top