Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 40
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ١ۚ وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
يَا بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ
: اے اولاد یعقوب
اذْكُرُوْا
: تم یاد کرو
نِعْمَتِيَ
: میری نعمت
الَّتِیْ
: جو
اَنْعَمْتُ
: میں نے بخشی
عَلَيْكُمْ
: تمہیں
وَاَوْفُوْا
: اور پورا کرو
بِعَهْدِیْ
: میرا وعدہ
أُوْفِ
: میں پورا کروں گا
بِعَهْدِكُمْ
: تمہارا وعدہ
وَاِيَّايَ
: اور مجھ ہی سے
فَارْهَبُوْنِ
: ڈرو
اے اولاد یعقوب (علیہ السلام) ! جو احسانات میں نے تم پر کیے وہ یاد کرو اور جو وعدہ تم نے مجھ سے کیا وہ پورا کرو میں نے جو وعدہ تم سے کیا ہے وہ پورا کروں گا اور صرف مجھ سے ہی ڈرا کرو
آیات 40- 46 اسرارو معارف جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ یہ سورة بلحاظ نزول مدنی ہے اور مدینہ منورہ میں یہود کا کافی تسلط تھا۔ قلعے اور جاگیریں بھی تھیں کاروباری لحاظ سے بھی بہت بڑھے ہوئے تھے اور ان میں بڑے بڑے علماء بھی تھے نیز وہ اپنے آسمانی مذہب پر ہونے اور حق پر ہونے کے مدعی بھی تھے۔ لہٰذا اللہ کریم نے سب سے پہلے مومن کے اوصاف ، پھر کافر اور منافق کے حالات بیان فرمائے پھر عمومی دعوت تمام انسانیت کو دی اور آپ روئے سخن براہ راست یہود کی طرف ہے کہ اسے اولاد یعقوب (علیہ السلام) کہتے ہیں اسرائیل حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب ہے۔ ان سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک تمام نبی بنی اسرائیل میں ہوئے ہیں۔ باوجود دوسری نعمتوں کے یہی ایک نعمت کس قدر عظیم ہے کہ سلسلہ نبوت صدیوں تک اس قوم میں جاری رہا جس کے طفیل انہیں دنیا کی عزت حتیٰ کہ حکومت تک نصیب رہی اور اخروی کامیابی بھی ، مگر ایک بات جو ہر نبی نے اپنی امت سے ارشاد فرمائی اور بنی اسرائیل میں اول سے آخر تک سب انبیاء نے بتلائی نیز کتب سماوی نے اس کی اطلاع دی نہ صرف اطلاع بلکہ اس پر ایمان لانا اور اس کا اقرار بھی ارکان دین میں سے تھا اور اس کا منکر کافر۔ وہ یہ تھی کہ حضرت محمد ﷺ خاتم الانبیاء مبعوث ہوں گے جب قبل بعثت ان کا ماننا ارکان دین میں سے ہوا تو پھر بعثت پر ایمان لانا تو دین کی بنیاد ٹھہرا۔ لہٰذا تمہیں نہ صرف اس پر ایمان لانا ہوگا بلکہ ہر طرح سے ان کی نصرت کرنی ہوگی اور یہ لوگ قبل بعثت تک تو آپ ﷺ کی تشریف آوری کے منتظر رہے مگر بعثت پر انکار کر بیٹھے تو فرمایا ، اوفوا بعھدی ، یعنی جو وعدہ نسلاً بعد نسل میرے ساتھ کرتے چلے آئے ہو اب پورا کرو۔ اس پر قائم رہو تو میں بھی اپنا وعدہ کہ تم دنیا وآخرت میں عزت پائو گے پورا کروں۔ مگر یہ صرف اس صورت میں ہوسکے گا تم مجھ سے ہی ڈرو۔ اگر تمہاری امیدیں میے سوا ، دوسرے سے وابستہ ہوں گی اور اس کی ناراضگی کا اندیشہ رکھو گے تو پھر اسی کی پسند پر بھی چلو گے۔ وامنوابما انزلت مصدقا قالما معکم ولا تکونوا اول کافر بہ ولا تشتروا بایتی ثمنا قلیلا وایای فاتقون۔ اور اس حقیقت پر ایمان لائو جو میں نے نازل فرمائی ہے اور جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرتی ہے نہ صرف اس معنی سے کہ قرآن تو رات وانجیل کو منزل من اللہ بتاتا ہے بلکہ عملاً بھی ذات نبوی علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام اور قرآن کریم اس پیشگوئی کو جو پہلی کتابوں میں آپ ﷺ کے بارے میں تھی حرف بحرف پورا کرکے ان کی تصدیق فرماتے ہیں۔ لہٰذا تمہیں زیب نہیں دیتا کہ تم ہی پہلے انکار کرنے والے بن جائو ، اور دوسرے لوگ جو تمہیں عالم جانتے ہیں تمہاری وجہ سے انکار کرتے چلے جائیں تو اس طرح تم نہ صرف اپنے کفر بلکہ دوسروں کے کفر کے بھی ذمہ دار قرار پائے گے۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ نیکی کی ترغیب دینے الا بھی اسی قدر ثواب پاتا ہے جتنا اس پر عمل کرنے والا ، اور بدی کی دعوت دینے والا یا برائی ایجاد کرنے والا اسی قدر گناہ پاتا ہے جس قدر لوگ اس پر عمل کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں صوفیوں کے لئے بہت باریک بات ہے کہ ان کی بعض حرکات کی وجہ سے لوگ اہل اللہ سے بدظن ہوجاتے ہیں جس کے لئے یہ ذمہ دار ہوں گے اور بعض عادات جو خلاف سنت ہوتی ہیں لوگ اپنا کر ان پر ہمیشہ بوجھ لادتے رہتے ہیں اس لئے صوفی کو چاہیے کہ عادات تک کی نگہبانی کرے کہ یہ مقتدار ہوتے ہیں آیات کے بدلے دنیا حاصل کرنے میں نہ لگ جائو جو ایک قلیل معاوضہ ہے اور بہت تھوڑی قیمت ہے کہ ساری دنیا بھی بدلے میں ملے بھی کم ہے چہ جائیکہ تم حقیر سی رقم یاوقتی اقتدار کی ہوس میں تورات کی آیات بدل دیتے ہو۔ کچھ تو اللہ کا خوف کرو۔ یعنی اقتدار کے جانے کا غم نہ کرو ، دولت نہ ملنے کا اندیشہ نہ رکھو۔ بلکہ میری ناراضگی سے ڈرو۔ یہاں معارف قرآن میں اس موضوع پر بحث ہے کہ کیا ائمہ مساجد کو تنخواہ لینی جائز ہے ؟ یا ختم قرآن یا تعلیم قرآن پہ اجرت کیسی ہے اگر چاہیں تو دیکھ لیں مگر یہ آیت اس پر بات نہیں کرتی بلکہ یہ فتویٰ فروشوں کو متنبہ کرتی ہے جو روپے لے کر یا اقتدار قائم رکھنے کو یا کسی بھی دنیاوی لالچ میں آکر غلط فتوے دے دیتے ہیں کہ یہ براہ راست احکام باری کی توہین وتذلیل ہے کہ علمائے یہود ایسا ہی کرتے تھے۔ حالانکہ جانتے تھے کہ حضور ﷺ برحق نبی ہیں مگر آپ ﷺ کے خلاف فتویٰ دیتے تھے۔ لہٰذا فرمایا کہ اگر تم ایماندار ہو جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے تو پھر صرف مجھ سے ڈرو ، اقتدار اور دنیا کے جانے سے لرزاں وترساں کیوں ہو ؟ ولا تلبسو الحق بالباطل وتکتموا الحق وانتم تعلمون۔ سچ کو جھوٹ کے ساتھ اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور سچائی کو نہ چھپائو کہ تم خوب جانتے ہو۔ کیونکہ علمائے یہودونصاریٰ تو نہ صرف حضور اکرم ﷺ بلکہ صحابہ کرام ؓ تک کے اوصاف حمیدہ سے اس قدر واقف تھے کہ صرف حضرت فاروق اعظم ؓ کو دیکھ کر بیت المقدس سپرد کردیا تھا کہ ہماری کتابوں کی پیشگوئی کے مطابق یہ وہی شخص ہے جس کے ہاتھ پر فتح مقدر ہے۔ واقیموالصلوٰۃ واتوالزکوٰۃ والرکعوامع الراکعین۔ حق پر قائم رہنے کے لئے صلوٰۃ قائم کرو اور مال میں سے فرض صدقات ادا کرو ، نیز بدنی اور مالی عبادات پوری محنت سے کرو کہ یہی تقاضائے ایمان ہے اقامت صرف پڑھنے کو نہیں کہا جاتا بلکہ صلوٰۃ کی جملہ شرائط جسم اور لباس کی طہارت ، وضو ، وقت ، باجماعت اور پھر ارکان صلوٰۃ کا پورا پورا خیال رکھنا۔ قیام ، رکوع ، سجود ، جلسہ وغیرہ تمام امور کی نگہداشت کرنا بلکہ اس سے بڑھ کر تلقین اور تبلیغ بھی اقامت صلوٰۃ کا شعبہ ہے اور زکوٰۃ ادا کرنے والے بنو نیز رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ۔ یہاں سے اکثر حضرات وجوب جماعت کو ثابت کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ بغیر عذر شرعی ، مرد کے فرائض پنجگانہ گھر میں ادا ہی نہیں ہوتے اور سستی وتساہل عذر شرعی میں داخل نہیں۔ اس کے علاوہ حدیث شریف میں جو تاکید ہے وہ بھی یہی ظاہر کرتی ہے کہ جہاں تک اذان کی آواز پہنچتی ہے لوگوں کو نماز کے لئے حاضر ہونا چاہیے اس میں لائوڈ سپیکر شرط نہیں بلکہ متوسط آدمی کی آواز۔ حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ نے ایک نابینا صحابی ؓ کو بھی رخصت نہ فرمائی تھی ، یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا آپس میں متحد ہونا بھی ضروری ہے اور یہ روش کہ سجدہ والا دوسری مساجد والوں پر طعن کرنے ناجائز اور سخت نامناسب ہے ، عجب حیرت ہے کہ لوگوں کو کافر بھی مساجد میں ہی نظر آتے ہیں کبھی جوا خانوں میں جانے والوں اور فحاشی کے اڈوں پر راتیں بسر کرنے والوں سے کچھ نہیں کہا جاتا حالانکہ یہ امور بھی گناہ کبیرہ ہیں کفر نہیں۔ علمائے حق نے سچے مسلمان کے اوصاف میں یہ وصف بھی نقل کیا ہے کہ اگر وہ دین کے کام میں مخلص ہے تو دوسروے کیا سی کام کو کرنے سے خوش ہوگا ، اور نہ حسد کرے گا جو آج کل عام ہے۔ اتامرون الناس بالبر وتنسون انفسکم وانتم تتلون الکتاب افلا تعقلون۔ اللہ کے بندو ! لوگوں کو تو بھلائی کا حکم کرتے ہو ، نیک کام کرنے کی تلقین کرتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو۔ علمائے یہود اپنے مسلمان ہوجانے والے رشتہ داروں سے تو یہ کہتے تھے کہ یہ حق ہے اور اس پر جمے رہو مگر خود اس طرف نہیں آتے تھے نیز یہ ان لوگوں کو بھی متنبہ فرمایا جارہا ہے جو وعظ تو خوب کہتے ہیں مگر عملی زندگی درست نہیں رکھتے لوگوں کو جن باتوں سے منع کرتے ہیں خود انہی کے مرتکب ہوتے ہیں اور پھر اس پر طرہ یہ کہ عوام تو محض سنی سنائی کی حد تک جان سکتے ہیں اور تم خود کتاب کے جاننے والے یعنی عالم ہو کیا تم اتنی عقل بھی نہیں رکھتے۔ تمام نیکیوں کی بنیاد عقیدہ ہے جو شخص بھی عقائد کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور ان کی اصلاح نہیں کرپاتا وہ مزید نیکی کیا خاک کرے گا۔ جیسے علمائے یہود باقی اچھے کام کرنے کو تو کہتے تھے مگر عقیدہ جو ضروری اور بنیادی چیز تھا یعنی نبی اکرم ﷺ پر ایمان لانا۔ نہ اس کی تلقین کرتے نہ خود لاتے۔ تو یہ سب کیوں ہے ؟ لذت طلبی اور عزت واقتدار کی خواہش ، دولت کی طلب کہ شاید اس طرح یہ چیزیں نصیب ہوں اور زندگی آرام سے گزرے۔ فرمایا ، یہ انداز فکر ہی خلاف حقیقت ہے کہ یہ دنیا مصیبتوں کا گھر ہے جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ خواہش تو انسان کرسکتا ہے مگر اس کی تکمیل اس کے بس میں نہیں اور یہ خواہشات زندگی کو اجیرن بنادیتی ہیں اس کے لئے نہ دولت کے پیچھے دوڑو نہ اقتدار اور پیشوا بننے کی ہوس میں حق سے گریز کرو۔ بلکہ واستعینوا بالصبروالصلوٰۃ ، صبر اور صلوٰۃ ۔ یعنی عبادت اور دعا سے مدد حاصل کرو۔ صبر کیا ہے ؟ اللہ کی اطاعت پر اپنے آپ کو کاربند کرلینا اور عدم اطاعت سے نفس کو روک لینا۔ اصول تجویز اور اصول تفویض : یعنی تجویز کرنا چھوڑو ، طریق تفویض اختیار کرو ، وہ یہ کہ سب سے پہلے تو خلاف شرع اور ممنوعہ امور سے رک جائو۔ بہت بڑی مصیبت سر سے ٹل جائے گی پھر جو کام مباح ہیں ان میں اپنی کوشش تو ضرور کرو ، اور امکانی حد تک محنت کرو مگر نتائج کی امید اللہ سے رکھو ، محنت بھی کرو اور دعا بھی ، مگر نہ محنت پر یہ حکم لگادو کہ اس کا نتیجہ یقینا وہی ہوگا جو میں چاہتا ہوں کہ یہ تمہارے بس میں نہیں اور نہ صرف محنت پہ بس کرو بلکہ دعا بھی کرو اور دعا کو بھی درخواست جانو حکم نہ سمجھو کہ اللہ پر نافذ ہوجائے گا اب اگر نتیجہ دنیا میں بھی تمہاری امید کے مطابق نکلا تو کیا کہنے کہ ثواب آخرت بھی بلاوجہ اتباع شریعت کے اور اللہ سے شرف ہم کلامی بذریعہ دعا نصیب ہو اور دل کی مراد بھی بر آتی لیکن اگر نتیجہ دنیا میں تمہاری امید کے برعکس آیا تو پہلے دو