Asrar-ut-Tanzil - Al-An'aam : 92
وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ وَ لِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى وَ مَنْ حَوْلَهَا١ؕ وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ
وَهٰذَا : اور یہ كِتٰبٌ : کتاب اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے نازل کی مُبٰرَكٌ : برکت والی مُّصَدِّقُ : تصدیق کرنے والی الَّذِيْ : جو بَيْنَ يَدَيْهِ : اپنے سے پہلی (کتابیں) وَلِتُنْذِرَ : اور تاکہ تم ڈراؤ اُمَّ الْقُرٰي : اہل مکہ وَمَنْ : اور جو حَوْلَهَا : اس کے ارد گرد وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر يُؤْمِنُوْنَ : ایمان لاتے ہیں بِهٖ : اس پر وَهُمْ : اور وہ عَلٰي : پر (کی) صَلَاتِهِمْ : اپنی نماز يُحَافِظُوْنَ : حفاظت کرتے ہیں
اور یہ (ویسی ہی) کتاب ہے جس کو ہم نے بابرکت نازل فرمایا ہے اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور تاکہ آپ مکہ اور اس کے ارد گرد والوں کو (انجام بد سے) ڈرائیں اور جو لوگ آخرت پر یقین رکھتے ہیں وہ اس پر ایمان لاتے ہیں اور اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں
رکوع نمبر 11 ۔ آیات 92 تا 95 ۔ اسرار و معارف : نبی کی بشریت : اسلام نے پوری دنیائے کفر کو چیلنج کرتے ہوئے ساری انسانیت کو ایک معبود برحق کے ساتھ ایمان لانے اور اس کی اطاعت کرنے کی دعوت دی اور اس طرح سب کافر اسلام دشمنی پہ جمع ہوگئے سوائے ان خوش نصیب لوگوں کے جنہیں نور ایمان نصیب ہوا اور ظلمت کفر سے نجات ملی مگر یہودی اسلام دشمنی میں اول روز سے پیش پیش رہے حتی کہ مشرکین مکہ بھی علمائے یہود سے اعتراض سیکھ کر حضور اکرم ﷺ پہ پیش کرتے تھے اور اس غرض سے مدینہ آتے جاتے رہتے کہ اکثر یہودی عالم وہاں رہتے تھے آخر یہودی علما کے سربراہ نے انہیں کہا کہ کسی بشر پر یا کسی انسان پر اللہ کی طرف سے کبھی کوئی چیز نازل ہی نہیں ہوئی یہ ایسی ہی بات تھی جیسے جہلا کہہ دیتے ہیں کہ نبی بشر نہیں ہوسکتا غالباً ایسا کہنے والے خود اپنی ذات کو یا ارد گرد کے افراد کو معیار انسانیت سمجھ لیتے ہیں جو درست نہیں بلکہ اصل معیار نبی کی ذات ہے اور کمال انسانیت ہی کا نام ہے محمد رسول اللہ ﷺ کہ مکلف مخلوق چار قسم کی ہے فرشتہ شیطان جن اور انسان۔ ظاہر ہے فرشتوں میں نبوت نہیں اور نہ جنوں میں ثابت ہے شیطان سراسر ظلمت ہے باقی صرف انسان ہے جسے یہ نعمت بخشی گئی ہاں ہر بنی آدم انسان نہیں بلکہ اولاد آدم میں جو جس قدر نبی پاک ﷺ کے تابع ہے اس درجہ کا انسان ہے ورنہ انسانیت سے محروم ہے لہذا نبی تو نہ صرف انسان ہوتا ہے بلکہ معیار انسانیت ہوتا ہے لہذا جواباً ارشاد ہوا کہ اگر اللہ نے کسی انسان پر کوئی چیز نہیں اتاری تو موسیٰ (علیہ السلام) پر وہ روشن اور واضح کتاب جو لوگوں کے لیے باعث ہدایت تھی کس نے نازل کی تھی نور اور ہدی یہ دو ایسے اوصاف ہیں جو تمام آسمانی کتب کا خاصہ ہیں کہ کلام الہی ہونے کے سبب بھی نور ہیں اور ہر طرح کی ظلمت کے مقابلے میں روشن اور زندگی کے جملہ امور کے لیے واضح راہنمائی کی حامل ہوتی ہیں مگر سب کا اپنا دور اور زمانہ تھا اگرچہ ایمان تو اب بھی سب کے ساتھ ویسا ہی ضروری ہے مگر اتباع آخری کتاب اور آخری نبی ﷺ کا ہوگا۔ اس کتاب نے تمہیں ایسے اعلی علوم سکھائے جو اس کے بغیر نہ تم جان سکتے تھے نہ تمہارے باپ دادا کی رسائی وہاں تک تھی مگر تم ایسے بدبخت تھے کہ اس کتاب کو بھی ورق ورق کرکے رکھا جہاں اپنے مطلب کی بات آئی ورق نکال کر کتاب سے ثابت کردیا اور جہاں اپنے مطلب کی بات آئی ورق نکال کر کتاب سے ثابت کردیا اور جہاں اپنی پسند کے خلاف کچھ کرنا پڑا جیسے آقائے نامدار ﷺ کی نبوت کا ذکر موجود تھا مگر چھپا لیا۔ اس کردار کے لوگ بھلا آپ پر نازل شدہ کلام کی تصدیق کب کریں گے ہاں انہیں فرما دیجئے کہ وہ کتاب بھی اللہ ہی نے نازل فرمائی تھی اور اپنے بندے اور ایک انسان پر یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر مدلل جواب دینے کے بعد آپ ان کی پرواہ نہ کریں اور انہیں اپنی خرافات کہنے دیں۔ کتاب کے مطابق عمل کرے نہ یہ کہ اپنے عمل کا جواز گھڑتا پھرے : یہ بات واضح ہوگئی کہ محض مقصد بر آوری کے لیے کتاب اللہ کے حوالے تلاش کرنا درست نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب راہنمائی حاصل کرنے کے لیے ہے اگر اپنا عمل اس کے مطابق ہو تو اللہ کا شکر ادا کرے اور اگر کوتاہی ہورہی ہو تو اپنی اصلاح کرنا ضروری ہے کتاب کی ناروا تاویلیں کرکے اپنے عمل کو جائز ثابت کرنا ظلم ہے یہ کتاب جو ہم نے نازل فرمائی بہت بڑی برکتیں رکھتی ہے ایک ایک ضرورت کا وہ حل پیش فرماتا ہے جو آسان ترین بھی ہے اور اللہ کریم کا پسندیدہ بھی اور ان تمام صداقتوں کی امین بھی ہے جو پہلی کتابوں میں تھیں عقائد توحید و رسالت یا مبداء و معاد ثواب و عذاب زندگی اور آخرت میں کوئی تبدیلی نہیں کرتی اور یہ اس لیے نازل فرمائی گئی کہ آپ ام القری یعنی مکہ مکرمہ جو اس مقام پر ہے جو روئے زمین کا مرکز ہے جہاں سے زمین پھیلائی گئی لہذا تمام انسانی آبادیوں کی اصل ہے کے باسیوں کو بھی اور اردگرد یعنی جہاں تک زمین پھیلائی گئی اور اس پر جو انسان آباد ہیں سب کو اخروی اور ابدی نقصان سے بروقت خبردار کردیں سبحان اللہ کتنا بڑا احسان ہے رب کریم کا اور کس قدر عظیم مشقت ہے حضور اکرم ﷺ کی ذات گرامی کے لیے۔ صداقت کتاب کی دلیل : جن لوگوں میں آخرت کا شعور باقی ہوگا وہ تو آپ کی بات فوراً قبول کریں گے اور اللہ کی اطاعت اور پنجگانہ عبادت پورے خلوص سے شروع کردیں گے بلکہ اس کی ھفاظت کریں گے یعنی ایسے امور سے اجتناب کریں گے جو عبادت سے روکنے یا اللہ کریم کی ناراضگی کا سبب بن سکتے ہوں۔ دوسری دلیل قرآن کے کتاب الہی ہونے کی خود آپ ﷺ کی ذات گرامی ہے کہ جس ہستی نے کبھی کسی انسان پر غلط بیانی نہ کی ہو وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اللہ نے مجھ پر یہ بات نازل فرمائی ہے حالانکہ اللہ نے نازل نہ کی ہو یہ آپ جیسا کریم اور صادق و امین نہیں کہہ سکتا یہ تو کوئی بہت بڑا بدکار اور ظالم شخص ہی کہہ سکتا ہے کہ اللہ پر جھوٹ بولنے سے بڑا اور کیا جرم ہوسکتا ہے یا یہ کہہ دے جو کچھ اللہ نے نازل فرمایا ہے میں بھی ایسا کلام پیش کرسکتا ہوں ایسا کرنے والے لوگ تو انتہائی درجہ کے ظالم اور بدکار ہوتے ہیں حتی کہ انہیں اگر موت کی دہلیز پہ دیکھا جائے یعنی وہ روحانی اور باطنی کیفیت اگر دیکھی جاسکے جب موت کے فرشتے یعنی ملک الموت کے کارندے ان کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہوتے ہیں اور ساتھ یہ خبر بھی دیتے ہیں کہ اب جان حوالے کردو آج سے تم اس ذلت کے عذاب میں پڑنے جا رہے ہو جو اللہ کریم پر جھوٹ بولنے کی سزا ہے اور اس تکبر کی سزا بھی جو تم نے احکامِ الہی کے مقابلے میں اختیار کیا تھا۔ یاد رہے مرنے والے کی ظاہری حالت سے اندازہ نہیں کیا جاسکتا بعض اوقات مومنین پر بھی بظاہر تکلیف نظر آتی ہے مگر حقیقت میں یہ چن دلمحوں کی تکلیف ان کے لیے بیشمار خطاؤں کی بخشش کا سبب ہوتی ہے اس لیے میں نے روحانی اور باطنی کیفیت کے الفاظ لکھ دئیے ہیں کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو یہ مشاہدہ نصیب ہوتا ہے اسی ذریعے سے تو ساری کتاب بھی حاصل کرتے ہیں ایسے ہی اہل اللہ کو بھی انبیاء کی اطاعت اور نسبت سے یہ دولت حسب حال نصیب ہوتی ہے۔ پھر جب اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے یعنی یوم حساب بھی بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ تم تو ویسے ہی اکیلے ننگے بدن برہنہ سر آگئے جیسے میں نے پیدا کیا تھا اور وہ مال اور اقتدار جس پر اکڑتے تھے وہ کیا ہوا سب چھوڑ آئے ہو تمہارے ساتھ تو کوئی ایسے سفارشی بھی نہیں جن کو تم اللہ کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دیتے تھے جن کی غلامی پہ تمہیں ناز ہوا کرتا تھا آج تو تمہاری دوستیاں ٹوٹ گئیں وہ تم سے جان چھڑاتے ہیں اور تم ان سے بیزار ہو تعلیماتِ نبوت کے مقابلے میں جو اوہام تم نے گھڑ رکھے تھے سب تباہ ہوگئے اور کوئی تمہارے کام نہ آسکا۔
Top