Asrar-ut-Tanzil - Al-An'aam : 131
ذٰلِكَ اَنْ لَّمْ یَكُنْ رَّبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى بِظُلْمٍ وَّ اَهْلُهَا غٰفِلُوْنَ
ذٰلِكَ : یہ اَنْ : اس لیے کہ لَّمْ يَكُنْ : نہیں ہے رَّبُّكَ : تیرا رب مُهْلِكَ : ہلاک کر ڈالنے والا الْقُرٰي : بستیاں بِظُلْمٍ : ظلم سے (ظلم کی سزا میں) وَّاَهْلُهَا : جبکہ ان کے لوگ غٰفِلُوْنَ : بیخبر ہوں
یہ اس لئے ہے کہ آپ کا پروردگار بستیوں کو ان کے ظلم (کفروشرک) کے سبب ایسی حالت میں ہلاک نہیں فرماتا کہ وہاں کے لوگ کچھ بھی خبر نہ رکھتے ہوں
رکوع نمبر 16 ۔ آیات 131 ۔ تا۔ 141: اسرار و معارف : میدان حشر میں تو کفار جنات ہوں یا انسان دونوں سے براہ راست سوال ہوگا کہ کیا تمہارے پاس میرے رسول نہیں پہنچے تھے اور تمہیں روز حشر کی جوابدہی کی بروقت اطلاع نہیں کردی تھی تو بغیر اقرار گناہ کسی کو چارہ نہ ہوگا خود کہہ اٹھیں گے کہ ہم اپنے قصور کا اعتراف کرتے ہیں اگر کفار جھٹلانے کی کوشش کریں گے تو انبیاء کی شہادت اور امت محمدیہ کی شہادت کفار کو لاجواب کردے گی انسانوں کی بات تو واجح ہے مگر جنات کے بارے مفسرین کرام نے یہ بحث فرمائی ہے کہ کیا ان میں نبوت تھی ؟ اس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ آدم (علیہ السلام) کے دنیا میں تشریف لانے کے بعد کوئی جن نبی کے طور پر مبعوث نہیں ہوا بلکہ انبیاء انسانوں میں سے آئے اور جنات بھی انہی کی اطاعت کے مکلف تھے سوال یہ ہے کہ جنات تو ہزاروں سال پہلے سے بھی زمین پر آباد تھے پھر آدم (علیہ السلام) سے پہلے ان میں نبوت کا ہونا ضروری ٹھہرا بعض مفسرین نے ایک نام بھی نقل فرمایا ہ ہے یوسف بن یاسف کہ یہ جن تھے اور نبی تھے تفسیر مظہری میں یہ امکان کے طور پر ہے کہ ہندوؤں نے جو مذہب اپنا رکھا ہے ممکن ہے جنات کا مذہب ہو اور ان میں سے کسی نبی کی تعلیمات ہوں جو بعد میں شرک سے بھر دی گئیں کہ ان کے بتوں کی صورت عجیب و غریب ہوتی ہے کسی کے متعدد ہاتھ کسی کے کئی سر اور کسی کی سونڈ ہاتھی کی طرح وگیرہ ممکن ہے یہ جنات کی شکلیں ہوں نیز ان کی مذہبی حکایات بھی دیومالا قسم کی ہیں مگر یہ صرف امکان ہے اس پر کوئی دلیل نہیں۔ کیا جنات میں بھی نبوت و رسالت تھی : حق یہ ہے کہ نبوت کی استعداد صرف بنی آدم کو عطا ہوئی اور ازل میں انبیاء سے عہد لیا گیا جو سب اولاد آدم (علیہ السلام) تھے نیز اس استعداد کا اثر ساری انسانیت میں ہے کہ جو بھی نبی کے ساتھ ایمان لائے اس کا دل تجلیات باری کو پالیتا ہے اگر کسی صاحب حال کی صحبت نصیب ہو تو روحانی ترقی کی سب منازل طے کرسکتا ہے یہی انسان کے باقی مخلوق