لطف تو مل ہی گئے جو اصل مقصود ہیں اور کیا خبر کہ تمہاری توقع اور خواہش کے مقابلے میں اس سے بہتر متبادل چیز بخش دے اور یقینا ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ طریقہ دنیا میں بھی لذت واکرام حاصل کرنے کا ہے نہ چوری ، نہ ثبوت ، نہ کتمان حق یہ راستہ مصائب کو تجھ سے دور کرے گا یہ نسخہ ذرا مشکل ہے بلکہ بہت مشکل ہے وانھا کبیرۃ یہ بہت مشکل کام ہے الا علی الخاشعین الذین یظنون انھر حلاقواربھم وانھر الیہ راجعون ، مگر ان لوگوں کے لئے مشکل نہیں جن کے قلوب میں خشوع موجود ہے کہ خشوع فعل ہی قلب کا ہے اور یہ اس کیفیت کا نام ہے جو عظمت باری اور ہیبت الٰہی کے سامنے اپنی بےمائیگی اور بےبسی کا اندازہ کرکے پیدا ہوتی ہے اللہ کی وہ عظمت کہ ساری کائنات کا خالق مالک ، رازق اور پروردگار ہے پھر اس وسیع کائنات میں خود یہ زمین ایک ذرہ ہے اس پر نہ جانے کس قدر اقسام ذوی الارواح کی ہیں جن میں سے پوری انسانیت ایک اکائی کا درجہ رکھتی ہے اس اکائی میں ایک آدمی کیا ہے ذرا عشاریہ لگا کر صفر لگانا شروع کردیں ، دیکھیں زندگی میں ایک لکھنے کی نوبت آتی ہے یا پوری زندگی صفر صفر ہی تمام ہوتی ہے۔ اس طرح عظمت باری کا شعور جو ایک کیفیت ہے اور قلب پر وارد ہوتی ہے اسی کو خشوع کا نام دیا گیا ہے۔ اور یہ قلب ہی ہے جو یقین عطاء کرتا ہے کہ مجھے اپنے پروردگار سے ملنا ہے اگر یہ ملاقات اور لوٹ کر جانا نہ ہوتا تو پوری تخلیق یہ عبث ہوتی کہ بےنتیجہ کام عبث ہوا کرتا ہے اور فضول کام کرنے والے کو رب نہیں کہا جاتا۔ یہ بھی شان ربوبیت کے لئے ضروری ہے کہ قیامت قائم ہو ، نتائج سامنے آئیں اور نیک وبداثرات مرتب کئے جائیں اسی وجہ سے یہاں ملقواربھم فرمایا گیا ہے کہ یہ تمام امور صفت ربوبیت کا اظہار ہیں ، لہٰذا کیفیات کو محسوس کرنے کے لئے زندگی شرط ہے۔ مُردوں کو گرمی ، سردی ، رنج اور خوشی سے کیا سروکار۔ تو دل بھی جب ہی محسوس کرے گا جب زندہ ہوگا۔ یہ دل ہی کی بےحسی ہے کہ عبادات متروک ہیں۔ اگر مردہ نہیں تو بےہوش ضرور ہے اور اکثر یہی بےہوشی موت پر منتج ہوتی ہے اور لوگ نئے اور باطل مذاہب کے جال میں پھنس جاتے ہیں اس لئے کسی ایسے معاج کی ضرورت ہے جو اس فن میں مہارت رکھتا ہو ، برکات نبوی ﷺ سے دل روشن رکھتا ہو اور دوسرے قلوب تک یہ روشنی پہنچائے۔ آپ ﷺ سے دوسری طرح کے فیوض وبرکات جاری ہوئے ایک ارشادات رسول ﷺ دوم مجلس رسول ﷺ کی برکات ، ارشادات سے بھی وہی مستفید ہوئے جنہوں نے فیض صحبت پایا۔ ورن محض سننے کی حد تک تو کافر بھی شریک ہیں ، سو آج بھی اسی طرح فیض صحبت کی ضرورت ہے ورنہ محض سنی سنائی سے بات بننے سے رہی جس طرح اقوال و ارشادات متفق ہوتے ہیں اسی طرح نسلاً بعد نسل فیض صحبت بھی سینوں کو منور کرتا چلا آتا ہے۔ ذرا ساسل اولیاء اللہ کو دیکھو ! سند حدیث کی طرح موجود ہیں ان میں کوئی شخص جو واقعی سینہ منور رکھتا ہو اور دل کو جگا سکتا ہو مل جائے تو بات بنے خشوع بھی نصیب ہو۔ القائے الٰہی پہ یقین حاصل ہو اور انسانی افعال کے نتائج اخرویہ پہ نگاہ رکھنے ک یاہلیت پالے۔ ورنہ دنیا اور آرام ؎ ایں خیال است ومحال است وجنوں عبادات میں نیت کا مقام : بغیر خشوع اکثر نمازیں بھی گستاخی کے ضمن میں آتی ہیں یعنی بندہ رب سے ہم کلام ہو اور متوجہ دوسری طرف ہو۔ یہ بہت بڑی گستاخی ہے مگر بایں ہمہ بندہ ہو اور نماز ادا ہی نہ کرے فرائض کو فراموش ہی کردے یہ گستاخی کی حد سے بڑھ کر ہے اور ایک طرح سے ظلم اپنی تباہی کا سامان ہے نہ پڑھنے سے تو بغیر خشوع پڑھنا بہتر۔ مگر اس میں بھی یہ کوشش جاری رکھے کہ اپنے آپ کو اپنے باطن کو اللہ کی طرف متوجہ رکھے۔ اللہ بڑا کریم ہے اس کی ذات سے امید قوی رکھے کہ قبول فرمائے گا اور اگر صحبت کامل نصیب ہو تو پھر دل کا نور عرش کی بلندیوں کو چھوتا ہے جو عبادت کے وقت ایک خاص کیفیت پیدا کرلیتا ہے اگر ذرا غفلت آئے تو اس میں کمی آتی ہے انسان فوراً سنبھل جاتا ہے بلکہ اس سے کہیں آگے چلا جاتا ہے۔ بندہ کا ذاتی مشاہد ہے کہ ایک دفعہ پشاور جاتے ہوئے راستے میں عصر کا وقت ہوا ساتھ ہی ایک مولانا بھی تھے اور ایک درویش صفت دوست بھی میں نے اپنے گلے سے پستول اتار کر مولاناکو دے دیا تھا کہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے دقت پیدا کرتا ہے فرض ادا کرتے وقت بھی اس کے گلے میں تھا۔ انہوں نے امامت کی اور ہم نے صلوٰۃ ادا کی تو دوسرے ساتھی کہنے لگے : ” مولانا ! آپ نے ہم سے کیا زائد عمل کیا ہے ؟ “ پوچھا ” کیوں ؟ “ کہنے لگے : ” فرشتہ ثواب لکھ رہا تھا۔ ہماری نسبت آپ کا ثواب زیادہ لکھا گیا میں نے اس سے پوچھا ایسا کیوں ہے تو کہتا ہے کہ ان کی نیت ایک اور کام بھی کرگئی۔ اب آپ بتادیں کہ وہ زائد کام آپ نے کیا کیا ہے ؟ “ مولوی صاحب کہنے لگے ، ” یار ! میرے گلے میں پستول تھا سوچا اسلحہ لگا کر حضور ﷺ نے بھی صلوٰۃ ادا کی ہے چلو۔ خواہ پستول کسی کا ہے مگر مسلح ہو کر پڑھنے کی سنت تو ادا ہوجائے گی “۔ سبحان اللہ ! اتنی سی سوچ کا فرق کس قدر ثواب کے حصول کا باعث بن گیا۔ کاش ! مسلمان تجھے سنت کی قدر ہوتی ۔ اللہ تمام مسلمانوں کی سنت پہ کار بند فرمادے۔ خشوع کے حصول کے لئے توبہ قلبی کی ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی مرحوم نے حصول تصوف یا سلوک کو ہر مرد و زن کے واجب لکھا ہے کہ بغیر اس کی عبادت محض ایک رسمی کاروائی رہ جاتی ہیں۔
Top