Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 177
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ١ۚ وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ١ۙ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ١ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ١ۚ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا١ۚ وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ
لَيْسَ : نہیں الْبِرَّ : نیکی اَنْ : کہ تُوَلُّوْا : تم کرلو وُجُوْھَكُمْ : اپنے منہ قِبَلَ : طرف الْمَشْرِقِ : مشرق وَالْمَغْرِبِ : اور مغرب وَلٰكِنَّ : اور لیکن الْبِرَّ : نیکی مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ : اور دن الْاٰخِرِ : آخرت وَالْمَلٰٓئِكَةِ : اور فرشتے وَالْكِتٰبِ : اور کتاب وَالنَّبِيّٖنَ : اور نبی (جمع) وَاٰتَى : اور دے الْمَالَ : مال عَلٰي حُبِّهٖ : اس کی محبت پر ذَوِي الْقُرْبٰى : رشتہ دار وَالْيَتٰمٰى : اور یتیم (جمع) وَالْمَسٰكِيْنَ : اور مسکین (جمع) وَابْنَ السَّبِيْلِ : اور مسافر وَالسَّآئِلِيْنَ : اور سوال کرنے والے وَفِي الرِّقَابِ : اور گردنوں میں وَاَقَامَ : اور قائم کرے الصَّلٰوةَ : نماز وَاٰتَى : اور ادا کرے الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَالْمُوْفُوْنَ : اور پورا کرنے والے بِعَهْدِهِمْ : اپنے وعدے اِذَا : جب عٰھَدُوْا : وہ وعدہ کریں وَالصّٰبِرِيْنَ : اور صبر کرنے والے فِي : میں الْبَاْسَآءِ : سختی وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف وَحِيْنَ : اور وقت الْبَاْسِ : جنگ اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ صَدَقُوْا : انہوں نے سچ کہا وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ ھُمُ : وہ الْمُتَّقُوْنَ : پرہیزگار
یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ تم اپنا منہ مشرق کی طرف کرو یا مغرب کی طرف اور لیکن نیکی یہ ہے کہ جو کوئی اللہ پر ایمان لائے اور آخرت کے دن پر اور رفشتوں پر اور کتابوں پر اور پیغمبروں پر اور اس کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں کو اور یتیموں کو اور فقیروں کو اور مسافروں کو اور سوال کرنے والوں کو اور قیدیوں کو چھڑانے میں دے اور وہ نمازکو قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے اور (یہ لوگ) جب عہد کریں تو اپنے وعدے کو پورا کریں اور تنگی اور بیماری اور حالت جنگ میں صبر کریں یہ وہ لوگ ہیں جو سچے ہیں۔ اور یہی لوگ پرہیزگار ہیں
