Asrar-ut-Tanzil - Al-An'aam : 102
ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْهُ١ۚ وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ وَّكِیْلٌ
ذٰلِكُمُ : یہی اللّٰهُ : اللہ رَبُّكُمْ : تمہارا رب لَآ اِلٰهَ : نہیں کوئی معبود اِلَّا : سوائے هُوَ : اس خَالِقُ : پیدا کرنیوالا كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز فَاعْبُدُوْهُ : سو تم اس کی عبادت کرو وَهُوَ : اور وہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز وَّكِيْلٌ : کارساز۔ نگہبان
یہی ہے اللہ تمہارا پروردگار اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے پس اسی کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز کا کارساز ہے
رکوع نمبر 13 ۔ آیات 102 تا 111: اسرار و معارف : وہ تو ارض و سما کا بنانے والا اور ایسا بنانے والا ہے جس نے تخلیق کی ابتدا فرمائی نہ یہ کہ پہلے کوئی چیز تھی اور دیکھ کر یا مختلف اشیاء کا وجود تھا انہیں جوڑ کر زمین آسمان بنا دئیے بلکہ کچھ بھی نہ تھا پردہ عدم سے اشیاء کو وجود میں لایا اور اس کی اپنی اکیلی عظیم ذات کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ اس کی مخلوق ہے ہر چیز کو اس نے پیدا فرمایا ہے اور وہ اکیلا خالق ہے نادانو بیٹا تو باپ کی جنس اور انہیں صفات کا حامل ہوتا ہے۔ جیسے انسان کا بچہ کیسا بھی ہو انسان تو ضرور ہوگا جب بیٹا ہو ناممکن ہے تو وہ اپنی شان اور ذات میں اکیلا تو نہ رہا پھر تو اس کے لیے بیوی بھی ہونی چاہئے اور اگر یہ سب سلسلہ ہوا تو پھر مخلوق خالق کی ہمسری کا دعوی کرسکتی ہے ہرگز نہیں اسی لیے وہ اکیلا ہے بےمثل و بےمثال ہے کوئی اس کی بیوی ہے نہ بیٹا بلکہ سب کچھ ہی اس کی صنعت اور مخلوق ہے تم سب کا پیدا کرنے اور پالنے والا ایسی ہی عظیم شان کا مالک ہے لہذا اس کے سوا کسی کو حق نہیں کہ معبود کہلائے نہ کوئی ہے اور نہ تمہیں زیب دیتا ہے کہ مخلوق مخلوق ہی کی عبادت شروع کردے اس لیے صرف خالق کل کی عبادت کرو اور یاد رکھو جس نے سب مخلوق کو پیدا فرمایا ہے سب کا کارساز بھی وہی ہے اگر اس کی بارگاہ سے منہ موڑ کر کسی بھی دوسرے کی عبادت کرتے بھی رہو تو وہ کوئی فائدہ نہیں دے سکے گا اس لیے مخلوق ہونے کی وجہ سے خود محتاج ہوگا۔ رویت باری : ساری مخلوق کی نگاہیں مل کر بھی اس کی ذات کا احاطہ نہیں کرسکتیں لیکن وہ بیک وقت ان سب لطیف نگاہوں کو بھی دیکھ رہا ہے اور محیط ہے اس لیے کہ وہ بہت باریک بین اور خبر رکھنے والا ہے کائنات کا کوئی ذرہ کسی لمحے اس کی ذات سے اوجھل نہیں اور دوسری کوئی ایسی ہستی نہیں جو اس قدر وسیع علم کی متحمل ہوسکے۔ اس لیے کہ مخلوق کی نگاہ بھی تو ایک حاسہ ہے جو محسوس اشیاء کو ہی دیکھ سکتی ہے مگر اس کی ذات تو وہم و خرد سے بھی بالا تر ہے کہ وہ لا محدود ہے اور قیاس و خرد محدود ہاں ایک بات بہت اہم یہاں زیر بحث لائی گئی ہے کہ کیا دنیا میں رویت باری ممکن ہے ؟ اس کا سیدھا جواب علماء حق نے دیا ہے کہ اس عالم دنیا میں حق تعالیٰ کی ذات کا مشاہدہ اور رویت نہیں ہوسکتی اور اس پر بہت بڑی دلیل یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا رب ارنی۔ تو فرمایا۔ لن ترانی۔ کہ آپ مجھے نہیں دیکھ سکتے تو پھر کسی اور کو کیا دعوی ہوسکتا ہے شب معراج جو دیدار نبی اکرم ﷺ کو ہوا وہ اس دنیا کے امور سے متعلق نہیں کہ علما کے مطابق دنیا آسمان کے اندر ہے اور اس کے آگے کا عالم آخرت سے تعلق رکھتا ہے اور آخرت میں تو مومنین کو میدان حشر میں بھی اور جنت میں بھی اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا جس پر بہت احادیث مبارکہ دلالت فرماتی ہیں بلکہ جنت کی نعمتوں میں سب سے اعلی نعمت ہی دیدار باری ہے۔ ایک بات جو بہت وزن رکھتی ہے وہ یہ کہ حدیث احسان میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اللہ کریم کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اور اگر ایسا نہ کرسکو تو یہ یقین ہو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے یہاں دو درجے ارشاد ہوئے ہیں پہلا درجہ یہ ہے کہ عبادت کرنے کا حق یہ ہے کہ گویا تم ذات باری کو دیکھ رہے ہو اب اگر یہ کہا جائے یہ تو محض تصور کرنے کے لیے ارشاد ہوا ہے تو جو کام ممکن ہی نہ ہو وہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور جس کا تصور کیا ہی نہیں جاسکتا اس کے بارے آپ ﷺ کیوں ارشاد فرما رہے ہیں تو بڑی سیدھی سی بات یہ ہے کہ چشم ظاہر سے عالم دنیا میں دیدار باری ممکن نہیں لیکن اگر دل بینا ہو تو دل کی نگاہ سے دیکھا بھی جاسکتا ہے بشرطیکہ اللہ کریم خود کسی کو کوئی ذرہ جمال دکھانا چاہیں اور تصور بھی کیا جاسکتا ہے مگر ہر آدمی ایسا نہیں کرسکتا یہ اللہ کے خاص بندوں کا مقام ہے اور دوسروں کے لیے انتہائے کمال یہ ہے کہ وہ یقین حاصل کرلیں کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے رہی بات موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ کی تو مسئلہ وہاں بھی یہی ہے کہ چشم باطن تو ان کی منور تھی فرشتوں کو تجلیات باری کو دیکھ رہے تھے سوال چشم ظاہر سے نظارہ کرنے کا تھا جس پر ارشاد ہوا کہ چشم ظاہر کو اس عالم میں یہ قوت نصیب نہیں ہاں آخرت میں یہ قوت عطا کردی جائے گی جیسا کہ تفسیر مظہری اور دیگر تفاسیر میں ہے کہ اگر رویت باری چشم ظاہر سے ہو تو پھر صرف انسانی آنکھ ہی نہیں ہر نگاہ دیکھے گی اور ہر وجود حسن لازوال کا اثر قبول کریگا اور تاب نہ لاتے ہوئے سب فنا ہوجائیں گے اس لیے ارشاد ہوا لن ترانی ورنہ چشم باطن یا دل کی نگاہ نصیب ہو تو آخرت کا مشاہدہ بھی ممکن ہے اور ملائکہ سے کلام بھی انوارات و تجلیات تو نظر آتی ہی ہیں کسی پر انتہائے لطف ہو تو جمال ذات کا شمہ نصیب ہوجانا بھی ممکن ہے واللہ اعلم بالثواب اور آخرت میں اہل جنت کو اللہ کا دیدار ضرور نصیب ہوگا مگر وہاں بھی نگاہیں اس کی ذات کا احاطہ نہ کرسکیں گی کہ مخلوق لاکھوں قوتیں پانے کے باوجود مخلوق ہی ہے اور اس کی ذات مخلوق کی گرفت و احاطہ سے بالا تر ہاں وہ ہر ذرے سے باخبر ہے اور ہر آن ہر شے کا علم رکھتا ہے ختم نبوت : لوگو اس کی عظمت پہ بیشمار واضح اور روشن دلائل آ چکے انسانیت تک یہ سب کچھ پہنچ چکا پھر آپ کی بعثت آپ کے کمالات و معجزات اور اللہ کا کلام یہ سب کچھ تمہارے پاس ہے اب مزید کچھ نازل نہیں ہوگا کوئی نئی دعوت نہیں آئے گی یہ بھی ختم نبوت پہ بہت بڑی دلیل ہے کہ جو کچھ نشانات ظاہر فرمانا منظور تھے وہ ہوچکے اب آپ انہیں یہ سمجھا دیں کہ بات تمہاری طرف ہے جس نے ان چیزوں پہ غور کیا اور اللہ کی اطاعت اختیار کی اس نے اپنا اپنی ذات کا بھلا اور فائدہ کرلیا مقصد حیات کو پا لیا اور جس نے آنکھیں بند کرلیں یعنی اس قدر واضح دلائل ہیں کہ جو نہ دیکھنا چاہے گویا اس نے آنکھ ہی بند کرلی تو اس نے بھی اپنا ہی نقصان کیا ، رہی میری حیثیت تو فرما دیجیے کہ میں تم پر داروغہ یا محافظ مقرر نہیں ہوں کہ تمہیں خواہ مخواہ لے کر بارگاہ الہی میں پیش کرنا ہے بلکہ میرا کام سب انسانوں کو اللہ کا پیغام پہنچانا اور جو قبول کریں اور ہدایت کے طالب ہوں ان کی تربیت فرمانا ہے۔ قرب نبوت : یہ ہمارا کرم ہے کہ اس قدر روشن دلائل مہیا فرم ادئیے اور آپ کا امی ہونے کے باوجود اس قدر اعلی کلام جس کا مضمون ، معانی اور بیان ایسا روشن ہے کہ بڑے بڑے فضلا اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز اور فلاسفر و حکماء حیران لیکن ان کی کجروی بھی دیکھیں کہتے ہیں آپ نے کہیں سے سیکھ لیا حالانکہ آپ کی حیات مبارکہ تو ان کے سامنے ہے مگر کج رو ایسی ہی باتیں کیا کرتے ہیں اور ہمارا مقصد بھی ہر ایک سے منوانا نہیں بلکہ جو طالب حق ہوں اور طلب علم رکھتے ہوں ان کی رہنمائی ہے ورنہ طاقت سے منوانا منظور ہوتا تو کس کی مجال تھی کہ شرک میں مبتلا ہوتا جو انسان ایک ایک سانس کے لیے محتاج ہے وہ بھلا کیا روگردانی کی جرات کرے گا ہاں خود ہم نے یہ آزمائش رکھی اور انسان کو اختیار دیا کہ وہ اطاعت یا خود سری میں سے ایک راہ پسند کرلے لہذا آپ کے ذمہ ان کی حفاظت نہیں ہے اس طرح کہ کوئی انسان بھی گمراہ نہ ہو بلکہ جو شرک اور گمراہی کو اپنائیں آپ ان سے اپنا رخ انورپھیر لیں ان کی ہرگز کوئی پرواہ نہ کریں یہاں یہ بات واضح ہوگئی کہ نبی رحمت ﷺ سے انہی لوگوں کو تعلق نصیب ہوگا جن میں خلوص دل سے اللہ کریم کی طلب پیدا ہوگی ورنہ محض رسومات جن کی کوئی اصل نہیں ہوتی بلکہ اکثر رسوم ایسی ہوتی ہیں جو بارگاہ نبوت سے دور کردینے کا باعث بنتی ہیں۔ اعاذنا اللہ منھا۔ بدکلامی منع ہے : ان آیات میں ایک سنہری اصول ارشاد ہوا کہ مشرکین جن معبودان باطلہ کی پرستش کرتے ہیں ان کو برا بھلا نہ کہا جائے۔ سب ، ایسے الفاظ کو کہا جاتا ہے جن سے کسی کو منسوب کیا جائے تو وہ ناپسند کرے یا سننے والوں میں اس کی تحقیر ہو اور عرف میں گالی کو کہتے ہیں تو فرمایا اگر تم ان کے لیے نازیبا کلمات استعمال کروگے تو وہ اللہ کی عظمت سے بےبہرہ ہونے کی وجہ سے اس کی شان میں گستاخی کریں گے اس لیے کہ انسانی مزاج ایسا بنایا گیا ہے کہ ہر آدمی اپنے کردار اور فکر کو ہی جائز قرار دیتا ہے اور اسی کو پسند کرتا ہے اور جب تک اللہ کی طلب پیدا نہ ہو انسان اس بات سے دست بردار نہیں ہوتا لہذا دلائل بیان کرو ، کردار سے واجح کرو مگر سلجھے ہوئے اور پسندیدہ انداز میں طعن وتشنیع سے نہیں اس میں واعظین کے لیے مقام عبرت ہے جو مسلمانوں پہ بھی بےدھڑک فتوے صادر کرتے چلے جاتے ہیں ہاں اگر وہ قبول نہیں کرتے تو انہیں بھی لوٹ کر رب العالمین ہی کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے پھر وہ ان پر واضح فرما دے گا کہ ان کا اپنایا ہوا راستہ اور کردار کیسا تھا۔ یہ نادان ابھی قسمیں کھا کھا کر کہہ رہے ہیں کہ کوئی نشان آجائے تو ضرور ایمان لے آئیں گے یعنی اب تک جو کچھ نازل ہوچکا جس قدر انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام آئیے جو معجزات لائے پھر خود نبی رحمت ﷺ کی بعثت یہ سب کچھ گویا کچھ ہوا ہی نہیں تو انہیں کہ دو کہ اللہ قادر ہے چاہے تو مزید نشان نازل کرے مگر ایسا ہوگا نہیں اس لیے نہیں کہ اللہ کریم کر نہیں سکتا اس لیے کہ اب جو آپ کی بعثت اور دلائل پہ مطمئن نہیں ہو پا رہا اللہ کریم کو ایسے لوگوں کی پرواہ بھی نہیں ہے اور اے مسلمانوں تمہیں کیا خبر کہ یہ ایمان لے آئیں گے ہم بتاتے ہیں کہ اگر اور کوئی بہت بڑا معجزہ بھی ظاہر ہوجائے تو یہ ایمان نہ لائیں گے اس لیے کہ جس دل نے آپ ﷺ کی محبت کو جگہ نہیں دی جس آنکھ کو آپ کا جمال متاثر نہیں کرسکا اسے اللہ کی طرف سے ہمیشہ کے لیے محروم ہی کردیا جاتا ہے یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اس دروازے سے ہٹ جانے والے کو اللہ کریم کبھی اپنے دروازے کا راستہ دیکھنے کی توفیق ہی ارزاں نہیں فرماتے۔ بلکہ ایسے لوگ اس جرم کی پاداش میں ہمیشہ کے لیے گمراہیوں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دئیے جاتے ہیں۔ بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے
Top