Asrar-ut-Tanzil - Al-An'aam : 112
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا١ؕ وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَ مَا یَفْتَرُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح جَعَلْنَا : ہم نے بنایا لِكُلِّ نَبِيٍّ : ہر نبی کے لیے عَدُوًّا : دشمن شَيٰطِيْنَ : شیطان (جمع) الْاِنْسِ : انسان وَالْجِنِّ : اور جن يُوْحِيْ : ڈالتے ہیں بَعْضُهُمْ : ان کے بعض اِلٰى : طرف بَعْضٍ : بعض زُخْرُفَ : ملمع کی ہوئی الْقَوْلِ : باتیں غُرُوْرًا : بہکانے کے لیے وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا رَبُّكَ : تمہارا رب مَا فَعَلُوْهُ : وہ نہ کرتے فَذَرْهُمْ : پس چھوڑ دیں انہیں وَمَا : اور جو يَفْتَرُوْنَ : وہ جھوٹ گھڑتے ہیں
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے شیطان (سیرت) انسانوں اور جنوں کو دشمن بنادیا تھا دھوکہ دینے کے لئے ایک دوسرے کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے ہیں اور اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو یہ ایسا نہ کرتے تو آپ ان کو اور جو یہ افترا پردازی کرتے ہیں اسے چھوڑ دیجئے
رکوع نمبر 14 آیات نمبر 112 تا 122: اسرار و معارف : ایمان کا مدار در اصل اس قلبی کیفیت پر ہے جو انسان کو رب العلمین سے نصیب ہوتی ہے جس کی بنیاد تو انسانی مزاج میں رکھ دی گئی ہے مگر اسے نور نبوت ہی سے جلا ملتی ہے اور یہ جذبہ دل میں سر اٹھاتا ہے کہ مجھے اپنے رب کی رضا کو حاصل کرنا چاہئے اور اس کا قرب پانا چاہئے۔ انسانی کردار اس کے ضمیر کو متاثر کرتا رہتا ہے حتی کہ بعض مظالم ایسے ہوتے ہیں جو دل میں اس جذبے پر تہ در تہ تاریکیاں مسلط کردیتے ہیں ایسے ہی بدنصیب تھے وہ لوگ جو آقائے نامدار ﷺ کے مبارک عہد میں آپ کے رخ انور سے بھی کوئی کرن تک حاصل نہ کرسکے کچھ خوش نصیب اگرچہ نور ایمان کو بعض وجوہ کی بنا پر جلدی نہ پا سکے ہوں مگر کردار کی نرمی مزاج میں قبولیت کی استعداد کو باقی رکھتی ہے اور جیسے ہی کوئی لو ان کی طرف لپکتی ہے ان کا دل روشن ہوجاتا ہے اور انہیں ہدایت نصیب ہوتی ہے آنکھ کھلتی ہے تو ہر تنکا عظمت باری پہ دلالت کرتا ہوا نظر آتا ہے اگر یہ نعمت نصیب نہ ہو پھر سارے دلائل محض اتمام حجت کا کام کرتے ہیں یہی مفہوم یہاں ارشاد ہورہا ہے کہ جن لوگوں کو آپ کے ارشادات اور آپ کی ذات سے ہدایت نہیں ہوپا رہی ان کے دل مردہ ہوچکے ہیں اللہ کے ساتھ تعلق استوار کرنے کی استعداد کھو چکے ہیں ایسے لوگوں پر اگر فرشتے بھی نازل ہوں ان سے باتیں کریں مردوں کو زندہ کردیا جائے وہ خود انہیں برزخ کے احوال سنائیں بلکہ مغیبات آخرت یعنی خود جنت و دوزخ کو بھی ان کے سامنے کردیا جائے یہ پھر بھی نہ مانیں گے اور جب تک اللہ کریم نہ چاہے یہ کیسے مانیں گے جب کہ اللہ کریم زبردستی مسلط نہیں فرماتے جب تک نہاں کا نہ دل میں تڑپ پیدا نہ ہوا اور وہ ان کے گناہوں کے بوجھ تلے دب گئی ہے لہذا ان کے لیے کوئی بڑی سے بڑی دلیل بھی مفید نہیں یہ خود اس قدر جہالت میں مبتلا ہیں کہ اصل بات کو سمجھ ہی نہیں رہے۔ تاریک شریعت سے عجائبات کا ظہور : یہ قاعدہ ہے کہ شیطان جنوں میں سے ہوں یا انسانوں میں سے ان بدبختوں کو انبیاء سے دشمنی ہی نصیب ہوتی ہے جس کا بنیادی سبب ان کی شیطنت ہے حتی کہ یہ آپس میں بات کرتے ہیں تو ایک دوسرے کو بھی دھوکا دیتے ہیں اور غلط بیانی سے کام لیتے ہیں شیطان اگرچہ ایک تھا مگر اس کی اطاعت کرنے والے جنات اور انسانوں کو بھی شیطان کہا گیا ہے کہ ان میں بھی وہی عادات و خصائل پیدا ہوجاتے ہیں اور اسی عذاب میں اس کے شریک ٹھہرتے ہیں نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ شیطان آپس میں ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے اور بات کرتے ہیں اس سے یہ بات سمجھنا آسان ہوگیا کہ بعض تارک شریعت لوگوں سے عجائبات کا ظہور کیسے ہوتا ہے ظاہر ہے جہاں تک شیطان کی رسائی ہوگی اس کی مدد کردیں گے یہی جادو اور ٹونے ٹوٹکے کے اثر کا راز ہے مثلا کسی شیطان نے کسی انسان کو مس کرکے تکلیف میں مبتلا کردیا اس نے علاج کے لیے کسی ایسے شخص کا دروازہ کھٹکھٹایا جو انسانوں میں شیطان ہے اس نے چند کفریہ جملے پڑھ کر پھونک مار دی یا کسی بدعت یا مشرکانہ رسم کو ادا کرنے کا حکم دیا ظاہر ہے شیطان چھوڑ دے گا یوں اس کی اولیائی کا سکہ جما کر لوگوں کو گمراہ کرتے رہیں گے لہذا اگر کوئی دم ہی کرانا چاہے تو یہ بھی مسنون طریقہ علاج ہے مگر شرعی حدود کے اندر کلام جائز ہو طریقہ شرعی ہو ورنہ ہرگز ایسی خرافات میں نہ پڑنا چاہئے۔ اللہ کریم حکما روکنا چاہیں وہ تو قادر ہیں مگر یہ لوگ ہرگز ایسا نہ کرسکیں گے کہ اللہ کو یہ منظور نہیں بلکہ یہی تو آزمائش ہے لہذا آپ ایسے لوگوں کی کوئی پرواہ نہ کریں نہ ان کے افعال کو کوئی اہمیت دیں اور دوسرے ایسے لوگ جن کے قلوب آخرت کے یقین سے خالی ہیں وہ بھی ان کے جھوٹ اور ملمع شدہ باتوں کو ہی پسند کریں گے یہی ان کی دلی کیفیت کا تقاضا ہے آپ انہیں کرلینے دیں جس راستے پہ چل نکلے ہیں وہ آخر ایک دن اپنی منزل پر بھی پہنچیں گے۔ قرآن کریم زندہ جاوید معجزہ ہے : آپ انہیں واضح طور پر بتا دیجئے کہ میں نے اعلانِ نبوت فرمایا تم اس کا انکار کرنے لگے مگر اللہ نے مجھ پر ایسی کتاب نازل فرما کر جس میں سب امور کی وضاحت موجود ہے میرے حق میں فیصلہ دے دیا میری تائید فرما دی کہ ایک ایسی ہستی جس نے ساری عمر کسی سے ایک لفظ پڑھا نہ ہو کسی شاعر یا ادیب کی مجلس میں نہ بیٹھا ہو یکایک ایسا کلام ارشاد فرمائے جس کا ادبی پایہ بھی بےمثال ہو نہ صرف دنیا بلکہ اس دنیا سے پہلے اور اس کے بعد کے احوال کو تفصیل سے زیر بحث لاتا ہو انسانی زندگی کی ہر ضرورت کا جواب اپنے اندر رکھتا ہو اور دنیا بھر کے بڑے بڑے ادیبوں کی جرات کلام اس کے سامنے جواب دے جائے کیا یہ سب بہت بڑا معجزہ نہیں کیا اس سے بڑا کوئی اور فیصلہ ہوسکتا ہے ہرگز نہیں اور پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ اہل کتاب جو مشرکین کا ساتھ دے رہے ہیں یہ تو بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ آپ پر جو کچھ نازل ہوا یہ اللہ ہی کی طرف سے نازل ہوا ہے اس لیے کہ ان کے پاس پہلے آسمانی کتب موجود ہیں یہ کلام الہی کی عظمت اور اسلوب بیان سے واقف ہیں نیز ان کی کتب میں نزول کتاب اور آپ کی بعثت کی نوید بھی موجود ہے آپ کا حلیہ مبارک تک تفصیل سے موجود ہے لہذا کسی کے لیے بھی اس امر میں معمولی شک کرنے کی گنجائش موجود نہیں آپ کی رسالت اور کتاب اللہ کا حق ہونا روز روشن سے بڑھ کر واضح ہے۔ اس کے اوصاف بھی اس کی صداقت اور عظمت کے گواہ ہیں اول یہ کلام رب العالمین کامل اور مکمل ہے انسان اور اس کے خالق کے درمیان تعلق کے لیے انسانی زندگی کس راستے سے گزرے کیا کیا نشیب و فراز ہیں اور وہ کیونکر عبور ہوں یہ اتنا بڑا سوال ہے کہ کسی بھی انسان کے لیے اس کا جواب دینا ممکن ہی نہیں بڑے بڑے دانشور اور محقق انسانی زندگی کے کسی ایک شعبے پر داد تحقیق دیتے رہے اسی ایک موضوع پر بےشمارکتب تصنیف ہوئیں مگر سوال پھر بھی تشنہ جواب رہا اور جو نتیجہ نکلا وہ یقینی بھی نہ تھا محض انسانی اندازے تھے جو بعد میں ہونے والی تحقیق سے غلط ثابت ہوئے اور تبدیل کیے گئے یہ اللہ کی کتاب کا خاصہ ہے کہ نہ صرف ایک پہلو بلکہ کامل انسانی زندگی کی خبر دی اس کی ضرورتوں سے آگاہ فرمایا اور ہر ضرورت کی تکمیل کا وہ طریقہ بھی بتا دیا جو رب کریم کو پسند ہے اور یہی انسانی زندگی کی کامیابی ہے یہ سب کچھ اس قدر مکمل ہے کہ اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہ ہوگی۔ اس ضمن میں تاریخ عالم بھی زیر بحث آئی اقوام کے کردار اور اس پر مرتب ہونے والے نتائج کا ذکر ہوا آئندہ کے لیے خبر دی کہ کس عقیدے اور کون سے عمل پر کیا نتیجہ مرتب ہوگا اور یہ سب کچھ اس حد تک مکمل ہے کہ آئندہ نزول کتاب اور بعثت نبی کی ضرورت باقی نہ رہی اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہ ہوگی اور سب حق ہے سچائی ہے کوئی بیان جو گذشتہ سے متعلق ہو یا کوئی خبر جو آئندہ کے بارے ہو سب بالکل سچی ہیں یعنی صدق کھرے پن کے ساتھ اور عدلاً تیسرا وصف عدل ہے جس کے دو پہلو ہیں اول انصاف یعنی نہ تو کسی مستحق کا حق ضائع ہو اور نہ کوئی جرم کرکے چھپ سکے ہر دو طرح سے پورا پورا انصاف مل سکے ک دوسرے اعتدال کہ احکام اور زندگی کی راہیں اس قدر سخت اور شدید نہ ہوں جن کو انسانی مزاج برداشت ہی نہ کرسکے یا بہت مشکل سے برداشت کرے اور نہ بالکل ایسی کہ محض خواہشات نفس کی تابع ہوجائیں۔ مدعا یہ ہے کہ کلام باری حکمتوں سے پر اور صداقتوں کا خزینہ ہے یہاں تک کہ آنے والی نسلوں اور قوموں کے لیے ہر عہد اور ہر زمانے کے لیے ہر قوم اور ہر فرد کے لیے قابل عمل اور زندگی کا خوبصورت ترین لائحہ عمل ہے یہ کام صرف اللہ کریم کو سزاوار ہے مخلوق کے بس کا ہے ہی نہیں یہ سب صداقتیں آپ کے دعوائے نبوت کی روشن دلیل ہیں۔ رہے کفار کے نامناسب اعتراضات اور بہانے تو اللہ کریم ان کی بھی ہر بات کو سن رہے ہیں اور ہر ایک کے عمل سے واقف ہیں۔ ان کا حال یہ ہے اور نہ صرف ان کا بلکہ روئے زمین پر بسنے والی اس اکثریت کا جو اللہ کے کلام کو قبول نہیں کر رہی یہی حال ہے کہ جو بھی ان کی رائے قبول کرے گا اسے اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں گے اس لیے کہ ان کے پاس صرف اندازے اور اوہام ہیں جن کی کوئی اصل نہیں جن رسومات کو انہوں نے مذہبی تقدس دے رکھا ہے یہ بھی صرف ان کی اپنی رائے ہے جس کے سبب یہ خود گمراہ ہیں اور اے مخاطب کبھی ایسی اکثریت کو خاطر میں نہ لانا چاہئے جو حق پر نہ ہو اس لیے کہ فیصلہ اللہ کریم نے فرمانا ہے جو بدکاروں کی عملی زندگی ان کے عقیدے اور سوچ تک سے واقف ہے لہذا وہ اس کے عذاب سے بھاگ نہیں سکیں گے ایسے ہی ان سے بھی اچھی طرح آگاہ ہے جو اس کی متعین کردہ راہ پر چلتے ہیں وہ انہیں اپنے کرم سے نوازے گا۔ ان کے کردار کا حال یہ ہے کہ اللہ کریم نے حلال جانوروں کو اپنے نام پر یعنی عند الذبح اپنا نام لینے کی ہدایت فرمائی اگر اللہ کا نام نہ لیا جائے یا از خود مرجائے تو حلال نہ ہوگا مگر کفار اس سے مھروم ہیں ان کی اٹکل یہ ہے کہ مسلمان جسے خود مارتے ہیں کھالیتے ہیں اور جو اللہ کا مارا ہوا ہو وہ نہیں کھاتے اس طرح کفار حرام کھاتے ہیں یا پھر بتوں پر چڑھاوا یا ان کے نام ذبح کے وقت لیکر اسے نجس کردیتے ہیں مگر تمہیں تو اس کی کتاب پر یقین حاصل ہے لہذا تمہارے پاس ایک اصول ہے کہ جس پر اللہ کا نام لیا جائے گا وہ حلال اور درست ورنہ جو صورتیں حرام ہونے کی ہیں اللہ نے تم پر کھول کر بیان کردی ہیں اور یہ بھی فرما دیا ہے کہ حالت اضطرار میں یعنی جان بچانے کے لیے اس قدر لے لینا کہ آدمی مرنے سے بچ سکے تو اس کا گناہ نہ ہوگا ورنہ کسی بھی صورت میں حرام کے قریب مت پھٹکو یہ اللہ کا قانون ہے جس کی خلاف ورزی پر پیٹ تو بھر جائے گا مگر اللہ کی ناراضگی مرتب ہوگی یہ اس بات سے بیخبر ہیں اور محض اپنی غلط رائے پر عمل کرکے گمراہ ہو رہے ہیں مگر ان کی گمراہی ان لوگوں کے اعمال تو ضائع نہیں کرسکتی جو اللہ کی اطاعت کرتے ہیں اللہ کریم ان سے خوب واقف ہیں اصل راستہ ہی یہی ہے کہ اللہ کریم کی نافرمانی چھوڑ دی جائے خواہ وہ ظاہراً ہو یا باطناً کہ حرام کھانا بظاہر گناہ ہے اور حلال کو حرام خیال کرنا باطن کا گناہ ہے ایسے ہی حرام کو حلال جاننا کفر ہے اور اسلام سلامتی کا راستہ ہے جو ظاہر و باطن کی نافرمانی سے منع کرتا ہے اس لیے کہ نافرمان اپنے کیے کی سزا سے نہیں بچ سکے گا بہت جلد وہ اپنے کردار کے نتائج کو اپنے سامنے پا لے گا۔ حرام کھانے کا اثر : مومن کو چاہئے کہ وہ ایسے جانور کا گوشت کبھی نہ کھائے جو شرعی طور پر حلال نہ ہو اس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ وہ گوشت اس کی جسمانی صحت کے لیے مضر ہے اگرچہ ہر طرح کا حرام صحت انسانی کے لیے بھی نقصان دہ ہے مگر بہت بڑا نقصان حرام کی وہ ظلمت ہے جو دل پر طاری ہوجاتی ہے اور دل شیطان کی باتیں سننے لگتا ہے جن کا اثر آپ کے سامنے ہے کہ جو لوگ آپ سے یعنی ایمان رکھنے والوں سے یا رسول اللہ ﷺ سے جھگڑا کرتے ہیں اور ناحق کرتے ہیں کلام الہی کے مقابلے میں محض رسومات اور ذاتی رائے کو لے آتے ہیں ان کے دلوں میں یہ ساری بات شیطان ہی تو ڈالتا ہے جو حرام کھانے کے اثر کی وجہ سے ان کا دل قبول کرلیتا ہے اور یہ اس پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں اگر تم لوگ ان کی بات ماننے لگو تو شرک میں مبتلا ہوجاؤ کہ اول تو ان کی باتیں ہیں شرک لیے ہوئے ہوتی ہیں اور دوسرے اللہ کے مقابلے میں کسی کی بات ماننا بھی شرک ہے جو بہت بڑی تباہی کا سبب ہے۔
Top