سے افضل ہونے کا راز بھی ہے اگر جنات میں بھی نبوت ہوتی تو ان سے یہ استعداد سلب نہ ہوتی مگر تجربہ یہ ہے کہ جنات انوارات کو اصلاً برداشت ہی نہیں کرسکتے جل جاتے ہیں ہاں ان جنات کو جنہوں نے انبیاء کی تعلیمات کو جنوں تک پہنچایا عرفاً رسول کہہ دیا جاتا ہے یعنی رسولوں کے رسول اور آدم (علیہ السلام) سے قبل جو بات احادیث میں ملتی ہے وہ یہ ہے کہ زمین پر جنات فساد کرتے تو آسمان سے فرشتوں کو بھیج دیا جاتا جو ظالموں کو سزا دیتے اور کسی نیک اور شریف کو بحکم الہی ان پر حاکم مقرر کردیتے جو انہیں ظلم و جور سے روکتا رفتہ رفتہ پھر خرابیاں پیدا ہوتیں تو ان کا یہی حل ہوتا تھا سورة بقرہ کی تفسیر میں بھی یہ بات نقل کی گئی ہے کہ اسی تجربہ کی بنا پر فرشتوں نے عرض کیا تھا کہ زمین پر جو مخلوق پیدا ہوگی وہ قتل و غارت اور فساد بپا کرے گی ان جنوں کو جنہیں امیر مقرر کیا جاتا تھا عرفاً رسول یعنی بات پہنچانے والے کہہ دیا جاتا ہے جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ کو الہام سے نوازا گیا مگر ارشاد ہوا۔ واوحینا الی ام موسیٰ حالانکہ شرعی اصطلاح میں وحی اس خطاب کو کہا جاتا جو اللہ کی طرف سے اس کے نبی کو ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ ام موسیٰ نبی نہ تھیں دوسری بات یہ ہے کہ پورے قرآن میں جنات کے ساتھ جنت کا وعدہ نہیں بلکہ اطاعت کرکے وہ دوزخ سے بچ سکتے ہیں جب کہ گناہ پر دوزخ کی وعید موجود ہے اگر جنات میں نبوت ہوتی تو جنت کے خلود کا وعدہ بھی ضرور ہوتا۔ اسی لیے علماء کا قول ہے کہ جنات ہمیشہ نہ رہیں گے بلکہ جو سزا پا کر جہنم داخل ہوئے ان کے علاوہ دوسروں کو فن ا کردیا جائے گا۔ واللہ اعلم بالثواب۔ ان سب کی گمراہی کا سبب یہ تھا کہ لذات دنیا سے دھوکا کھا گئے اور ان کے حصول کو ہی زندگی کا مقصد بنا لیا جو عمر عزیز قرب الہی کو پانے کے لیے تھی اسے فانی دنیا کی طلب میں ضائع کر بیٹھے آج اقرار کر رہے ہیں کہ بیشک ہم کافر تھے ۔ اور یہ سب اہتمام اس لیے کہ رب العلمین (تیرا رب) سبحان اللہ براہ راست شرف رسول اللہ ﷺ کا ہے اور ان کے طفیل ہر مومن کا کہ رب العلمین فرمائے تیرا رب یہ اتنا بڑا انعام ہے جس کا اندازہ کوئی صاحب دل ہی کرپاتا ہے۔ کسی کو بھی لاکھوں گناہوں کے باوجود غفلت میں تباہ نہیں کرتا ہمیشہ ہر قوم ہر زمانے میں برائی پر تنبیہ کی جاتی ہے پھر نہ ماننے والے عذاب الہی کی لپیٹ میں آجاتے ہیں اور سب کی درجہ بندی کی جاتی ہے سب کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانکا جاتا جو جس درجے میں ہو نیکی یا برائی میں اس درجے کے لوگوں سے ملا دیا جاتا ہے اس لیے کہ رب جلیل ہر ایک کے ہر عمل اور ارادے سے باخبر ہیں۔ تیرا رب تو مستغنی اور بےنیاز ہے کوئی اس کی عبادت و اطاعت کرے یا نہ کرے اس کی عظمت میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور وہ ذوالرحمۃ بھی ہے اسے نہ مخلوق کو پیدا کرنے کی حاجت تھی اور نہ کسی کی بندگی کا محتاج یہ محض اس کی رحمت ہے کہ مخلوق کو وجود بخشا اور بیشمار نعمتیں اس کے لیے پیدا فرما دیں انسان تو غرض سے کام کرتا ہے غریب اگر پیسے کے لیے امیر کا محتاج ہے تو امیر کام کے لیے غریب کا منتظر اگر کسی کو دوسرے سے غرض نہ ہو تو اس کی پرواہ ہی نہیں کرتا حالانکہ سب کسی نہ کسی احتیاج میں مبتلا رہتے ہیں مگر اللہ بےنیاز ہے کسی سے اس کی کوئی غرض وابستہ نہیں یہ محض اس کی رحمت ہے کہ عدم سے وجود بخشا اعضا وجوارح عقل و خرد اور بیشمار نعمتیں عطا کیں پھر مزید رحمت فرماتے ہوئے انبیاء مبعوث فرمائے کتابیں نازل فرمائیں اور ایک حسین انجام یعنی اپنا قرب اور رضا عطا فرمایا ورنہ نظام کائنات تمہارے سامنے ہے آج تم خود کو دنیا کی رونق سمجھتے ہو تو تم سے پہلے بھی یہی سمجھتے تھے مگر وہ چلے گئے اور اس نظام کو کوئی فرق نہیں پڑا تم بھی چلے جاؤ گے لوگ تمہیں بھول جائیں گے اور تمہارا جانا بھی کوئی خلا پیدا نہ کرے گا اسی طرح اللہ اس بات پہ بھی قادر ہے کہ آن واحد میں تم کو اٹھا لے اور نئی قوم پیدا کردے جس نے پہلے سب کچھ پیدا کیا ہے وہ پھر بھی کرسکتا ہے اس لیے خوب جان لو کہ جب تم نظام دنیا کو نہیں روک سکتے تو حیات انسانی کے اخروی اور ابدی نتائج سے کیسے بچ سکوگے ہرگز نہیں بلکہ قیامت جس کا اللہ کریم نے وعدہ کرلیا ہے ضرور قائم ہوگی اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ اور اے میرے حبیب اپنی قوم سے فرما دیجئے کہ اگر میری اطاعت منظور نہیں تو پھر اپنی خواہش پہ عمل کیے جاؤ میں بھی اپنے راستے پر رواں ہوں عنقریب نتیجہ سامنے آجائے گا اور پتہ چل جائے گا کہ نتیجہ کس کے حق میں ہے آخرت میں تو یقیناً مگر دنیا میں بھی یہ بات سب نے دیکھ لی کہ حق غالب ہوتا چلا گیا اور کفر کی تاریکیاں جن پہ انہیں بہت ناز تھا مٹتے مٹتے مٹ گئیں یہ اس لیے کہ اللہ کی طرف سے ظالموں کا کبھی بھلا نہیں ہوتا اور شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ ذرا ان کی تقسیم دیکھو اپنے محاصل میں اپنی دولت اور اپنے جانوروں میں حصے مقرر کرتے ہیں کہ یہ حصہ اللہ کے لیے ہے اور یہ ان بتوں یا افراد کے لیے جنہیں وہ اپنے زعم باطل میں اللہ کا شریک مانتے ہیں اور اگر فصل کم ہو تو بتوں کا حصہ کم نہیں کرتے بلکہ اللہ کا حصہ بھی ان کے نام کرکے ان کا پورا کرلیتے ہیں مگر بتوں کی شئے اللہ کے نام پر نہیں کرتے اللہ کا شریک ٹھہرانا ہی بہت بڑا ظلم تھا انہوں نے شرکاء کو اللہ کریم کی ذات پر بھی اہمیت دے رکھی ہے ان کا یہ فیصلہ اپنی برائی پہ خود گواہ ہے۔ قتل اولاد قبیح تر فعل ہے : ان کی اس خباثت اور ظلم کا اثر دیکھیں کہ اپنی اولاد کو قتل کرنا باعث فخر سمجھتے ہیں دنیا میں جس قدر بھی قبیح اور ظالمانہ فعل ہیں ان میں بہت ہی برا کام معصوم بچوں کا قتل ہے اور جب والدین ہی اولاد کو قتل کرنے لگیں تو اس کی برائی کئی گنا بڑھ جاتی ہے مگر شرک کی خباثت نے انہیں یہ کام باعث فخر کر دکھایا اسی طرح ان کا سارا دین تباہ اور برباد ہو کر رسومات بد کا پلندہ بن گیا یہ جسمانی قتل ہے لیکن طلب دنیا میں اندھا ہو کر اولاد کو دین سے ناواقف رکھنا اور محض دنیا کمانے کے لیے ان پر دنیاوی فنون ہی کا جنوں سوار کردینا روحانی قتل ہے جس میں آج کا مسلمان بھی شریک ہے مشرکوں کی بچپن میں قتل کی گئی اولاد جہنم سے بچ جائے گی جبکہ یہ روحانی مقتول سخت خطرہ میں ہیں اس طرح تو یہ اس سے بڑھ کا ناانصافی ہے اللہ کریم ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین۔ اگر یہ اللہ کریم سے تعلق قائم کرتے تو اس ظلم میں مبتلا نہ ہوتے یعنی ان کی نیکی نسلوں کو سنوارنے میں مددگار ثابت ہوتی لیکن اگر انہوں نے یہ راستہ چھوڑ ہی دیا ہے تو آپ بھی ان کی کوئی پرواہ نہ کریں یہ بہت سخت تنبیہ ہے کہ جو اللہ کے دین کو کوئی اہمیت نہ دے بارگاہ رسالت میں اس کی بھی کوئی حیثیت و اہمیت نہیں۔ اب ذرا ان کی رسومات کو دیکھیں جن کو انہوں نے مذہب کا درجہ دے رکھا ہے کہ کبھی کسی غلے یا پھل کو اور کبھی کسی جانور کو ایک خاص طبقہ کے لیے ممنوع قرار دے لیتے ہیں محض اپنے گمان سے ، کوئی دلیل اس پر نہیں ہوتی اور کہہ دیتے ہیں کہ اس میں سے مرد کھا سکتے ہیں عورتوں کو اجازت نہیں یا بعض جانوروں پر سواری ممنوع ہوجاتی ہے کہ یہ بتوں کے نام پر ہے اور بعض پر اللہ کا نام لینا ہی منع کردیتے ہیں نہ وہ اللہ کے نام کا ہوتا ہے نہ ذبح کرتے وقت اللہ کریم کا نام لیتے ہیں اور یہ سب کچھ محض افترا اور بہتان ہے کہ دین تو احکام الہی کا نام ہے اپنی طرف سے رسم جاری کرکے اسے دین کہنا تو اللہ پر بہتان تراشی ہے غالباً یہ دور حاضرہ کے نذرانے کہ بعض جانور یا غلہ صرف پیر استعمال کرسکتے ہیں دوسروں پہ منع ہیں یا جانوروں کو بزرگوں کے نام پہ خاص کردینا یا شیعہ کا گھوڑے کو حضرت حسین ؓ کے نام کرکے اس پر سوار نہ ہونا انہیں جہالت کی رسومات کا عکس ہے تو ایسے لوگ اپنے کرتوتوں پر مرتب ہونے والی سزا کو ضرور پائیں گے۔ ان کی ایک رسم دیکھیں کہ جانور ذبح کرتے ہیں اگر حاملہ ہو اور پیٹ سے زندہ بچہ نکل آئے اسے بھی ذبح کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ صرف مردوں پہ حلال ہے عورتوں پہ حرام اور اگر بچہ مردہ نکلے تو سب پر حلال ان سب خرافات کی سزا پائیں گے کہ اللہ کریم ان کے اعمال سے واقف ہیں اور چندے مہلت بھی حکمت الہی ہے کہ وہ ذات حکیم بھی ہے۔ عہد جہالت کی رسومات : جہالت میں اولاد کو قتل کرنا اور اللہ کریم کے دئیے ہوئے رزق کو اپنے اوپر حرام کرلینا کیا کم نقصان ہے کہ اس ظلم کو مذہب کہہ کر اللہ پر بہتان لگانے کے مجرم بھی ہوئے اور ایسے گمراہ ہوئے کہ ہدایت سے بہت دور چلے گئے۔ اس دور میں جو رسم غیر اللہ کے نذرانوں کی تھیں ان کی صورت کچھ اس طرح سے تھی۔ پہلی صورت : زمین کی آمدن سے کچھ حصہ اللہ کا رکھتے اور کچھ بتوں یا جنوں کا اگر کمی ہوتی تو اللہ کا حصہ نہ دیتے کہ اللہ تو غنی ہے مگر غیر اللہ کا ضرور پورا کرتے یا اتفاقا اللہ کے حصے کی چیز غیر اللہ کے حصے میں مل جاتی تو خیر اگر غیر اللہ کی شے اللہ کے حصے میں مل جاتی واپس کرتے تھے جیسے آج ہمارا حال ہے کہ کوئی مصروفیت یا بیماری آجائے تو سب سے پہلے زد عبادات پہ پڑتی ہے نماز کیوں نہیں پڑھی طبیعت ٹھیک نہ تھی کاروبار بھی کیا کھانا بھی کھالیا آرام بھی کرلیا اور طبیعت کی گرانی کی زد اللہ کی عبادت پہ یہی حال مصروفیت میں ہے اللہ کریم معاف فرمائیں اور ہدایت نصیب فرمائیں ۔ آمین۔ دوسری رسم : جانور بتوں کے نام پہ مختص کردیتے بحیرہ ، سائبہ کے ناموں سے اور اسے اللہ کریم کی خوشنودی خیال کرتے تھے۔ تیسری رسم : بچیوں کو زندہ گاڑنے کی تھی۔ چوتھی رسم : یہ تھی کہ بعض کھیت یا باغ بتوں کے نام کردیتے ان میں عورتوں کا حق نہیں رہتا تھا۔ پانچویں رسم : بعض جانور اسی طرح مخصوص کردیتے ان میں بھی عورتوں کا حق نہیں مانتے تھے۔ چھٹی رسم : یہ تھی کہ بتوں کے نام پر چھوڑے ہوئے جانور پر سواری وغیرہ نہ کرتے۔ ساتویں رسم : یہ تھی کہ بعض جانوروں پہ اللہ کا نام لینا ممنوع تھا ذبح کرتے یا سوار ہوتے یا دودھ نکالتے تو کبھی اللہ کا نام نہ لیتے۔ آٹھویں رسم : بتوں کے نام پر چھوڑے ہوئے جانور کو ذبح کرتے اگر پیٹ سے بچہ نکلتا تو اسے بھی ذبح کرتے اور صرف مرد کھاتے اگر مردہ نکلتا تو سب کے لیے حلال جانتے۔ نویں رسم : بعض جانوروں کا دودھ مردوں کے لیے حلال اور عورتوں کے لیے حرام جانتے۔ اور دسویں رسم : بتوں کے نام چھورے ہوئے جانوروں کی تعظیم کرنا عبادت سمجھتے تھے یہ سب دیکھ کر ہمیں اپنی رسومات اور نظریات کا اندازہ کرلینا چاہئے کہ ہم کس جگہ کھڑے ہیں۔
Top