Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 40
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ١ۚ وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
يَا بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ : اے اولاد یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تمہیں وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِعَهْدِیْ : میرا وعدہ أُوْفِ : میں پورا کروں گا بِعَهْدِكُمْ : تمہارا وعدہ وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : ڈرو
اے اولاد یعقوب (علیہ السلام) ! جو احسانات میں نے تم پر کیے وہ یاد کرو اور جو وعدہ تم نے مجھ سے کیا وہ پورا کرو میں نے جو وعدہ تم سے کیا ہے وہ پورا کروں گا اور صرف مجھ سے ہی ڈرا کرو
آیات 40- 46 اسرارو معارف جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ یہ سورة بلحاظ نزول مدنی ہے اور مدینہ منورہ میں یہود کا کافی تسلط تھا۔ قلعے اور جاگیریں بھی تھیں کاروباری لحاظ سے بھی بہت بڑھے ہوئے تھے اور ان میں بڑے بڑے علماء بھی تھے نیز وہ اپنے آسمانی مذہب پر ہونے اور حق پر ہونے کے مدعی بھی تھے۔ لہٰذا اللہ کریم نے سب سے پہلے مومن کے اوصاف ، پھر کافر اور منافق کے حالات بیان فرمائے پھر عمومی دعوت تمام انسانیت کو دی اور آپ روئے سخن براہ راست یہود کی طرف ہے کہ اسے اولاد یعقوب (علیہ السلام) کہتے ہیں اسرائیل حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب ہے۔ ان سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک تمام نبی بنی اسرائیل میں ہوئے ہیں۔ باوجود دوسری نعمتوں کے یہی ایک نعمت کس قدر عظیم ہے کہ سلسلہ نبوت صدیوں تک اس قوم میں جاری رہا جس کے طفیل انہیں دنیا کی عزت حتیٰ کہ حکومت تک نصیب رہی اور اخروی کامیابی بھی ، مگر ایک بات جو ہر نبی نے اپنی امت سے ارشاد فرمائی اور بنی اسرائیل میں اول سے آخر تک سب انبیاء نے بتلائی نیز کتب سماوی نے اس کی اطلاع دی نہ صرف اطلاع بلکہ اس پر ایمان لانا اور اس کا اقرار بھی ارکان دین میں سے تھا اور اس کا منکر کافر۔ وہ یہ تھی کہ حضرت محمد ﷺ خاتم الانبیاء مبعوث ہوں گے جب قبل بعثت ان کا ماننا ارکان دین میں سے ہوا تو پھر بعثت پر ایمان لانا تو دین کی بنیاد ٹھہرا۔ لہٰذا تمہیں نہ صرف اس پر ایمان لانا ہوگا بلکہ ہر طرح سے ان کی نصرت کرنی ہوگی اور یہ لوگ قبل بعثت تک تو آپ ﷺ کی تشریف آوری کے منتظر رہے مگر بعثت پر انکار کر بیٹھے تو فرمایا ، اوفوا بعھدی ، یعنی جو وعدہ نسلاً بعد نسل میرے ساتھ کرتے چلے آئے ہو اب پورا کرو۔ اس پر قائم رہو تو میں بھی اپنا وعدہ کہ تم دنیا وآخرت میں عزت پائو گے پورا کروں۔ مگر یہ صرف اس صورت میں ہوسکے گا تم مجھ سے ہی ڈرو۔ اگر تمہاری امیدیں میے سوا ، دوسرے سے وابستہ ہوں گی اور اس کی ناراضگی کا اندیشہ رکھو گے تو پھر اسی کی پسند پر بھی چلو گے۔ وامنوابما انزلت مصدقا قالما معکم ولا تکونوا اول کافر بہ ولا تشتروا بایتی ثمنا قلیلا وایای فاتقون۔ اور اس حقیقت پر ایمان لائو جو میں نے نازل فرمائی ہے اور جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرتی ہے نہ صرف اس معنی سے کہ قرآن تو رات وانجیل کو منزل من اللہ بتاتا ہے بلکہ عملاً بھی ذات نبوی علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام اور قرآن کریم اس پیشگوئی کو جو پہلی کتابوں میں آپ ﷺ کے بارے میں تھی حرف بحرف پورا کرکے ان کی تصدیق فرماتے ہیں۔ لہٰذا تمہیں زیب نہیں دیتا کہ تم ہی پہلے انکار کرنے والے بن جائو ، اور دوسرے لوگ جو تمہیں عالم جانتے ہیں تمہاری وجہ سے انکار کرتے چلے جائیں تو اس طرح تم نہ صرف اپنے کفر بلکہ دوسروں کے کفر کے بھی ذمہ دار قرار پائے گے۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ نیکی کی ترغیب دینے الا بھی اسی قدر ثواب پاتا ہے جتنا اس پر عمل کرنے والا ، اور بدی کی دعوت دینے والا یا برائی ایجاد کرنے والا اسی قدر گناہ پاتا ہے جس قدر لوگ اس پر عمل کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں صوفیوں کے لئے بہت باریک بات ہے کہ ان کی بعض حرکات کی وجہ سے لوگ اہل اللہ سے بدظن ہوجاتے ہیں جس کے لئے یہ ذمہ دار ہوں گے اور بعض عادات جو خلاف سنت ہوتی ہیں لوگ اپنا کر ان پر ہمیشہ بوجھ لادتے رہتے ہیں اس لئے صوفی کو چاہیے کہ عادات تک کی نگہبانی کرے کہ یہ مقتدار ہوتے ہیں آیات کے بدلے دنیا حاصل کرنے میں نہ لگ جائو جو ایک قلیل معاوضہ ہے اور بہت تھوڑی قیمت ہے کہ ساری دنیا بھی بدلے میں ملے بھی کم ہے چہ جائیکہ تم حقیر سی رقم یاوقتی اقتدار کی ہوس میں تورات کی آیات بدل دیتے ہو۔ کچھ تو اللہ کا خوف کرو۔ یعنی اقتدار کے جانے کا غم نہ کرو ، دولت نہ ملنے کا اندیشہ نہ رکھو۔ بلکہ میری ناراضگی سے ڈرو۔ یہاں معارف قرآن میں اس موضوع پر بحث ہے کہ کیا ائمہ مساجد کو تنخواہ لینی جائز ہے ؟ یا ختم قرآن یا تعلیم قرآن پہ اجرت کیسی ہے اگر چاہیں تو دیکھ لیں مگر یہ آیت اس پر بات نہیں کرتی بلکہ یہ فتویٰ فروشوں کو متنبہ کرتی ہے جو روپے لے کر یا اقتدار قائم رکھنے کو یا کسی بھی دنیاوی لالچ میں آکر غلط فتوے دے دیتے ہیں کہ یہ براہ راست احکام باری کی توہین وتذلیل ہے کہ علمائے یہود ایسا ہی کرتے تھے۔ حالانکہ جانتے تھے کہ حضور ﷺ برحق نبی ہیں مگر آپ ﷺ کے خلاف فتویٰ دیتے تھے۔ لہٰذا فرمایا کہ اگر تم ایماندار ہو جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے تو پھر صرف مجھ سے ڈرو ، اقتدار اور دنیا کے جانے سے لرزاں وترساں کیوں ہو ؟ ولا تلبسو الحق بالباطل وتکتموا الحق وانتم تعلمون۔ سچ کو جھوٹ کے ساتھ اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور سچائی کو نہ چھپائو کہ تم خوب جانتے ہو۔ کیونکہ علمائے یہودونصاریٰ تو نہ صرف حضور اکرم ﷺ بلکہ صحابہ کرام ؓ تک کے اوصاف حمیدہ سے اس قدر واقف تھے کہ صرف حضرت فاروق اعظم ؓ کو دیکھ کر بیت المقدس سپرد کردیا تھا کہ ہماری کتابوں کی پیشگوئی کے مطابق یہ وہی شخص ہے جس کے ہاتھ پر فتح مقدر ہے۔ واقیموالصلوٰۃ واتوالزکوٰۃ والرکعوامع الراکعین۔ حق پر قائم رہنے کے لئے صلوٰۃ قائم کرو اور مال میں سے فرض صدقات ادا کرو ، نیز بدنی اور مالی عبادات پوری محنت سے کرو کہ یہی تقاضائے ایمان ہے اقامت صرف پڑھنے کو نہیں کہا جاتا بلکہ صلوٰۃ کی جملہ شرائط جسم اور لباس کی طہارت ، وضو ، وقت ، باجماعت اور پھر ارکان صلوٰۃ کا پورا پورا خیال رکھنا۔ قیام ، رکوع ، سجود ، جلسہ وغیرہ تمام امور کی نگہداشت کرنا بلکہ اس سے بڑھ کر تلقین اور تبلیغ بھی اقامت صلوٰۃ کا شعبہ ہے اور زکوٰۃ ادا کرنے والے بنو نیز رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ۔ یہاں سے اکثر حضرات وجوب جماعت کو ثابت کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ بغیر عذر شرعی ، مرد کے فرائض پنجگانہ گھر میں ادا ہی نہیں ہوتے اور سستی وتساہل عذر شرعی میں داخل نہیں۔ اس کے علاوہ حدیث شریف میں جو تاکید ہے وہ بھی یہی ظاہر کرتی ہے کہ جہاں تک اذان کی آواز پہنچتی ہے لوگوں کو نماز کے لئے حاضر ہونا چاہیے اس میں لائوڈ سپیکر شرط نہیں بلکہ متوسط آدمی کی آواز۔ حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ نے ایک نابینا صحابی ؓ کو بھی رخصت نہ فرمائی تھی ، یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا آپس میں متحد ہونا بھی ضروری ہے اور یہ روش کہ سجدہ والا دوسری مساجد والوں پر طعن کرنے ناجائز اور سخت نامناسب ہے ، عجب حیرت ہے کہ لوگوں کو کافر بھی مساجد میں ہی نظر آتے ہیں کبھی جوا خانوں میں جانے والوں اور فحاشی کے اڈوں پر راتیں بسر کرنے والوں سے کچھ نہیں کہا جاتا حالانکہ یہ امور بھی گناہ کبیرہ ہیں کفر نہیں۔ علمائے حق نے سچے مسلمان کے اوصاف میں یہ وصف بھی نقل کیا ہے کہ اگر وہ دین کے کام میں مخلص ہے تو دوسروے کیا سی کام کو کرنے سے خوش ہوگا ، اور نہ حسد کرے گا جو آج کل عام ہے۔ اتامرون الناس بالبر وتنسون انفسکم وانتم تتلون الکتاب افلا تعقلون۔ اللہ کے بندو ! لوگوں کو تو بھلائی کا حکم کرتے ہو ، نیک کام کرنے کی تلقین کرتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو۔ علمائے یہود اپنے مسلمان ہوجانے والے رشتہ داروں سے تو یہ کہتے تھے کہ یہ حق ہے اور اس پر جمے رہو مگر خود اس طرف نہیں آتے تھے نیز یہ ان لوگوں کو بھی متنبہ فرمایا جارہا ہے جو وعظ تو خوب کہتے ہیں مگر عملی زندگی درست نہیں رکھتے لوگوں کو جن باتوں سے منع کرتے ہیں خود انہی کے مرتکب ہوتے ہیں اور پھر اس پر طرہ یہ کہ عوام تو محض سنی سنائی کی حد تک جان سکتے ہیں اور تم خود کتاب کے جاننے والے یعنی عالم ہو کیا تم اتنی عقل بھی نہیں رکھتے۔ تمام نیکیوں کی بنیاد عقیدہ ہے جو شخص بھی عقائد کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور ان کی اصلاح نہیں کرپاتا وہ مزید نیکی کیا خاک کرے گا۔ جیسے علمائے یہود باقی اچھے کام کرنے کو تو کہتے تھے مگر عقیدہ جو ضروری اور بنیادی چیز تھا یعنی نبی اکرم ﷺ پر ایمان لانا۔ نہ اس کی تلقین کرتے نہ خود لاتے۔ تو یہ سب کیوں ہے ؟ لذت طلبی اور عزت واقتدار کی خواہش ، دولت کی طلب کہ شاید اس طرح یہ چیزیں نصیب ہوں اور زندگی آرام سے گزرے۔ فرمایا ، یہ انداز فکر ہی خلاف حقیقت ہے کہ یہ دنیا مصیبتوں کا گھر ہے جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ خواہش تو انسان کرسکتا ہے مگر اس کی تکمیل اس کے بس میں نہیں اور یہ خواہشات زندگی کو اجیرن بنادیتی ہیں اس کے لئے نہ دولت کے پیچھے دوڑو نہ اقتدار اور پیشوا بننے کی ہوس میں حق سے گریز کرو۔ بلکہ واستعینوا بالصبروالصلوٰۃ ، صبر اور صلوٰۃ ۔ یعنی عبادت اور دعا سے مدد حاصل کرو۔ صبر کیا ہے ؟ اللہ کی اطاعت پر اپنے آپ کو کاربند کرلینا اور عدم اطاعت سے نفس کو روک لینا۔ اصول تجویز اور اصول تفویض : یعنی تجویز کرنا چھوڑو ، طریق تفویض اختیار کرو ، وہ یہ کہ سب سے پہلے تو خلاف شرع اور ممنوعہ امور سے رک جائو۔ بہت بڑی مصیبت سر سے ٹل جائے گی پھر جو کام مباح ہیں ان میں اپنی کوشش تو ضرور کرو ، اور امکانی حد تک محنت کرو مگر نتائج کی امید اللہ سے رکھو ، محنت بھی کرو اور دعا بھی ، مگر نہ محنت پر یہ حکم لگادو کہ اس کا نتیجہ یقینا وہی ہوگا جو میں چاہتا ہوں کہ یہ تمہارے بس میں نہیں اور نہ صرف محنت پہ بس کرو بلکہ دعا بھی کرو اور دعا کو بھی درخواست جانو حکم نہ سمجھو کہ اللہ پر نافذ ہوجائے گا اب اگر نتیجہ دنیا میں بھی تمہاری امید کے مطابق نکلا تو کیا کہنے کہ ثواب آخرت بھی بلاوجہ اتباع شریعت کے اور اللہ سے شرف ہم کلامی بذریعہ دعا نصیب ہو اور دل کی مراد بھی بر آتی لیکن اگر نتیجہ دنیا میں تمہاری امید کے برعکس آیا تو پہلے دو لطف تو مل ہی گئے جو اصل مقصود ہیں اور کیا خبر کہ تمہاری توقع اور خواہش کے مقابلے میں اس سے بہتر متبادل چیز بخش دے اور یقینا ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ طریقہ دنیا میں بھی لذت واکرام حاصل کرنے کا ہے نہ چوری ، نہ ثبوت ، نہ کتمان حق یہ راستہ مصائب کو تجھ سے دور کرے گا یہ نسخہ ذرا مشکل ہے بلکہ بہت مشکل ہے وانھا کبیرۃ یہ بہت مشکل کام ہے الا علی الخاشعین الذین یظنون انھر حلاقواربھم وانھر الیہ راجعون ، مگر ان لوگوں کے لئے مشکل نہیں جن کے قلوب میں خشوع موجود ہے کہ خشوع فعل ہی قلب کا ہے اور یہ اس کیفیت کا نام ہے جو عظمت باری اور ہیبت الٰہی کے سامنے اپنی بےمائیگی اور بےبسی کا اندازہ کرکے پیدا ہوتی ہے اللہ کی وہ عظمت کہ ساری کائنات کا خالق مالک ، رازق اور پروردگار ہے پھر اس وسیع کائنات میں خود یہ زمین ایک ذرہ ہے اس پر نہ جانے کس قدر اقسام ذوی الارواح کی ہیں جن میں سے پوری انسانیت ایک اکائی کا درجہ رکھتی ہے اس اکائی میں ایک آدمی کیا ہے ذرا عشاریہ لگا کر صفر لگانا شروع کردیں ، دیکھیں زندگی میں ایک لکھنے کی نوبت آتی ہے یا پوری زندگی صفر صفر ہی تمام ہوتی ہے۔ اس طرح عظمت باری کا شعور جو ایک کیفیت ہے اور قلب پر وارد ہوتی ہے اسی کو خشوع کا نام دیا گیا ہے۔ اور یہ قلب ہی ہے جو یقین عطاء کرتا ہے کہ مجھے اپنے پروردگار سے ملنا ہے اگر یہ ملاقات اور لوٹ کر جانا نہ ہوتا تو پوری تخلیق یہ عبث ہوتی کہ بےنتیجہ کام عبث ہوا کرتا ہے اور فضول کام کرنے والے کو رب نہیں کہا جاتا۔ یہ بھی شان ربوبیت کے لئے ضروری ہے کہ قیامت قائم ہو ، نتائج سامنے آئیں اور نیک وبداثرات مرتب کئے جائیں اسی وجہ سے یہاں ملقواربھم فرمایا گیا ہے کہ یہ تمام امور صفت ربوبیت کا اظہار ہیں ، لہٰذا کیفیات کو محسوس کرنے کے لئے زندگی شرط ہے۔ مُردوں کو گرمی ، سردی ، رنج اور خوشی سے کیا سروکار۔ تو دل بھی جب ہی محسوس کرے گا جب زندہ ہوگا۔ یہ دل ہی کی بےحسی ہے کہ عبادات متروک ہیں۔ اگر مردہ نہیں تو بےہوش ضرور ہے اور اکثر یہی بےہوشی موت پر منتج ہوتی ہے اور لوگ نئے اور باطل مذاہب کے جال میں پھنس جاتے ہیں اس لئے کسی ایسے معاج کی ضرورت ہے جو اس فن میں مہارت رکھتا ہو ، برکات نبوی ﷺ سے دل روشن رکھتا ہو اور دوسرے قلوب تک یہ روشنی پہنچائے۔ آپ ﷺ سے دوسری طرح کے فیوض وبرکات جاری ہوئے ایک ارشادات رسول ﷺ دوم مجلس رسول ﷺ کی برکات ، ارشادات سے بھی وہی مستفید ہوئے جنہوں نے فیض صحبت پایا۔ ورن محض سننے کی حد تک تو کافر بھی شریک ہیں ، سو آج بھی اسی طرح فیض صحبت کی ضرورت ہے ورنہ محض سنی سنائی سے بات بننے سے رہی جس طرح اقوال و ارشادات متفق ہوتے ہیں اسی طرح نسلاً بعد نسل فیض صحبت بھی سینوں کو منور کرتا چلا آتا ہے۔ ذرا ساسل اولیاء اللہ کو دیکھو ! سند حدیث کی طرح موجود ہیں ان میں کوئی شخص جو واقعی سینہ منور رکھتا ہو اور دل کو جگا سکتا ہو مل جائے تو بات بنے خشوع بھی نصیب ہو۔ القائے الٰہی پہ یقین حاصل ہو اور انسانی افعال کے نتائج اخرویہ پہ نگاہ رکھنے ک یاہلیت پالے۔ ورنہ دنیا اور آرام ؎ ایں خیال است ومحال است وجنوں عبادات میں نیت کا مقام : بغیر خشوع اکثر نمازیں بھی گستاخی کے ضمن میں آتی ہیں یعنی بندہ رب سے ہم کلام ہو اور متوجہ دوسری طرف ہو۔ یہ بہت بڑی گستاخی ہے مگر بایں ہمہ بندہ ہو اور نماز ادا ہی نہ کرے فرائض کو فراموش ہی کردے یہ گستاخی کی حد سے بڑھ کر ہے اور ایک طرح سے ظلم اپنی تباہی کا سامان ہے نہ پڑھنے سے تو بغیر خشوع پڑھنا بہتر۔ مگر اس میں بھی یہ کوشش جاری رکھے کہ اپنے آپ کو اپنے باطن کو اللہ کی طرف متوجہ رکھے۔ اللہ بڑا کریم ہے اس کی ذات سے امید قوی رکھے کہ قبول فرمائے گا اور اگر صحبت کامل نصیب ہو تو پھر دل کا نور عرش کی بلندیوں کو چھوتا ہے جو عبادت کے وقت ایک خاص کیفیت پیدا کرلیتا ہے اگر ذرا غفلت آئے تو اس میں کمی آتی ہے انسان فوراً سنبھل جاتا ہے بلکہ اس سے کہیں آگے چلا جاتا ہے۔ بندہ کا ذاتی مشاہد ہے کہ ایک دفعہ پشاور جاتے ہوئے راستے میں عصر کا وقت ہوا ساتھ ہی ایک مولانا بھی تھے اور ایک درویش صفت دوست بھی میں نے اپنے گلے سے پستول اتار کر مولاناکو دے دیا تھا کہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے دقت پیدا کرتا ہے فرض ادا کرتے وقت بھی اس کے گلے میں تھا۔ انہوں نے امامت کی اور ہم نے صلوٰۃ ادا کی تو دوسرے ساتھی کہنے لگے : ” مولانا ! آپ نے ہم سے کیا زائد عمل کیا ہے ؟ “ پوچھا ” کیوں ؟ “ کہنے لگے : ” فرشتہ ثواب لکھ رہا تھا۔ ہماری نسبت آپ کا ثواب زیادہ لکھا گیا میں نے اس سے پوچھا ایسا کیوں ہے تو کہتا ہے کہ ان کی نیت ایک اور کام بھی کرگئی۔ اب آپ بتادیں کہ وہ زائد کام آپ نے کیا کیا ہے ؟ “ مولوی صاحب کہنے لگے ، ” یار ! میرے گلے میں پستول تھا سوچا اسلحہ لگا کر حضور ﷺ نے بھی صلوٰۃ ادا کی ہے چلو۔ خواہ پستول کسی کا ہے مگر مسلح ہو کر پڑھنے کی سنت تو ادا ہوجائے گی “۔ سبحان اللہ ! اتنی سی سوچ کا فرق کس قدر ثواب کے حصول کا باعث بن گیا۔ کاش ! مسلمان تجھے سنت کی قدر ہوتی ۔ اللہ تمام مسلمانوں کی سنت پہ کار بند فرمادے۔ خشوع کے حصول کے لئے توبہ قلبی کی ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی مرحوم نے حصول تصوف یا سلوک کو ہر مرد و زن کے واجب لکھا ہے کہ بغیر اس کی عبادت محض ایک رسمی کاروائی رہ جاتی ہیں۔
Top