Asrar-ut-Tanzil - Al-An'aam : 84
وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ١ؕ كُلًّا هَدَیْنَا١ۚ وَ نُوْحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ١ؕ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَۙ
وَ : اور وَهَبْنَا : بخشا ہم نے لَهٗٓ : ان کو اِسْحٰقَ : اسحق وَيَعْقُوْبَ : اور یعقوب كُلًّا : سب کو هَدَيْنَا : ہدایت دی ہم نے وَنُوْحًا : اور نوح هَدَيْنَا : ہم نے ہدایت دی مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَ : اور مِنْ : سے ذُرِّيَّتِهٖ : ان کی اولاد دَاوٗدَ : داود وَسُلَيْمٰنَ : اور سلیمان وَاَيُّوْبَ : اور ایوب وَيُوْسُفَ : اور یوسف وَمُوْسٰي : اور موسیٰ وَهٰرُوْنَ : اور ہارون وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نَجْزِي : ہم بدلہ دیتے ہیں الْمُحْسِنِيْنَ : نیک کام کرنے والے
اور ہم نے ان کو اسحاق (علیہ السلام ، بیٹے) اور یعقوب (علیہ السلام ، پوتے) عطا فرمائے سب کو ہم نے ہدایت کی اور پہلے (زمانہ میں) ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ہدایت کی اور ان کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون (علیہم السلام) کو اور ہم نیک کام کرنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں
رکوع نمبر 10 ۔ آیات 84 ۔ تا۔ 91 ۔ اسرار و معارف : کمال انبیاء (علیہم السلام) : ایک بہت بڑے مسئلے کو عام فہم زبان میں ایسے مضبوط دلائل کے ساتھ بیان کردینا بھی انعامات باری کی بہت بڑی دلیل ہے اللہ کریم اپنے احسانات میں شمار فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ قوم کو اس طرح لاجواب کردینے وال ازور خطابت ابراہیم (علیہ السلام) کو ہم نے عطا فرمایا تھا اور انبیاء کا کمال یہی ہوتا ہے کہ بہ تمشکل بات نہایت آسان الفاظ میں اور دلیل کے ساتھ ارشاد فرما دیتے ہیں ورنہ یوں تو فلاسفہ بڑی بڑی بحثیں لکھتے اور بیان کرتے ہیں مگر نہ آج تک کسی بات کا حتمی جواب دے سکے اور نہ عام آدمی ان کی بات کو سمجھ سکا یہ فرق اہل اللہ اور پیشہ ور مقررین میں صاف نظر آتا ہے اہل اللہ کی بات عام فہم ، دل میں اترنے والی ہوتی ہے اس لیے اکثر لوگوں کی عملی زندگی میں مثبت تبدیلی لانے کا سبب بنتی ہے جبکہ دوسرے مقررین یا مصنفین خوبصورت جملوں ، جچے تلے الفاظ ور انداز بیان سے لوگوں کو واہ واہ کہنے پہ مجبور سا کردیتے ہیں مگر نہ عام آدمی بات سمجھ پاتا ہے نہ کوئی مثبت تبدیلی رونما ہوتی ہے نیز یہ کسی انسان کا ذاتی کمال نہیں بلکہ یہ کمال انبیاء کو عطا ہوتا ہے پھر ان کے متبعین کو جس قدر نصیب ہو ان کی اطاعت کے نفیل ہی نصیب ہوتا ہے یہ اللہ کریم کی پسند کہ کس کو کیا عطا فرماتے ہیں فرمایا ہم جس کا چاہیں درجہ بڑھا دیں یعنی اسے کمال عطا فرما دیں اور جس قدر چاہیں عطا کردیں کہ اللہ کریم دانا تر ہے اور خوب جاننے والا ہے وہ بہتر جانتا ہے کہ کس کو کیا انعام دیا جائے۔ اللہ کی راہ پر دی ہوئی قربانی ضائع نہیں جاتی : ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کے لیے گھر وطن رشتہ دار قربان کردئیے تو اللہ نے انہیں بہتر گھر بہتر وطن اور بہترین رشتہ دار عطا فرمائے انہیں اولاد میں اسحاق (علیہ السلام) اور ان کو یعقوب (علیہ السلام) عطا فرمائے جو سب نبوت سے سرفراز فرمائے گئے ایسے ہی ان کے اجداد میں نوح (علیہ السلام) تھے جو اللہ کریم کے نبی تھے اگرچہ ہر شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے اور اسی نسبت