Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 47
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
يَا بَنِیْ : اے اولاد اِسْرَائِیْلَ : یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاَنِّیْ : اور یہ کہ میں نے فَضَّلْتُكُمْ : تمہیں فضیلت دی میں نے عَلَى الْعَالَمِیْنَ : زمانہ والوں پر
اے اولاد یعقوب ! میری نعمت یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میں نے تمہیں تمام جہان والوں پر فضیلت دی
آیات 47- 59 تفسیر : اسرارو معارف گزشتہ رکوع میں بنی اسرائیل کے عہد کا ذکر فرمایا گیا تھا اور اس کی ذیل میں اطاعت شریعت اسلامی کا حکم ہوا تھا کہ بالکل یہی تقاضا ان کی اپنی کتاب کا بھی تھا یہاں پھر سے انہیں براہ راست خطاب فرما کر اپنے انعامات گنوائے جا رہے ہیں کہ اس قدر عظیم انعامات پر تمہیں نافرمانی زیب نہیں دیتی اور پھر وہ منعم ایسا ہے کہ اطاعت پر مزید انعامات سے نوازنے والا ہے۔ زیادہ زور کلام بنی اسرائیل کے ساتھ اس لئے ہے کہ ایک تو یہ انبیاء کی اولاد تھے دوسرے ان ہی میں علماء کا وجود تھا اور اکثر مشرک بھی یہود ونصاریٰ کے علماء سے رجوع کرتے اور حضور اکرم ﷺ کی ذات گرامی اور دعوت کے بارے رائے حاصل کرتے تھے اللہ نے فرمایا کہ میرے انعامات یاد کرو کہ میں نے تمہیں تمہارے دور کے سارے لوگوں پہ فضیلت عطا فرمائی تمہاری قوم کو نبوت سے سرفراز فرمایا اور تمہیں علوم نصیب فرمائے تمہیں اس روز سے ڈرنا چاہیے جس دن کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا۔ واتقوا یوماً لا تجزی نفس عن نفس شیئا……………ولا ھم ینصرون۔ یہاں ” اتقو “ بمعنی خوف ہے کہ اس عظیم دن سے خوف کھائو جس دن کوئی شخص کسی بھی شخص کا دکھ نہیں بانٹ سکے گا نہ کسی سے سفارشاً کچھ سزا کم کر اسکے گا کہ کسی کافر کی کسی کافر کے حق میں سفارش قبول ہی نہ ہوگی۔ یاد رہے کہ یہاں خطاب کفار سے ہے لہٰذا مسئلہ شفاعت انبیاء سے متعلق نہیں کہ وہ صرف مومنین کے لئے ہے نہ وہ کافر کی شفاعت فرمائیں گے نہ اس کی اجازت ہوگی۔ بات چل رہی ہے ان بڑے بڑے کفار کی جن کی پیروی کرتے ہوئے یہ حق کو چھوڑے ہوئے تھے کہ یہ تمہارے کسی کام نہ آسکیں گے نہ تو تمہارا بوجھ بانٹ سکیں گے نہ سفارش کرسکیں گے اور نہ ہی قبول ہوگی ۔ نہ کسی سے کوئی عوض قبول ہوگا کہ نافرمانی کے بدلے کوئی جرمانہ ادا کرکے چھوٹ جائے یا یہ لوگ تمہیں چھڑالیں اور نہ تمہاری مدد کے قابل ہوں گے کہ طاقت استعمال کرلیں یا رعب ڈال سکیں ، غرض جتنے طریقے سزا سے بچنے کے تمہارے ذہنوں میں ہیں قیامت کے روز ان میں سے کوئی بھی نہیں چل سکے گا اور بجز ایمان کے کوئی چارہ کار نہیں۔ ایمان ایک ایسی نعمت ہے جس کے ہوتے ہوئے انسان امیدوار شفاعت بھی ہے نیز خلودونار سے بچنے کا وعدہ لئے ہوئے ہے اور تم ایمان سے خالی ہو حالانکہ تم پر ، تمہاری قوم پر ، تمہارے اجداد پر کس قدر عظیم احسانات فرمائے گئے۔ واذ نجینکم من ال فرعون……………وانتم تنظرون۔ ذرا اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے تم کو فرعونیوں سے نجات دی۔ یہ اس طرح ہوا کہ جب حضرت یعقوب (علیہ السلام) اپنے خاندان کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس مصر لے گئے تو یہ لوگ تقریبا 72 کی تعداد میں تھے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی وجہ سے وہاں دین کا دور دورہ ہوا ، عدل و انصاف قائم ہوا۔ یہ لوگ ایک طرح سے مقتداء بن گئے مگر ان کے بعد یہ لوگ انحطاط کا شکار ہوئے پرہیزگاری چھوٹی اور پھر دین بھی گیا اہل مصر بھی نہ صرف اللہ کو بھول گئے بلکہ حاکمان مصر اپنی خدائی کے دعوے دار بن بیٹھے جن میں سے حاکم جو عہد موسوی میں تھا۔ اپنے پہلوں سے بڑھ کر ظالم تھا اور بنی اسرائیل کی حالت اس قدر بدتر ہوئی کہ قبطی انہیں جانوروں کی طرح استعمال کرتے اور ان سے خدمت کراتے جس کی کوئی اجرت بھی نہ تھی۔ جھوٹا موٹا جو دے دیا وہی کھالیا ، نہ ان کی عزت تھی نہ مال اپنا حتیٰ کہ ان کی جان کی بھی کوئی قیمت نہ تھی۔ فرعون کو نجومیوں نے بتایا اس نے خواب دیکھا اور انہوں نے تعبیر دی کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جو تیری تباہی کا سبب بنے گا۔ تو اس نے بنی اسرائیل کے بچوں کے قتل کا حکم دے دیا کہ ان کے گھروں میں نرینہ اولادرہنے ہی دی جائے اور یہ سلسلہ سالوں تک جاری رہا حتیٰ کہ خود قبطی چیخ اٹھے اور انہوں نے فریاد کی کہ بنی اسرائیل کے بچے تو قتل ہوجاتے ہیں اور بڑی عمر کے لوگ مر رہے ہیں تو ہماری خدمت کون کرے گا۔ یعنی وہ ایسے بےوقعت ہوگئے تھے کہ ان کے قتل کا افسوس کسی کو نہ تھا۔ اپنی خدمت کے لئے فکردامن گیر ہوئی تو فرعون نے حکم دیا کہ ایک سال پیدا ہونے والے بچے قتل کردیئے جائیں اور ایک سال جو پیدا ہوں وہ زندہ چھوڑ دیئے جائیں۔ چناچہ حضرت ہارون (علیہ السلام) اس سال پیدا ہوئے جو معافی کا سال تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) اس سال پیدا ہوئے جس سال بچے قتل کئے جاتے تھے۔ ان کا واقعہ اپنی جگہ پر آئے گا۔ بہرحال یہاں یہ بات واضح ہوگئی کہ جو لوگ جتنے قریبی ہوں گے اگر وہ نافرمانی اختیار کریں گے تو آخرت میں تو عذاب ہوگا ہی دنیا میں ذلت ان پر مسلط کردی جائے گی۔ نافرمانی کے اثرات : اور یہی مشاہدہ ہے کہ اگر کوئی صوفی طریقت کو چھوڑ بیٹھے تو مرتد طریقت ہو کر ہمیشہ ذلیل ہوجاتا ہے اور دنیا میں بھی اس کی زندگی موت سے بدتر ہوتی ہے ، جیسے ان لوگوں کو فراعنہ اور قبطیوں کی اصلاح کرنی تھی کہ وارثان نبوت تھے مگر دنیا کے لالچ میں آکر خود ان کے پیچھے چلنے لگے تو کس قدر ذلیل کئے گئے۔ اسی طرح آج کا مسلمان جس کا فریضہ اصلاح عالم ہے جس اخرجت للناس فرمایا گیا ہے اپنا منصب چھوڑ کر کفار کے پیچھے بھاگنے لگا تو نتیجہ ظاہر ہے کہ دنیا بھر کے مصائب اسی پر ٹوٹ رہے ہیں اگر یہ آج بھی لوٹ کر اپنی جگہ آجائے تو فوراً حالات بدل سکتے ہیں اللہ کے لئے کچھ مشکل نہیں ، خدا مسلمان کو توفیق بخشے ، آمین۔ یہ اصول قوموں پر بھی لاگو ہوتا ہے اور افراد پر بھی جو کسی بھی ذرا سے عقل رکھنے والے انسان سے چھپا ہوا نہیں ہے کہ خلاف دین چل کر جس نے بھی عزت چاہی اسے ذلت نصیب ہوئی بنی اسرائیل کی طرح جنہیں یاد کرایا جارہا ہے کہ یومونکم سوالعذاب ۔ تمہیں کس قدر اذیت ناک زندگی کی طرف گھسیٹا جارہا تھا کہ مجبور تھے اس طرح بسر کرنے پر۔ حتیٰ کہ تمہارے بچے تک ذبح کردیئے جانے لگے بچیوں کو چھوڑ دیا جاتا کہ خدمت لیں گے اور لڑکے ذبح کردیئے جاتے۔ یہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر بڑی مصیبت تھی کہ اس کی ربوبیت کا تقاضا ہے جہاں جس چیز کا ہونا مناسب ہو وہاں اس کو پہنچا دیتا ہے تمہارے کرتوتوں پر بڑی مصیبت تم پر آتی تھی مگر پھر رحمت باری نے تمہیں سنبھالادیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جیسی ہستی تمہیں بخشی جس نے نہ صرف تمہیں کفر کے اندھیروں سے نکالا بلکہ فرعونیوں سے بھی تمہاری جان چھڑائی اور بحکم الٰہی تمہیں ساتھ لے کر مصر سے نکل کھڑے ہوئے۔ بتایا جارہا ہے کہ اس وقت ان کی تعداد چھ لاکھ تھی کئی عرصہ تک فرعون سے مقابلہ کرنے کے بعد اس کی اصلاح کے لئے کوشش کرنے اور مسلسل اظہار معجزات کے بعد حکم ہوا کہ انہیں لے کر نکلو مگر صبح جب فرعون کو علم ہوا کہ بنی اسرائیل رات کو نکل گئے تو ایک عظیم لشکر لے کر خود تعاقب میں روانہ ہوا جس کی تعداد بعض کے مطابق سات لاکھ تھی۔ بحیرہ قلزم کے قریب ان کو جاپکڑا۔ اب یہ لوگ بہت گھبرائے نہ جائے ماندن نہ پلائے فتن سارے سمندر غرق ہوئے کہ خوف پیچھے فرعونیوں کی تلواریں ۔ اللہ کریم فرماتے ہیں میں نے تمہارے لئے سمندر کو پھاڑ دیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پانی پر عصامارا۔ پانی اس طرح سے پھٹا کہ بارہ قبیلوں کے لئے بارہ سڑکیں چھوڑ دیں اور خشک زمین نکل آئی یعنی پلائی کی تھی تک نہ رہی اور ہر ٹکڑا پانی کے عظیم پہاڑ کی طرح اپنی جگہ کھڑا تھا مائع تھا مگر ٹھوس کی طرح کھڑا تھا اور بنی اسرائیل آرام سے گزر کر دوسرے کنارے پہنچ گئے۔ جب فرعون ہاں پہنچا تو مبہوت ہوگیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو مقرر فرمایا۔ جنہوں نے فرعون اور لشکر فرعون سب کو دریا میں ڈال دیا جیسے ہی سارے سمندر میں پہنچ گئے پانی آپس میں مل گیا اور سارا لشکر فرعون سمیت غرق ہو کر تباہ ہوگیا اور لطف یہ کہ سارا تماشہ تم خود دیکھ رہے تھے وہ فرعون جس کے نام سے تم کانپتے تھے اور وہ قبطی جو تم پر ظلم کر رہے تھے کس طرح بےبسی اور بےکسی سے تمہارے سامنے غرق ہو رہے تھے۔ صحبت شیح : یہی حال شیح کا ہے کہ دین کی راہ میں جو رکاوٹ ہو اسے پھاڑ کر راستہ بنادے اور تعاقب میں جو کبر اور ناشکری کا فرعون ہے اسے غرق دریا کرے ، اور ان چیزوں کو آدمی خود محسوس کرے کہ صحبت شیخ میں آنے سے قبل زندگی کیا تھی۔ اور اب اس میں کیا تبدیلی آئی ہے۔ واقدوای موسیٰ…………وانتم ظلمون۔ پھر وہ وقت یاد کرو جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے چالیس راتیں طور پر عبادت میں گزارنے کے لئے کہا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ چالیس راتیں طور پر گزاریں روز ہ بھی رکھیں ، کسی سے نہ ملیں نہ بات کریں تاکہ وہ قوت ملکوتی اور وہ استعداد جو اسرار الٰہی کو قبول کرتی ہے اللہ کی کتاب کو پالے اور آپ کو تورات عطا ہو۔ یہاں سے چلہ کی اصلی بھی ثابت ہے۔ روح میں قوت پرواز کے حصول کا طریقہ : اصل بات قلت طعام ، قلت کلام اور قلت اخلاط مع الانام ہے یہ نفس کو کمزور کرنے کی بہترین دوا ہے اور نفس کی کمزوری کا مطلب روح کی قوت ہے۔ ان دونوں میں سے ایک کی قوت دوسرے کی کمزوری ہے۔ اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تو لگ گئے اس انعام کی طلب میں اور یار لوگوں نے ان سے پیچھے سامری کا اتباع اختیار کرلیا جو ان کے ساتھ تھا۔ اس نے زیورات گلا کر ایک بچھڑا بنایا جو کسی قسم کی آواز پیدا کرتا تھا۔ روایات میں ملتا ہے کہ جہاں جبرائیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کے قدم لگتے وہ جگہ سرسبز ہوجاتی تو اس نے وہاں سے مٹی لے لی جو بچھڑے میں ڈالی تو وہ زندہ ہوگیا ، مگر بعض حضرات کے مطابق اس نے بچھڑے میں اس طرح کے سوراخ رکھے ہوئے تھے جو ہوا سے ایک قسم کی آواز پیدا کرتے تھے۔ واللہ اعلم۔ بہرحال قوم کا بیشترحصہ اس کے سامنے سربسجود ہوگیا۔ یہاں ان تمام باتوں کا اجمالی ذکر ہے کہ احسانات شمار فرمائے جا رہے ہیں آگے چل کر تفصیل بھی ہے۔ فرمایا تم کس قدر ظالم تھے کہ اتنے معجزات قاہرہ دیکھنے کے باوجود اور موسیٰ (علیہ السلام) جیسے جلیل القدر رسول کی صحیت نصیب ہونے کے باوجود تم اللہ کو چھوڑ بیٹھے اور مخلوق کی پرستش پہ مائل ہوگئے۔ ثم عفونا عنکم من بعد ذالک لعلکم تشکرون۔ مگر ہمارا احسان دیکھو کہ بایں ہمہ ہم نے تمہیں معاف کردیا اور تمہاری خطا بخش دی کہ تم شکر کرو اور اللہ کا احسان مانو۔ واذاتینا موسیٰ الکتاب والفرقان لعلکم تہتدون۔ نہ صرف معاف کیا بلکہ تمہاری خاطر موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عطا کی ، ایک ایسی کتاب جو حق اور باطل میں فرق بتادینے والی تھی عطا کی کہ تم راہ ہدایت پاسکو۔ گویا نبی کو کتاب کا ملنا چونکہ امت کی ہدایت کے لئے تھا۔ اور ان کے پاس ایک حق و باطل کی کسوٹی پہنچ گئی نیز سب کو کلام اللہ سے مشرف ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ ان سب احسانات کا شکر کس قدر واجب تھا۔ یہ امت محمدیہ ﷺ کو اس غرض سے بتایا جارہا ہے کہ ان کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) تھے تو تمہیں محمدرسول اللہ ﷺ کا امتی ہونے کا شرف حاصل ہے کتاب اللہ اپنی اصلی حالت میں تمہارے پاس محفوظ ہے اور یہی حق و باطل کا معیار ہے جو لوگ ، جو قوم ، جو افراد جن عقائد و اعمال میں اس کے خلاف لڑیں گے وہ گمراہی ہوگی اور اس کا اتباع ہدایت۔ واذقال موسیٰ لقومہ……………انہ ھوالتواب الرحیم۔ اور وہ وقت بھی یاد کرو جب موسیٰ (علیہ السلام) نے تمہیں تمہارے گناہ کی شدت سے آگاہ فرمایا اور تمہیں طریق توبہ بتایا۔ یہی منصب تصوف میں شیخ کا ہے کہ گناہ سے بےرغبتی دلائے اور توبہ کا طریقہ دل میں بٹھائے فرق یہ ہے کہ نبی براہ راست اللہ سے ہدایت لیتا ہے اور شیخ نبی کی اطاعت میں جس شخص کی صحبت میں یہ شے حاصل نہ ہو اس کی صحبت میں رہنا وقت کا ضیاع ہے اور گمراہی کا خطرہ الگ۔ لہٰذا اس ظلم عظیم کا علاج یہ ہے کہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ جن لوگوں نے گوسالہ کو سجدہ کیا ہے انہیں وہ لوگ قتل کردیں جو اس میں ملوث نہیں ہوئے تو مقتول کی توبہ منظور ہوجائے گی فرمایا فاقتلوانفسکم اب تمہارا قتل ہونا ہی تمہارے لئے بہتر ہے اسی میں تمہاری بھلائی ہے اور یہ شرک کا داغ اب گردن کے خون ہی سے صاف ہوسکے گا یہ طریق توبہ بعض گناہوں پہ ہماری شریعت میں بھی مقرر ہے جیسے قتل عمد کے بدلے حمل یا زنا کے بدلے پر رحم کو یہ صرتوبہ سے ساقط نہیں ہوتے ہاں اگر معاملات رفت وگزشت ہوچکے ہوں اور بجز اللہ کوئی جانتا نہ ہو تو علاج توبہ کے سوا کچھ نہیں یہ رحمت خاص ہے امت محمدیہ کے لئے اور کمال تصوف بھی یہ ہے کہ گویا قتل ہوچکا ، نفس مارا جاچکا ہے اب شریعت کے سامنے ایسا ہو جیسا مردہ بدست غسال ، جدھر ہلائے ادھر ہلے گا۔ صحبت پیغمبرکا کمال کہ دوری میں جو مبتلا شرک ہوگئے تھے حضوری میں ایسے صاف دل بن گئے کہ قتل تک ہونا منظور کرلیا اور قتل ہوئے بہت کثرت سے قتل ہوئے تو پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی۔ حکم ہوا کہ جو بچ رہے ہیں انہیں بھی معاف فرماتا ہوں اور جو قتل ہوئے انہیں شہادت سے سرفراز فرماتا ہوں۔ سو پھر تم پر متوجہ ہوا۔ بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔ پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) نے تورات پیش کی تو کہنے لگے بھئی ! مانلینے سے تو ہم کو اعتراض نہیں۔ بات اتنی ہے کہ اگر خود اللہ کہہ دے کہ یہ میری کتاب ہے تو بڑی بات ہے موسیٰ (علیہ السلام) راضی ہوگئے اور قبیلے کے چیدہ چیدہ افرادہ کو جو کافی تعاد میں تھے لے کر طور پر پہنچے۔ دعا کی اللہ ان کو بھی اپنا کلام سننے کی توفیق وقوت عطا کر ۔ چناچہ انہوں نے سنا اور یہ بہت بڑا کمال تھا جو انہیں نبی کے وسیلے سے غیب ہوا۔ ثابت ہوتا ہے کہ اہل اللہ میں ایسے افراد ہوسکتے ہیں جنہیں باتباع نبی اللہ سے کلام نصیب ہو۔ مگر اس کا درجہ وہ نہ ہوگا جسے وحی کی جائے۔ تو وہ وقت یاد کرو جب تم اس پر بجائے شکر کے حد سے بڑھ گئے کہ بات تو سن لی مگر کہنے لگے نہ جانے کس کی تھی اگر اللہ کو دیکھ لیں اور پھر ہمارے سامنے بات ہو تو مانیں اور یہ حد سے بڑھی ہوئی جسارت تھی۔ اس عالم آب وگل میں دیدار باری کی قوت ہی ہیں دی گئی بلکہ خود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تمنا کی تو ارشاد ہوا لن ترانی تم دیکھ نہ سکو گے۔ ساری خدائی میں یہ شرف رسول اللہ ﷺ کا ہے کہ شب معراج دیدار باری ہوا جس پر بعض کو اختلاف بھی ہے مگر یہاں دو باتیں زیر غور ہیں ایک تو حضور ﷺ جسدعنصری کے ساتھ عالم بالا کو تشریف لے گئے ہیں جس پر اہل سنت کا کوئی اختلاف نہیں تو یہ بات دنیا کی نہ رہی بلکہ اس عالم کی ہوگئی دوسری یہ کہ سب کا اتفاق ہے حضور ﷺ نے جنت کا ملاحظہ ومعائنہ فرمایا۔ نعمائے جنت میں سب سے بڑی نعمت ہی دیدار باری ہے اگر اللہ ہی کو نہ دیکھا تو پھر جنت میں کیا دیکھا۔ یہ بات اس کے حق میں جاتی ہے کہ آپ ﷺ کو دیار باری ہوا ۔ واللہ اعلم وعلمہ ، اعظم۔ اور کسی سے یہ کمال ثابت نہیں۔ ہاں ! آخرت میں اور جنت میں جنتیوں کو حسب مراتب نصیب ہونا ثابت ہے۔ یہاں یہ بات تھی بنی اسرائیل کی ، کہنے لگے واذقلتم یا موسیٰ لن نومن لک حتی نری اللہ جھرۃ فاخذتکم الصاعقۃ وانتم تنظرون۔ جب تم نے حد سے بڑھ کر اور بحیثیت سے بڑھ کر مطالبہ کیا تو تم پر بجلی گری اور دیکھتے ہی دیکھتے تم فنا ہوگئے۔ ہوسکتا ہے بجلی ہی ہو یا تجلیات پر بھی کی کوئی بھوک جو یہ برداشت نہ کرسکتے تھے اور نہ کرسکے چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی کہ اللہ کے قتل کی تہمت سے مجھے ۔۔۔ پھر سے زندگی دے اور یہ چونکہ قضائے معلق تھی جو بدل سکتی ہے یعنی ایک فعل کے نتیجہ میں ان پر مسلط کی گئی ، عمر طبعی پوری نہ ہوئی تھی جس کے بعد اٹھائیں تو پھر تمہیں زندہ کردیا گیا۔ کیا کیا کمالات تھے اور کیسے کیسے انعامات تھے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے طفیل تمہیں نصیب ہوئے۔ ثم بعثنکم من بعد مولنکم لعلکم تشکرون۔ تمہیں ایسا موقع نصیب ہوا کہ تم شکر کرتے ، اللہ کے احسانات یاد کرکے اس کے سامنے سرجھکا دیتے۔ مگر ہوا کیا کہ تمہیں حکم بلا لو اور تم عمالقعہ سے ، جو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے چلے جانے کے بعد اس ملک پر قابض ہوگئے تھے اپنا وطن اصلی واپس لے لو ، اور اور جہاد کا ثواب بھی لوٹو۔ یہ حضرات چلے مگر جب راہ میں عمالقہ کی قوت کا حال معلوم ہوا تو دل چھوڑ بیٹھے کہ موسیٰ ! تو اور تیرے خدا لڑے ہم سے یہ مصیبت مول نہیں لی جاسکتی۔ چناچہ سب نے واپسی کی ٹھانی۔ اب جناب سارا دن چلتے اور رات ٹھہرتے مگر چالیس سال چلتے رہے اور رہے وہیں کے وہیں۔ ایک بارہ کو اس کی وادی میں پھنس کر رہ گئے جو عصر اور شام کے درمیان میں تھی۔ نہ وہاں پانی نہ خوراک ، نہ سایہ نہ مکان ، نہ لباس نہ دکان ، لگے خراب ہونے۔ پھر التجا کی موسیٰ ! ہم ہلاک ہوجائیں گے۔ آپ نے پھر دعا کی تو اللہ نے تمام آسانیاں بخش دیں مگر چالیس برس تک اس میں بھٹکنا پڑا کسی طرف نکل نہ سکے۔ وضظلنا علیکم الدام وازلنا علیکم المن والسلویٰ کلوا من طیبت مارزقنکم وما ظلمونا ولکن کانوا العباد ویظلمون یہ انہیں احسانات کو یاد فرمایا جارہا ہے کہ دھوپ نکلتی تو تم پر بادل سایہ کرلیتے اور کھانے پینے کے فکر سے تمہیں یوں آزاد کیا کہ من وسلویٰ عطا فرمایا ” من “ ایک تر نجبین سی تھی جو رات کو جھاڑیوں پر خوب اکٹھی ہوتی اور صبح یہ حاصل کرلیتے۔ اور ” سلویٰ “ بٹیریں تھیں۔ جن کے ڈر آجاتے اور ان سے بھاگتے نہ تھے یہ پکڑ کر ذبح کرتے اور کھاتے ۔ حتیٰ کہ کپڑے نہ میلے ہوتے اور نہ پھٹتے بچوں کو جو کپڑے پہنادیئے وہ جسم کے ساتھ ساتھ بڑھتے رہتے۔ رات کی تاریکی کا تدارک ایک نوری روشنی کردیا جاتا۔ غرضیکہ ان کی تمام تر ضروریات کو خرق عادت کے طور پر پورا کردیا گیا۔ اور زندگی کی ضرورتوں سے بےنیاز ہوگئے مگر باوجود ان عنایات کے اللہ کی اطاعت پر قائم نہ رہ سکے اور لگے نافرمانیاں کرنے ان کی یہ ناشکری اللہ کا تو کچھ بگاڑ نہ سکی۔ مگر خود ان کے حق میں بہت بڑی مصیبت ہوئی کہ زوال نعمت کا سبب بن گئی جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ واذقلنا ادخلوا……………وسنزید المحسنین۔ پھر وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تمہیں ایک شہر پر غلبہ دیا اور حکم دیا کہ اس شہر میں داخل ہوجائو اور جو کچھ اس میں ہے تم پر حلال ہے مزے سے کھائو لیکن ایک بات یاد رہے کہ داخلے کے وقت سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا کہ تمہارا عجز اور ہماری عظمت ظاہر ہو نیز شکر ادا کرنے کا باعث ہو اور زبان سے حطۃ یعنی گزشتہ غلطیوں کی معافی مانگتے ہوئے بھی تو ہماری عنایات دیکھو کہ اتنے سے معمولی کام پر پچھلی تمام خطائوں کی معافی کا وعدہ فرمایا۔ بلکہ فرمایا وسنزید المحسنین ، جن میں جتنا خلوص یا خشوع زیادہ ہوگا ان کو معافی کے ساتھ انعامات اور قرب الٰہی نصیب ہوگا۔ احسان نام ہے خلوص قلب کا اور یہ کیفیت ہر دل کی جدا ہوتی ہے۔ تو جس قدر کسی کے دل میں رجوع الی اللہ کی کیفیت بڑھتی جائے گی اس پر دو عالم میں انعامات بھی بڑھتے جائیں گے مگر یہ تم تھے کہ اتنی سی بات پر بھی عمل نہ کرسکے اور تم میں سے بدکاروں نے الفاظ بدل دیئے۔ فبدل الذین ظلموا……………بما کانوا یفقون۔ یہ لوگ جب داخل ہوئے تو نہ ہی سجدہ کیا اور نہ ہی الفاظ درست کہے بلکہ حنطلۃ کہنے لگے جس کا معنی روٹی ہے کہ بھئی ! ہم تو بھوک کے ستائے ہوئے لوگ ہیں ہمیں تو کھانا درکار ہے۔ لہٰذا اس فعل اور قول کو بدل دینے کی وجہ سے ان بدکاروں پر آسمان سے آفت نازل کی گئی۔ کہ ان کی بدکاری کا ثمر تھا۔ ایک ظلم تو سجدہ نہ کرنے کا تھا دوسرا یہ کہ الفاظ ہی بدل دیئے جو مامور بہ تھے یہاں تو معنی بھی بدل گئے اگر معانی محفوظ رکھتے ہوئے صرف الفاظ بدل دیئے جائیں تو بھی درست نہ ہوگا خصوصاً عبادات میں مثلاً اذان یا صلوٰۃ میں ثناء اور التحیات وغیرہ کہ ان کی جگہ معانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے بھی الفاظ بدل دینا جائز نہیں اور نہ صلوٰۃ ہوگی (معارف القرآن) ہاں احادیث میں روایت بالمعنی کا جواز ملتا ہے قرصی نے امام مالک ، شافعی اور ابوحنیفہ رحمہم اللہ سے نقل کیا ہے مگر وہ بھی اس شخص کے لئے جو عربی زبان میں ماہر ہو اور مواقع خطاب اور ماحول کے لحاظ سے معانی یا مضمون کو سمجھ سکے ہر کس کے لئے نہیں اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ دنیاوی نقصان میں بھی مبتلا ہوگا۔ اس طرح صوفی کے لئے ان الفاظ ووظائف میں جو شیخ نے تعلیم فرماتے ہوں تبدیلی جائز نہیں ورنہ اس کا دینی نقصان بھی ہوگا اور دنیاوی مصائب بھی آئیں گے جس طرح ان نافرمانوں پر طاعون مسلط کردی گئی جو بطور سزا کے تھی اور اس کا سبب ان کی نافرمانی تھا بما اسمانوا یفسقون۔ کہ وہ بداعمال تھے۔ مصائب کا فلسفہ : بدکاروں پر مصیبت بطور سزا آتی ہے اور جو مصائب نیک بندوں پر آتے ہیں وہ بطور انعام ہوتے ہیں کہ بعض مقامات قرب کے حصول کے لئے ضروری ہوتے ہیں جیسے شہادت کے لئے قتل ہونا راہ حق میں ضروری ہے اور بعض اوقات منصب ومقام کے لحاظ سے عبادات میں کمی رہ جاتی ہے جسے تکالیف دنیاوی پورا کرتی ہیں۔ اور کبھی مجاہدہ کرانا مقصود ہوتا ہے تاکہ اس پر انعام مرتب ہو کہ یہ مجاہدہ اضطراری ہے جیسے آگے اسی قصہ میں آرہا ہے اور وہ وقت بھی یاد کرو۔ جب وادی تیہ میں تم کو پیاس نے بےحال کردیا اور تمہارے لئے موسیٰ (علیہ السلام) نے پانی کی دعا کی۔
Top