Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 47
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
يَا بَنِیْ
: اے اولاد
اِسْرَائِیْلَ
: یعقوب
اذْكُرُوْا
: تم یاد کرو
نِعْمَتِيَ
: میری نعمت
الَّتِیْ
: جو
اَنْعَمْتُ
: میں نے بخشی
عَلَيْكُمْ
: تم پر
وَاَنِّیْ
: اور یہ کہ میں نے
فَضَّلْتُكُمْ
: تمہیں فضیلت دی میں نے
عَلَى الْعَالَمِیْنَ
: زمانہ والوں پر
اے اولاد یعقوب ! میری نعمت یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میں نے تمہیں تمام جہان والوں پر فضیلت دی
آیات 47- 59 تفسیر : اسرارو معارف گزشتہ رکوع میں بنی اسرائیل کے عہد کا ذکر فرمایا گیا تھا اور اس کی ذیل میں اطاعت شریعت اسلامی کا حکم ہوا تھا کہ بالکل یہی تقاضا ان کی اپنی کتاب کا بھی تھا یہاں پھر سے انہیں براہ راست خطاب فرما کر اپنے انعامات گنوائے جا رہے ہیں کہ اس قدر عظیم انعامات پر تمہیں نافرمانی زیب نہیں دیتی اور پھر وہ منعم ایسا ہے کہ اطاعت پر مزید انعامات سے نوازنے والا ہے۔ زیادہ زور کلام بنی اسرائیل کے ساتھ اس لئے ہے کہ ایک تو یہ انبیاء کی اولاد تھے دوسرے ان ہی میں علماء کا وجود تھا اور اکثر مشرک بھی یہود ونصاریٰ کے علماء سے رجوع کرتے اور حضور اکرم ﷺ کی ذات گرامی اور دعوت کے بارے رائے حاصل کرتے تھے اللہ نے فرمایا کہ میرے انعامات یاد کرو کہ میں نے تمہیں تمہارے دور کے سارے لوگوں پہ فضیلت عطا فرمائی تمہاری قوم کو نبوت سے سرفراز فرمایا اور تمہیں علوم نصیب فرمائے تمہیں اس روز سے ڈرنا چاہیے جس دن کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا۔ واتقوا یوماً لا تجزی نفس عن نفس شیئا……………ولا ھم ینصرون۔ یہاں ” اتقو “ بمعنی خوف ہے کہ اس عظیم دن سے خوف کھائو جس دن کوئی شخص کسی بھی شخص کا دکھ نہیں بانٹ سکے گا نہ کسی سے سفارشاً کچھ سزا کم کر اسکے گا کہ کسی کافر کی کسی کافر کے حق میں سفارش قبول ہی نہ ہوگی۔ یاد رہے کہ یہاں خطاب کفار سے ہے لہٰذا مسئلہ شفاعت انبیاء سے متعلق نہیں کہ وہ صرف مومنین کے لئے ہے نہ وہ کافر کی شفاعت فرمائیں گے نہ اس کی اجازت ہوگی۔ بات چل رہی ہے ان بڑے بڑے کفار کی جن کی پیروی کرتے ہوئے یہ حق کو چھوڑے ہوئے تھے کہ یہ تمہارے کسی کام نہ آسکیں گے نہ تو تمہارا بوجھ بانٹ سکیں گے نہ سفارش کرسکیں گے اور نہ ہی قبول ہوگی ۔ نہ کسی سے کوئی عوض قبول ہوگا کہ نافرمانی کے بدلے کوئی جرمانہ ادا کرکے چھوٹ جائے یا یہ لوگ تمہیں چھڑالیں اور نہ تمہاری مدد کے قابل ہوں گے کہ طاقت استعمال کرلیں یا رعب ڈال سکیں ، غرض جتنے طریقے سزا سے بچنے کے تمہارے ذہنوں میں ہیں قیامت کے روز ان میں سے کوئی بھی نہیں چل سکے گا اور بجز ایمان کے کوئی چارہ کار نہیں۔ ایمان ایک ایسی نعمت ہے جس کے ہوتے ہوئے انسان امیدوار شفاعت بھی ہے نیز خلودونار سے بچنے کا وعدہ لئے ہوئے ہے اور تم ایمان سے خالی ہو حالانکہ تم پر ، تمہاری قوم پر ، تمہارے اجداد پر کس قدر عظیم احسانات فرمائے گئے۔ واذ نجینکم من ال فرعون……………وانتم تنظرون۔ ذرا اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے تم کو فرعونیوں سے نجات دی۔ یہ اس طرح ہوا کہ جب حضرت یعقوب (علیہ السلام) اپنے خاندان کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس مصر لے گئے تو یہ لوگ تقریبا 72 کی تعداد میں تھے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی وجہ سے وہاں دین کا دور دورہ ہوا ، عدل و انصاف قائم ہوا۔ یہ لوگ ایک طرح سے مقتداء بن گئے مگر ان کے بعد یہ لوگ انحطاط کا شکار ہوئے پرہیزگاری چھوٹی اور پھر دین بھی گیا اہل مصر بھی نہ صرف اللہ کو بھول گئے بلکہ حاکمان مصر اپنی خدائی کے دعوے دار بن بیٹھے جن میں سے حاکم جو عہد موسوی میں تھا۔ اپنے پہلوں سے بڑھ کر ظالم تھا اور بنی اسرائیل کی حالت اس قدر بدتر ہوئی کہ قبطی انہیں جانوروں کی طرح استعمال کرتے اور ان سے خدمت کراتے جس کی کوئی اجرت بھی نہ تھی۔ جھوٹا موٹا جو دے دیا وہی کھالیا ، نہ ان کی عزت تھی نہ مال اپنا حتیٰ کہ ان کی جان کی بھی کوئی قیمت نہ تھی۔ فرعون کو نجومیوں نے بتایا اس نے خواب دیکھا اور انہوں نے تعبیر دی کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جو تیری تباہی کا سبب بنے گا۔ تو اس نے بنی اسرائیل کے بچوں کے قتل کا حکم دے دیا کہ ان کے گھروں میں نرینہ اولادرہنے ہی دی جائے اور یہ سلسلہ سالوں تک جاری رہا حتیٰ کہ خود قبطی چیخ اٹھے اور انہوں نے فریاد کی کہ بنی اسرائیل کے بچے تو قتل ہوجاتے ہیں اور بڑی عمر کے لوگ مر رہے ہیں تو ہماری خدمت کون کرے گا۔ یعنی وہ ایسے بےوقعت ہوگئے تھے کہ ان کے قتل کا افسوس کسی کو نہ تھا۔ اپنی خدمت کے لئے فکردامن گیر ہوئی تو فرعون نے حکم دیا کہ ایک سال پیدا ہونے والے بچے قتل کردیئے جائیں اور ایک سال جو پیدا ہوں وہ زندہ چھوڑ دیئے جائیں۔ چناچہ حضرت ہارون (علیہ السلام) اس سال پیدا ہوئے جو معافی کا سال تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) اس سال پیدا ہوئے جس سال بچے قتل کئے جاتے تھے۔ ان کا واقعہ اپنی جگہ پر آئے گا۔ بہرحال یہاں یہ بات واضح ہوگئی کہ جو لوگ جتنے قریبی ہوں گے اگر وہ نافرمانی اختیار کریں گے تو آخرت میں تو عذاب ہوگا ہی دنیا میں ذلت ان پر مسلط کردی جائے گی۔ نافرمانی کے اثرات : اور یہی مشاہدہ ہے کہ اگر کوئی صوفی طریقت کو چھوڑ بیٹھے تو مرتد طریقت ہو کر ہمیشہ ذلیل ہوجاتا ہے اور دنیا میں بھی اس کی زندگی موت سے بدتر ہوتی ہے ، جیسے ان لوگوں کو فراعنہ اور قبطیوں کی اصلاح کرنی تھی کہ وارثان نبوت تھے مگر دنیا کے لالچ میں آکر خود ان کے پیچھے چلنے لگے تو کس قدر ذلیل کئے گئے۔ اسی طرح آج کا مسلمان جس کا فریضہ اصلاح عالم ہے جس اخرجت للناس فرمایا گیا ہے اپنا منصب چھوڑ کر کفار کے پیچھے بھاگنے لگا تو نتیجہ ظاہر ہے کہ دنیا بھر کے مصائب اسی پر ٹوٹ رہے ہیں اگر یہ آج بھی لوٹ کر اپنی جگہ آجائے تو فوراً حالات بدل سکتے ہیں اللہ کے لئے کچھ مشکل نہیں ، خدا مسلمان کو توفیق بخشے ، آمین۔ یہ اصول قوموں پر بھی لاگو ہوتا ہے اور افراد پر بھی جو کسی بھی ذرا سے عقل رکھنے والے انسان سے چھپا ہوا نہیں ہے کہ خلاف دین چل کر جس نے بھی عزت چاہی اسے ذلت نصیب ہوئی بنی اسرائیل کی طرح جنہیں یاد کرایا جارہا ہے کہ یومونکم سوالعذاب ۔ تمہیں کس قدر اذیت ناک زندگی کی طرف گھسیٹا جارہا تھا کہ مجبور تھے اس طرح بسر کرنے پر۔ حتیٰ کہ تمہارے بچے تک ذبح کردیئے جانے لگے بچیوں کو چھوڑ دیا جاتا کہ خدمت لیں گے اور لڑکے ذبح کردیئے جاتے۔ یہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر بڑی مصیبت تھی کہ اس کی ربوبیت کا تقاضا ہے جہاں جس چیز کا ہونا مناسب ہو وہاں اس کو پہنچا دیتا ہے تمہارے کرتوتوں پر بڑی مصیبت تم پر آتی تھی مگر پھر رحمت باری نے تمہیں سنبھالادیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جیسی ہستی تمہیں بخشی جس نے نہ صرف تمہیں کفر کے اندھیروں سے نکالا بلکہ فرعونیوں سے بھی تمہاری جان چھڑائی اور بحکم الٰہی تمہیں ساتھ لے کر مصر سے نکل کھڑے ہوئے۔ بتایا جارہا ہے کہ اس وقت ان کی تعداد چھ لاکھ تھی کئی عرصہ تک فرعون سے مقابلہ کرنے کے بعد اس کی اصلاح کے لئے کوشش کرنے اور مسلسل اظہار معجزات کے بعد حکم ہوا کہ انہیں لے کر نکلو مگر صبح جب فرعون کو علم ہوا کہ بنی اسرائیل رات کو نکل گئے تو ایک عظیم لشکر لے کر خود تعاقب میں روانہ ہوا جس کی تعداد بعض کے مطابق سات لاکھ تھی۔ بحیرہ قلزم کے قریب ان کو جاپکڑا۔ اب یہ لوگ بہت گھبرائے نہ جائے ماندن نہ پلائے فتن سارے سمندر غرق ہوئے کہ خوف پیچھے فرعونیوں کی تلواریں ۔ اللہ کریم فرماتے ہیں میں نے تمہارے لئے سمندر کو پھاڑ دیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پانی پر عصامارا۔ پانی اس طرح سے پھٹا کہ بارہ قبیلوں کے لئے بارہ سڑکیں چھوڑ دیں اور خشک زمین نکل آئی یعنی پلائی کی تھی تک نہ رہی اور ہر ٹکڑا پانی کے عظیم پہاڑ کی طرح اپنی جگہ کھڑا تھا مائع تھا مگر ٹھوس کی طرح کھڑا تھا اور بنی اسرائیل آرام سے گزر کر دوسرے کنارے پہنچ گئے۔ جب فرعون ہاں پہنچا تو مبہوت ہوگیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو مقرر فرمایا۔ جنہوں نے فرعون اور لشکر فرعون سب کو دریا میں ڈال دیا جیسے ہی سارے سمندر میں پہنچ گئے پانی آپس میں مل گیا اور سارا لشکر فرعون سمیت غرق ہو کر تباہ ہوگیا اور لطف یہ کہ سارا تماشہ تم خود دیکھ رہے تھے وہ فرعون جس کے نام سے تم کانپتے تھے اور وہ قبطی جو تم پر ظلم کر رہے تھے کس طرح بےبسی اور بےکسی سے تمہارے سامنے غرق ہو رہے تھے۔ صحبت شیح : یہی حال شیح کا ہے کہ دین کی راہ میں جو رکاوٹ ہو اسے پھاڑ کر راستہ بنادے اور تعاقب میں جو کبر اور ناشکری کا فرعون ہے اسے غرق دریا کرے ، اور ان چیزوں کو آدمی خود محسوس کرے کہ صحبت شیخ میں آنے سے قبل زندگی کیا تھی۔ اور اب اس میں کیا تبدیلی آئی ہے۔ واقدوای موسیٰ…………وانتم ظلمون۔ پھر وہ وقت یاد کرو جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے چالیس راتیں طور پر عبادت میں گزارنے کے لئے کہا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ چالیس راتیں طور پر گزاریں روز ہ بھی رکھیں ، کسی سے نہ ملیں نہ بات کریں تاکہ وہ قوت ملکوتی اور وہ استعداد جو اسرار الٰہی کو قبول کرتی ہے اللہ کی کتاب کو پالے اور آپ کو تورات عطا ہو۔ یہاں سے چلہ کی اصلی بھی ثابت ہے۔ روح میں قوت پرواز کے حصول کا طریقہ : اصل بات قلت طعام ، قلت کلام اور قلت اخلاط مع الانام ہے یہ نفس کو کمزور کرنے کی بہترین دوا ہے اور نفس کی کمزوری کا مطلب روح کی قوت ہے۔ ان دونوں میں سے ایک کی قوت دوسرے کی کمزوری ہے۔ اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تو لگ گئے اس انعام کی طلب میں اور یار لوگوں نے ان سے پیچھے سامری کا اتباع اختیار کرلیا جو ان کے ساتھ تھا۔ اس نے زیورات گلا کر ایک بچھڑا بنایا جو کسی قسم کی آواز پیدا کرتا تھا۔ روایات میں ملتا ہے کہ جہاں جبرائیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کے قدم لگتے وہ جگہ سرسبز ہوجاتی تو اس نے وہاں سے مٹی لے لی جو بچھڑے میں ڈالی تو وہ زندہ ہوگیا ، مگر بعض حضرات کے مطابق اس نے بچھڑے میں اس طرح کے سوراخ رکھے ہوئے تھے جو ہوا سے ایک قسم کی آواز پیدا کرتے تھے۔ واللہ اعلم۔ بہرحال قوم کا بیشترحصہ اس کے سامنے سربسجود ہوگیا۔ یہاں ان تمام باتوں کا اجمالی ذکر ہے کہ احسانات شمار فرمائے جا رہے ہیں آگے چل کر تفصیل بھی ہے۔ فرمایا تم کس قدر ظالم تھے کہ اتنے معجزات قاہرہ دیکھنے کے باوجود اور موسیٰ (علیہ السلام) جیسے جلیل القدر رسول کی صحیت نصیب ہونے کے باوجود تم اللہ کو چھوڑ بیٹھے اور مخلوق کی پرستش پہ مائل ہوگئے۔ ثم عفونا عنکم من بعد ذالک لعلکم تشکرون۔ مگر ہمارا احسان دیکھو کہ بایں ہمہ ہم نے تمہیں معاف کردیا اور تمہاری خطا بخش دی کہ تم شکر کرو اور اللہ کا احسان مانو۔ واذاتینا موسیٰ الکتاب والفرقان لعلکم تہتدون۔ نہ صرف معاف کیا بلکہ تمہاری خاطر موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عطا کی ، ایک ایسی کتاب جو حق اور باطل میں فرق بتادینے والی تھی عطا کی کہ تم راہ ہدایت پاسکو۔ گویا نبی کو کتاب کا ملنا چونکہ امت کی ہدایت کے لئے تھا۔ اور ان کے پاس ایک حق و باطل کی کسوٹی پہنچ گئی نیز سب کو کلام اللہ سے مشرف ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ ان سب احسانات کا شکر کس قدر واجب تھا۔ یہ امت محمدیہ ﷺ کو اس غرض سے بتایا جارہا ہے کہ ان کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) تھے تو تمہیں محمدرسول اللہ ﷺ کا امتی ہونے کا شرف حاصل ہے کتاب اللہ اپنی اصلی حالت میں تمہارے پاس محفوظ ہے اور یہی حق و باطل کا معیار ہے جو لوگ ، جو قوم ، جو افراد جن عقائد و اعمال میں اس کے خلاف لڑیں گے وہ گمراہی ہوگی اور اس کا اتباع ہدایت۔ واذقال موسیٰ لقومہ……………انہ ھوالتواب الرحیم۔ اور وہ وقت بھی یاد کرو جب موسیٰ (علیہ السلام) نے تمہیں تمہارے گناہ کی شدت سے آگاہ فرمایا اور تمہیں طریق توبہ بتایا۔ یہی منصب تصوف میں شیخ کا ہے کہ گناہ سے بےرغبتی دلائے اور توبہ کا طریقہ دل میں بٹھائے فرق یہ ہے کہ نبی براہ راست اللہ سے ہدایت لیتا ہے اور شیخ نبی کی اطاعت میں جس شخص کی صحبت میں یہ شے حاصل نہ ہو اس کی صحبت میں رہنا وقت کا ضیاع ہے اور گمراہی کا خطرہ الگ۔ لہٰذا اس ظلم عظیم کا علاج یہ ہے کہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ جن لوگوں نے گوسالہ کو سجدہ کیا ہے انہیں وہ لوگ قتل کردیں جو اس میں ملوث نہیں ہوئے تو مقتول کی توبہ منظور ہوجائے گی فرمایا فاقتلوانفسکم اب تمہارا قتل ہونا ہی تمہارے لئے بہتر ہے اسی میں تمہاری بھلائی ہے اور یہ شرک کا داغ اب گردن کے خون ہی سے صاف ہوسکے گا یہ طریق توبہ بعض گناہوں پہ ہماری شریعت میں بھی مقرر ہے جیسے قتل عمد کے بدلے حمل یا زنا کے بدلے پر رحم کو یہ صرتوبہ سے ساقط نہیں ہوتے ہاں اگر معاملات رفت وگزشت ہوچکے ہوں اور بجز اللہ کوئی جانتا نہ ہو تو علاج توبہ کے سوا کچھ نہیں یہ رحمت خاص ہے امت محمدیہ کے لئے اور کمال تصوف بھی یہ ہے کہ گویا قتل ہوچکا ، نفس مارا جاچکا ہے اب شریعت کے سامنے ایسا ہو جیسا مردہ بدست غسال ، جدھر ہلائے ادھر ہلے گا۔ صحبت پیغمبرکا کمال کہ دوری میں جو مبتلا شرک ہوگئے تھے حضوری میں ایسے صاف دل بن گئے کہ قتل تک ہونا منظور کرلیا اور قتل ہوئے بہت کثرت سے قتل ہوئے تو پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی۔ حکم ہوا کہ جو بچ رہے ہیں انہیں بھی معاف فرماتا ہوں اور جو قتل ہوئے انہیں شہادت سے سرفراز فرماتا ہوں۔ سو پھر تم پر متوجہ ہوا۔ بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔ پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) نے تورات پیش کی تو کہنے لگے بھئی ! مانلینے سے تو ہم کو اعتراض نہیں۔ بات اتنی ہے کہ اگر خود اللہ کہہ دے کہ یہ میری کتاب ہے تو بڑی بات ہے موسیٰ (علیہ السلام) راضی ہوگئے اور قبیلے کے چیدہ چیدہ افرادہ کو جو کافی تعاد میں تھے لے کر طور پر پہنچے۔ دعا کی اللہ ان کو بھی اپنا کلام سننے کی توفیق وقوت عطا کر ۔ چناچہ انہوں نے سنا اور یہ بہت بڑا کمال تھا جو انہیں نبی کے وسیلے سے غیب ہوا۔ ثابت ہوتا ہے کہ اہل اللہ میں ایسے افراد ہوسکتے ہیں جنہیں باتباع نبی اللہ سے کلام نصیب ہو۔ مگر اس کا درجہ وہ نہ ہوگا جسے وحی کی جائے۔ تو وہ وقت یاد کرو جب تم اس پر بجائے شکر کے حد سے بڑھ گئے کہ بات تو سن لی مگر کہنے لگے نہ جانے کس کی تھی اگر اللہ کو دیکھ لیں اور پھر ہمارے سامنے بات ہو تو مانیں اور یہ حد سے بڑھی ہوئی جسارت تھی۔ اس عالم آب وگل میں دیدار باری کی قوت ہی ہیں دی گئی بلکہ خود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تمنا کی تو ارشاد ہوا لن ترانی تم دیکھ نہ سکو گے۔ ساری خدائی میں یہ شرف رسول اللہ ﷺ کا ہے کہ شب معراج دیدار باری ہوا جس پر بعض کو اختلاف بھی ہے مگر یہاں دو باتیں زیر غور ہیں ایک تو حضور ﷺ جسدعنصری کے ساتھ عالم بالا کو تشریف لے گئے ہیں جس پر اہل سنت کا کوئی اختلاف نہیں تو یہ بات دنیا کی نہ رہی بلکہ اس عالم کی ہوگئی دوسری یہ کہ سب کا اتفاق ہے حضور ﷺ نے جنت کا ملاحظہ ومعائنہ فرمایا۔ نعمائے جنت میں سب سے بڑی نعمت ہی دیدار باری ہے اگر اللہ ہی کو نہ دیکھا تو پھر جنت میں کیا دیکھا۔ یہ بات اس کے حق میں جاتی ہے کہ آپ ﷺ کو دیار باری ہوا ۔ واللہ اعلم وعلمہ ، اعظم۔ اور کسی سے یہ کمال ثابت نہیں۔ ہاں ! آخرت میں اور جنت میں جنتیوں کو حسب مراتب نصیب ہونا ثابت ہے۔ یہاں یہ بات تھی بنی اسرائیل کی ، کہنے لگے واذقلتم یا موسیٰ لن نومن لک حتی نری اللہ جھرۃ فاخذتکم الصاعقۃ وانتم تنظرون۔ جب تم نے حد سے بڑھ کر اور بحیثیت سے بڑھ کر مطالبہ کیا تو تم پر بجلی گری اور دیکھتے ہی دیکھتے تم فنا ہوگئے۔ ہوسکتا ہے بجلی ہی ہو یا تجلیات پر بھی کی کوئی بھوک جو یہ برداشت نہ کرسکتے تھے اور نہ کرسکے چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی کہ اللہ کے قتل کی تہمت سے مجھے ۔۔۔ پھر سے زندگی دے اور یہ چونکہ قضائے معلق تھی جو بدل سکتی ہے یعنی ایک فعل کے نتیجہ میں ان پر مسلط کی گئی ، عمر طبعی پوری نہ ہوئی تھی جس کے بعد اٹھائیں تو پھر تمہیں زندہ کردیا گیا۔ کیا کیا کمالات تھے اور کیسے کیسے انعامات تھے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے طفیل تمہیں نصیب ہوئے۔ ثم بعثنکم من بعد مولنکم لعلکم تشکرون۔ تمہیں ایسا موقع نصیب ہوا کہ تم شکر کرتے ، اللہ کے احسانات یاد کرکے اس کے سامنے سرجھکا دیتے۔ مگر ہوا کیا کہ تمہیں حکم بلا لو اور تم عمالقعہ سے ، جو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے چلے جانے کے بعد اس ملک پر قابض ہوگئے تھے اپنا وطن اصلی واپس لے لو ، اور اور جہاد کا ثواب بھی لوٹو۔ یہ حضرات چلے مگر جب راہ میں عمالقہ کی قوت کا حال معلوم ہوا تو دل چھوڑ بیٹھے کہ موسیٰ ! تو اور تیرے خدا لڑے ہم سے یہ مصیبت مول نہیں لی جاسکتی۔ چناچہ سب نے واپسی کی ٹھانی۔ اب جناب سارا دن چلتے اور رات ٹھہرتے مگر چالیس سال چلتے رہے اور رہے وہیں کے وہیں۔ ایک بارہ کو اس کی وادی میں پھنس کر رہ گئے جو عصر اور شام کے درمیان میں تھی۔ نہ وہاں پانی نہ خوراک ، نہ سایہ نہ مکان ، نہ لباس نہ دکان ، لگے خراب ہونے۔ پھر التجا کی موسیٰ ! ہم ہلاک ہوجائیں گے۔ آپ نے پھر دعا کی تو اللہ نے تمام آسانیاں بخش دیں مگر چالیس برس تک اس میں بھٹکنا پڑا کسی طرف نکل نہ سکے۔ وضظلنا علیکم الدام وازلنا علیکم المن والسلویٰ کلوا من طیبت مارزقنکم وما ظلمونا ولکن کانوا العباد ویظلمون یہ انہیں احسانات کو یاد فرمایا جارہا ہے کہ دھوپ نکلتی تو تم پر بادل سایہ کرلیتے اور کھانے پینے کے فکر سے تمہیں یوں آزاد کیا کہ من وسلویٰ عطا فرمایا ” من “ ایک تر نجبین سی تھی جو رات کو جھاڑیوں پر خوب اکٹھی ہوتی اور صبح یہ حاصل کرلیتے۔ اور ” سلویٰ “ بٹیریں تھیں۔ جن کے ڈر آجاتے اور ان سے بھاگتے نہ تھے یہ پکڑ کر ذبح کرتے اور کھاتے ۔ حتیٰ کہ کپڑے نہ میلے ہوتے اور نہ پھٹتے بچوں کو جو کپڑے پہنادیئے وہ جسم کے ساتھ ساتھ بڑھتے رہتے۔ رات کی تاریکی کا تدارک ایک نوری روشنی کردیا جاتا۔ غرضیکہ ان کی تمام تر ضروریات کو خرق عادت کے طور پر پورا کردیا گیا۔ اور زندگی کی ضرورتوں سے بےنیاز ہوگئے مگر باوجود ان عنایات کے اللہ کی اطاعت پر قائم نہ رہ سکے اور لگے نافرمانیاں کرنے ان کی یہ ناشکری اللہ کا تو کچھ بگاڑ نہ سکی۔ مگر خود ان کے حق میں بہت بڑی مصیبت ہوئی کہ زوال نعمت کا سبب بن گئی جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ واذقلنا ادخلوا……………وسنزید المحسنین۔ پھر وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تمہیں ایک شہر پر غلبہ دیا اور حکم دیا کہ اس شہر میں داخل ہوجائو اور جو کچھ اس میں ہے تم پر حلال ہے مزے سے کھائو لیکن ایک بات یاد رہے کہ داخلے کے وقت سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا کہ تمہارا عجز اور ہماری عظمت ظاہر ہو نیز شکر ادا کرنے کا باعث ہو اور زبان سے حطۃ یعنی گزشتہ غلطیوں کی معافی مانگتے ہوئے بھی تو ہماری عنایات دیکھو کہ اتنے سے معمولی کام پر پچھلی تمام خطائوں کی معافی کا وعدہ فرمایا۔ بلکہ فرمایا وسنزید المحسنین ، جن میں جتنا خلوص یا خشوع زیادہ ہوگا ان کو معافی کے ساتھ انعامات اور قرب الٰہی نصیب ہوگا۔ احسان نام ہے خلوص قلب کا اور یہ کیفیت ہر دل کی جدا ہوتی ہے۔ تو جس قدر کسی کے دل میں رجوع الی اللہ کی کیفیت بڑھتی جائے گی اس پر دو عالم میں انعامات بھی بڑھتے جائیں گے مگر یہ تم تھے کہ اتنی سی بات پر بھی عمل نہ کرسکے اور تم میں سے بدکاروں نے الفاظ بدل دیئے۔ فبدل الذین ظلموا……………بما کانوا یفقون۔ یہ لوگ جب داخل ہوئے تو نہ ہی سجدہ کیا اور نہ ہی الفاظ درست کہے بلکہ حنطلۃ کہنے لگے جس کا معنی روٹی ہے کہ بھئی ! ہم تو بھوک کے ستائے ہوئے لوگ ہیں ہمیں تو کھانا درکار ہے۔ لہٰذا اس فعل اور قول کو بدل دینے کی وجہ سے ان بدکاروں پر آسمان سے آفت نازل کی گئی۔ کہ ان کی بدکاری کا ثمر تھا۔ ایک ظلم تو سجدہ نہ کرنے کا تھا دوسرا یہ کہ الفاظ ہی بدل دیئے جو مامور بہ تھے یہاں تو معنی بھی بدل گئے اگر معانی محفوظ رکھتے ہوئے صرف الفاظ بدل دیئے جائیں تو بھی درست نہ ہوگا خصوصاً عبادات میں مثلاً اذان یا صلوٰۃ میں ثناء اور التحیات وغیرہ کہ ان کی جگہ معانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے بھی الفاظ بدل دینا جائز نہیں اور نہ صلوٰۃ ہوگی (معارف القرآن) ہاں احادیث میں روایت بالمعنی کا جواز ملتا ہے قرصی نے امام مالک ، شافعی اور ابوحنیفہ رحمہم اللہ سے نقل کیا ہے مگر وہ بھی اس شخص کے لئے جو عربی زبان میں ماہر ہو اور مواقع خطاب اور ماحول کے لحاظ سے معانی یا مضمون کو سمجھ سکے ہر کس کے لئے نہیں اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ دنیاوی نقصان میں بھی مبتلا ہوگا۔ اس طرح صوفی کے لئے ان الفاظ ووظائف میں جو شیخ نے تعلیم فرماتے ہوں تبدیلی جائز نہیں ورنہ اس کا دینی نقصان بھی ہوگا اور دنیاوی مصائب بھی آئیں گے جس طرح ان نافرمانوں پر طاعون مسلط کردی گئی جو بطور سزا کے تھی اور اس کا سبب ان کی نافرمانی تھا بما اسمانوا یفسقون۔ کہ وہ بداعمال تھے۔ مصائب کا فلسفہ : بدکاروں پر مصیبت بطور سزا آتی ہے اور جو مصائب نیک بندوں پر آتے ہیں وہ بطور انعام ہوتے ہیں کہ بعض مقامات قرب کے حصول کے لئے ضروری ہوتے ہیں جیسے شہادت کے لئے قتل ہونا راہ حق میں ضروری ہے اور بعض اوقات منصب ومقام کے لحاظ سے عبادات میں کمی رہ جاتی ہے جسے تکالیف دنیاوی پورا کرتی ہیں۔ اور کبھی مجاہدہ کرانا مقصود ہوتا ہے تاکہ اس پر انعام مرتب ہو کہ یہ مجاہدہ اضطراری ہے جیسے آگے اسی قصہ میں آرہا ہے اور وہ وقت بھی یاد کرو۔ جب وادی تیہ میں تم کو پیاس نے بےحال کردیا اور تمہارے لئے موسیٰ (علیہ السلام) نے پانی کی دعا کی۔
Top