سے نفع و نقصان اٹھاتا ہے مگر ہدایت اور نور ایمان نصیب ہو تو اہل اللہ کی اولاد میں سے ہونا یا اپنی اولاد میں سے کسی کو اس نعمت کا نصیب ہونا بھی بہت برکات کا سبب بنتا ہے اسی لیے یہاں ابراہیم (علیہ السلام) کے جد امجد اور ان کی اولاد اور بھتیجوں کی نبوت کا تذکرہ فرمایا گیا کہ ان کی ذریت میں حضرت داود ، حضرت سلیمان حضرت یوسف اور حضرت ہارون (علیہم السلام) سب اللہ کے برگزیدہ نبی تھے ارشاد ہوتا ہے کہ خلوص کے ساتھ نیکی کرنے والوں کو ہمیشہ ایسے ہی نوازا جاتا ہے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی قربانیاں بھی مثالی تھیں تو ان کو انعامات بھی مثالی عطا فرمائے گئے حضرت زکریا ان کے فرزند حضرت یحییٰ اور عیسیٰ و الیاس (علیہم السلام) سب ہی اللہ کے مقرب بندے اور عظمت نبوت سے سرفراز تھے یہ ایک شاخ تھی جو بنی اسرائیل میں نبوت کی امین رہی اور سب سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں تھے حضرت یسع یونس اور لوط (علیہم السلام) وار دوسری طرف سیدنا اسمعیل (علیہ السلام) بھی اللہ کے نبی تھے جن کی اولاد میں آقائے نامدار حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر نبوت تمام ہوئی اس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد ہمیشہ کے لیے نور نبوت انہی کے خاندان میں رہا اور ان حضرات کے خاندانوں میں سے ہی لوگ چنے جاتے رہے بعض کے اجداد میں سے اور کبھی اولاد بھائیوں میں اللہ کے انعامات تقسیم ہوتے رہے ذات باری کا انتخاب یہ ہوتا ہے کہ جسے پسند فرمایا جائے اسے سیدھے راستے کا علم بھی عطا فرمایا جاتا ہے اور توفیق عمل بھی۔ ان آیات میں سترہ انبیاء کا ذکر فرمایا گیا اور ساتھ یہ بھی ارشاد ہوا کہ ان کے رشتہ داروں میں بھی بہت سے حضرات انعامات الہی سے سرفراز ہوئے جن میں نوح (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اجداد میں باقی سب ذریت یعنی اولاد تھی حتی کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی شمار فرمایا حالانکہ ان کی صرف والدہ تھیں اور اس طرح نواسے بنتے تھے یہاں علما نے استدلال فرمایا ہے کہ حضرت علی کی وہ اولاد جو حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ سے تھی یا علی بن العاص جو حضرت زینب بنت رسول اللہ ﷺ کے صاحبزادے تھے یہ بھی رسول اللہ ﷺ کی ذریت ہیں یاد رہے یہ وہی علی ابن العاص ہیں جنہیں فتح مکہ کے روز آپ نے اٹھا کر بیت اللہ شریف میں داخل فرم اکر حکم دیا تھا بتوں کو باہر پھینک دیں یعنی پوتے ہوں نواسے سب ذریت کہلائیں گے۔ ذریت : یہ سب ارشاد فرما کر شرک کی قباحت واضح فرما دی کہ اگر اللہ کے یہ برگزیدہ اور منتخب بندے بھی (معاذ اللہ) شرک کرتے تو ان کی تمام نیکیاں اور ساری عظمتیں خاک میں مل جاتیں اور کچھ بھی ان کے کام نہ آتا نہ صرف یہ اعلی مقام چھن جاتے بلکہ جو نیک اعمال یہ کرچکے تھے وہ بھی رد کردئیے جاتے نبی سے گناہ محال ہے اس لیے کہ نبی معصوم ہتا ہے مگر یہاں شرک کی شدت قباحت واضح کرنے کے لیے فرض محال ارشاد ہوا کہ اگر اتنی بڑی ہستیوں سے ایسا ظلم سرزد ہو تو وہ خدانخواستہ تباہ ہوجائیں چہ جائیکہ عام آدمی شرک میں بھی مبتلا ہو اور امید کرم بھی رکھے یاد رہے شرک صرف بتوں کے روبرو سجدہ ریز ہونے کا نام نہیں اصل شرک جو یہاں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے واضح فرما دی وہ یہ ہے کہ کسی کو نفع رساں سمجھ کر اللہ کے مقابلے میں اس کی اطاعت کی جائے یا کسی کے خوف سے اللہ کے مقابلے میں اس کی بات مانی جائے تو یہ شرک ہوگا اور ایسا کرنے والا مشرک خواہ زبان سے کلمہ بھی ادا کرتا رہے یہ اللہ کریم کی عطا ہے کہ اپنے کہ اپنے اطاعت شعاروں کو منزل کی راہ دکھا دیتا ہے اور اللہ کے انعامات ایسے ہی بندوں پہ رہتے ہیں جو ہر طرح کے نفع کی امید بھی اسی سے رکھتے ہیں اور نقصان کا اندیشہ بھی۔ اس کی ذات یا صفات میں کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے۔ مدح صحابہ : مذکورہ بالا ہستیاں وہ تھیں جنہیں ہم نے نبوت ، کتاب اور پوری زندگی کے لیے بہترین راہ عمل عطا فرمائی لہذا ایک نہیں لاکھ سے زیادہ نبی مبعوث ہوئے آپ کوئی انوکھے یا نرالے مبعوث نہیں ہوئے کہ یہ بدبخت آپ کی نبوت کا انکار کرتے ہیں پہلے نظیر موجود ہے کہ اللہ کی طرف سے انبیاء مبعوث کیے جاتے ہیں اس کے باوجود اے میرے حبیب ﷺ اگر یہ نہ بھی مانیں تو ہم نے ایسی خوش نصیب قوم بھی مقدر کردی ہے جو آپ کی تصدیق دل و جان سے کریں گے اور کبھی کفر و انکار کی راہ کے پاس بھی نہ پھٹکیں گے مراد مہاجرین و انصار صحابہ کرام اور علماء کے مطابق قیامت تک آنے والے مسلمان بھی اس اعزاز میں شامل ہیں اور یہ سب کے لیے سرمایہ افتخار ہے کہ اللہ کریم نے ان کی تعریف فرمائی ہے رب جلیل ہم سب کو یہ سعادت ہمیشہ کے لیے نصیب فرمائے۔ آمین۔ دین بطور پیشہ : ارشاد ہو ا کہ یہ سب لوگ اللہ کریم کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے لہذا آپ بھی ان کی راہ ہی اپنائیے یعنی جس طرح ان سب حضرات نے مخلوق کی طرف سے ہر ایذا پر صبر کیا اور ہر حال میں اللہ ہی کی اطاعت کی یہی راستہ آپ کا بھی ہے یہاں علما نے بحث کی ہے کہ آپ ﷺ پر اپنی شریعت نازل ہوئی تھی تو پہلوں کی اقتدا کرنے کا حکم کیوں اور پھر اس کے مختلف جواب ارشاد فرمائے ہیں کہ یہ اتباع عقائد توحید رسالت آخرت وغیرہ میں ہے ہر حکم میں نہیں یا جب تک کسی بات کا حکم نازل نہ ہو پہلوں کا اتباع کیا جائے مگر اس کا آسان مفہوم یہی ہے جو عرض کردیا گیا ہے کہ ایک تو کفار کو جواب مل گیا کہ محض باپ دادوں کے پیچھے چلنا مقصود نہیں بلکہ ان کا ہدایت پہ ہونا شرط ہے ہاں وہ ہدایت پر ہوں تو ضرور ان کی راہ اختیار کی جائے گی اور دوسرے یہ کہ جس طرح انہوں نے اللہ کی اطاعت کو ہر شے پہ مقدم رکھا آپ بھی یہی راہ اختیار فرمائیں اور لوگوں سے کہہ دیں کہ میں تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا کہ یہ اللہ کا کام ہے اور جس کا کام کیا جائے اجرت وہ دیا کرتا ہے لہذا کسی بھی نبی نے دین کی تبلیغ کو بطور پیشہ اختیار نہیں فرمایا بلکہ ساری ساری زندگی صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچاتے رہے یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے دین پہنچانے کو ذریعہ معاش بنا لیا ہے ان سے الفاظ تو دوسروں تک ضرور پہنچ پاتے ہیں مگر کسی کو ہدایت نصیب ہونا مشکل ہے بلکہ انہیں خود نصیب نہیں تو ان سے کسی کو کیا ملے گی ہاں اللہ کے لیے کام کرتا چلا جائے تو از خود اگر کوئی اس کی خدمت کرے تو حرج نہیں بلکہ مسلمانوں کو چاہئے ایسے حضرات کی خدمت کریں جو اپنا بیشتر وقت دین کی خدمت میں صرف کرتے ہیں مگر خود ان کو ایسی باتوں سے بےنیاز رہ کر کام کرنا چاہئے یہی انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کا طریق ہے اور یہ کلام تو سارے جہانوں کے لیے باعث ہدایت ہے اور زندگی کے ہر سوال کا ایسا جواب جس سے زندگی بھی خوش گوار ہوجائے اور اللہ کریم کی خوشنودی بھی نصیب ہو۔ آخرت بھی سدھر جائے۔
Top