آیات 177- 182 اسرارو معارف لیس البران تولوا وجوھکم…………وللئک ھم المتقون۔ شروع سورة سے یہاں تک روئے سخن معاندین کی طرف تھا اور ضمناً مسلمانوں کو بھی خطاب فرمایا جاتا رہا۔ مثلاً اولا ایمان کی بحث ، پھر انسانوں کی اقسام بلحاظ عقائد اور پھر نوع انسانی کو دعوت عبادت ، صداقت قرآن اور حقانیت پیغمبر اثبات توحید اور پھر کفار کے اعتراضات کے جواب اور اسی ضمن میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد پر احسانات و انعامات اور پھر قبلہ کی بحث چلی اور عبادات اور ان کا اجر مذکور ہوا۔ اور زاں بعد شرک کے اصول کا ابطال۔ یہ سب مضامین نصف سورة تک آئے۔ ان کے بعد اب بقیہ آیات میں جو تقریباً نصف سورة ہیں ، روئے سخن مسلمان کی طرف ہے گو ضمناً خطاب کفار سے بھی ہے۔ یہ بحث اس موضوع پر شروع ہوئی کہ نیکی کیا ہے اور کیا نہیں ہے ؟۔ چونکہ کفار اپنی رسومات کو نیکی منوانے پر مصر تھے تو اللہ کریم نے لفظ ” بر “ سے بحث کا آغاز فرمایا تو زندگی کے ہر پہلو میں نیکی کو بیان کردیا مثلاً احکام قصاص ، وصیت ، روزہ جہاد ، حج وانفاق ، حیض وایلا۔ و طلاق ، عدت ومہر اور بعض معاملات بیع وشرا کے بیان کرنے کے بعد وعدہ رحمت مغفرت پہ اس کو تمام کیا۔ حکیم الامت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) نے اس مجموعہ کا نام ” ابواب البر “ رکھا ہے۔ ایمان اور عبادات : ارشاد ہوتا ہے کہ نیکی اسی پہ ختم نہیں کہ تم تعین قبلہ میں الجھے رہو کہ فلاں سمت منہ کرنے والا اچھا ہے یا دوسرا۔ بلکہ اصل کمال تو اللہ پر ایمان ہے جیسا کہ اس کی ذات ہے اور جیسی اس کی صفات ہیں اللہ کا تصور یا کسی ایسی ہستی کا تصور ، جو سب پر غالب اور آخری حیثیت رکھتی ہو تو ہر مذہب میں موجود ہے مگر اس ذات کے اوصاف اہل مذہب نے اپنی سمجھ کے مطابق مقرر کر رکھے ہیں حالانکہ ایمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ واقعی جیسا ہے اس کو ایسا ہی یقین کرے اس کی تعیین صرف اور صرف انبیاء (علیہم السلام) ہی کرسکتے ہیں جن کو خود اللہ اپنی ذات اور صفات کے بارے علم و آگہی بخشتا ہے۔ ایمان باللہ کے لئے ضروری ہوا کہ جس طرح نبی کریم ﷺ منوائیں اس طرح مانیں۔ اس کی قدرت اور اس کے علم پہ یقین کامل رکھتا ہو۔ اسی کو اپنا خالق ومالک اور رازق جانتا ہو۔ غرض اعتقادات کی اساس ہے ایمان باللہ ! اگر یہی درست نہ ہو۔ اللہ کی ذات یا صفات میں کسی کو شریک جانے تو کیا فرق پڑا کہ اس کا منہ مغرب کو ہے یا مشرق کو۔ اور پھر اسے یہ یقین کامل بھی حاصل ہو کہ ایک روز میں نے اس عالم الغیب والشہادہ کے حضور حاضر ہو کہ اپنا حساب پیش کرنا ہے جو اللہ میرے ظاہر و باطن سے آگاہ ہے جو میری کلام اور اعمال سے واقف ہے اور جس نے نیکی وبدی کا معیار مقرر فرمایا ہے اسی کے سامنے پیش ہو کر اپنے کردار کی جوابدہی کرنا ہے نیز اسے فرشتوں کے وجود پر اور کتاب الٰہی کی صداقت پر یقین حاصل ہو اور انبیاء (علیہ السلام) کی صداقت وحقانیت پر صمیم قلب سے اعتقاد رکھتا ہو۔ دراصل انسانی مزاج ایسا ہے کہ ہر آدمی اپنی حیثیت کے مطابق یہ چاہتا ہے کو جو خیالات یا نظریات میرے ہیں وہی سارے جہان کے ہوں اور ہر کہ ومہ اسی کو قبول کرے۔ یہ اسی جذبے کی تسکین کا سامان تھا کہ کفار اپنے خیالات ہی کو مذہب اور عبادت کا درجہ دیتے تھے اور یہی شے آج کے مسلمانوں کو بھی باہم دست وگریباں کر ارہی ہے کہ ہر شخص اپنے خیالات دوسرے پر ٹھونسنے کے لئے تیار ہے اور رواجات کو اس قدر اہمیت دی گئی ہے کہ اختلاف رکھنے والوں کو دائرہ اسلام سے ہی خارج سمجھاجاتا ہے۔ ایک مسجد والے دوسری والوں کو تکفیر کرتے ہیں یہ یہیں سوچتے کہ کفار کا مساجد میں کیا مقام اور کیا کام۔ اگر اتنا ہی شوق جہاد ہے تو روئے زمین پر مسلمانوں کی نسبت کافر زیادہ بستے ہیں وہاں جاکر کام کرو اور ان کی اصلاح کا سامان کرو نہ یہ کہ جو لوگ اللہ کی عبادت میں لگے ہوئے ہیں ان پر کفر کی تلوار چلاتے ہو۔ اللہ کریم نے اس آیت میں یہ حق بندے سے لے لیا ہے کہ نیکی اور بدی کی تعیین تیراحق نہیں ، یہ میرا کام ہے تیرا کام نیکی کو اختیار کرنا اور برائی سے اجتناب ہے اس کے معیار کر فرشتے کتاب اور نبی کے ذریعہ میں تجھ تک پہنچائوں گا۔ اسی طرح عبادات میں بھی رسوم کو دخل نہیں بلکہ وہی کام عبادت ہوگا جو اللہ فرمائے گا۔ دوسرے درجے میں انسان کو مال عزیز ہے اللہ کریم نے اس کے کمانے کی تدبیر بتلانے کی بجائے اس کے مصارف ارشاد فرمادیئے ہیں۔ یہ صورت صرف اسلامی معاشیات میں ہے کہ خرچ کی حدیں بھی مقرر ہوں۔ ظاہر ہے جب خرچ اللہ کے حکم کے مطابق کرتا ہے اپنی پسند سے کمانے کی کیا ضرورت ؟ تو فرمایا اگرچہ طبعاً مال اس کو محبوب ہوتا ہے مگر اللہ کی ذات سے کم۔ اس کی محبت میں مال کو رشتہ داروں پر ، یتیموں ، محتاجوں ، مسافروں پر اور غلاموں کو آزاد کرانے پر صرف کرتا ہے۔ اور اس چیز کو زکوٰۃ سے مقدم ذکر فرمایا کہ صرف زکوٰۃ ادا کرکے کوئی مالی فرض سے سبکدوش نہیں ہوجاتا۔ نیز عموماً ان چیزوں کی طرف کم توجہ دی جاتی ہے حالانکہ ضرورت ان اشیاء کو بھی فرض کردیتی ہے مثلاً زکوٰۃ تو دے چکا مگر کسی رشتہ دار کی جان پہ بن آئے تو اس کی مدد کرنا فرض ہوگا۔ یا کوئی مسکین بھوک سے مررہا ہو اور انسان کہے کہ میں تو زکوٰۃ دے چکا۔ نہیں بلکہ اس کی جان بچانا فرض ہوگا۔ اسی طرح ضرورت کی جگہ ، مسجد کی تعمیر ، مدرسہ ومکتب وغیہر۔ یہ سب فرائض مالی میں داخل ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان کو صرف ضرورت فرض کرے گی ورنہ یہ فرض نہ ہوں گے اور زکوٰۃ ہر حال میں فرض۔ یہ لوگ نماز کو قائم کرنے والے یعنی اس کی تمام شرائط کے ساتھ ادا کرنے والے اور زکوٰۃ دینے والے ہوں گے۔ عبادات کے بعد درجہ معاملات کا ہے۔ فرمایا ایسے لوگ جو اپنے وعدوں کو پورا کریں ۔ جن میں سرفہرست اللہ سے عہد ہے اللہ کے رسول ﷺ سے عہد ہے۔ یہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ایک مقدس عہد ہی تو ہے اس کے بعد کب زیب دیتا ہے کہ انسان ارشادات نبوی ﷺ کے مقابلے میں رسوم جاری کرے یا ان کو اہمیت دے اسی لئے بزرگوں کا قول ہے کہ دوستی کرنے سے پہلے دیکھ کیا وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا وفادار ہے اگر نہیں تو تو اس پر بھروسہ نہ کر کہ وہ اس قابل ہی نہیں۔ چنانچہ اسی طرح درجہ بدرجہ معاملات میں درستی رکھتا ہے۔ اس کے بعد اخلاقیات ، کہ سختی اور تنگی میں صبر کرتے ہیں۔ یہی ایک ایسا وصف ہے کہ مندرجہ بالا تمام امور میں معاون ہے کہ خود اس کی بناء اعتماد علی اللہ اور اعتماد علی الرسول ﷺ پر ہے کہ اللہ میرے حال سے مجھ سے بڑھ کر آگاہ ہے۔ اور میری ذات سے بھی زیادہ میرا بھلا چاہنے والا ہے اگر تنگی ہے تو یقینا یہی میرے حق میں بہتر ہے بلکہ اگر سرکٹ رہے ہیں تو بھی استقلال اور پامردی کا مظاہرہ کرتا ہے کہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا چاہا ہی ہوگا اور اللہ وہی چاہے گا جو میرے حق میں بہت ہی بہتر ہوگا۔ حجاج بن یوسف جب مرض الموت میں تھا تو اس کی والدہ رو رہی تھی کہنے لگا ، ” امی ! کیوں روتی ہیں ، لاکھوں آدمی میرے سامنے موت کے گھاٹ اترے آخر ایک روز مجھے بھی جانا ہی تھا اور وہ وقت آگیا۔ “ کہنے لگی ، ” میرے رونے کا سبب یہ نہیں بلکہ اس بات پہ روتی ہوں کہ بعد موت تجھ سے کیا سلوک ہوگا ؟ “ حجاج کہنے لگا ، ” امی ! اگر میرا حساب اللہ آپ کو دے دے تو مجھے معاف کردیں گی ؟ “ کہا ، ” یقینا ! “ کہنے لگا ، ” حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ اپنی مخلوق پر اس سے زیادہ مہربان ہے جتنی والدہ اپنی اولاد پہ ہوا کرتی ہے “۔ یہی بات کسی نے خواجہ حسن بصری (رح) سے کہی تو فرمایا : ” یہ بات اس کی بخشش کا سبب بن سکتی ہے صبر کا مدار بھی اللہ پہ یقین پر ہے اور جملہ طاعات کا مدار صبر پر ہے “۔ جو ایسے ہیں اعتقادات ، عبادات ، معاملات اور اخلاقیات میں اولئک الذین صدقوا یہ لوگ ہیں جنہوں نے سچ کہا۔ یہ کھرے لوگ ہیں اور یہی متقی ہیں۔ یعنی انہیں کو ایک خاص نسبت اللہ سے حال ہے جسے تقویٰ کہا جاتا ہے اور اگر یہ بات نہیں تو پھر مشرق کو منہ کیا یا مغرب کو ، کیا حاصل۔ قصاص : انسانی معاشرے میں عموماً جب کوئی شخص کسی بھی وجہ سے دوسرے شخص کو پسندنہ کرتا ہو تو چاہتا ہے کہ یہ آدمی دنیا میں نہ رہے اور بس چلنے پر اسے قتل کردیتا ہے عموماً اس کی وجہ حسد ہوتا ہے یا پھر لالچ وغیرہ۔ وجہ خواہ کوئی بھی ہو یہ بات مسلمہ ہے کہ ہر دور میں انسان انسانوں کو قتل کرتے رہے ہیں اور خصوصاً بعثت نبوی ﷺ کے زمانے میں روئے زمین پر اور خصوصاً انسانی جانوں کی کوئی قدر نہ تھی۔ ہر زبردست کمزور کو قتل کرنا تو گویا اپنا حق سمجھتا تھا اور اگر کسی وجہ سے کسی کمزور قبیلے کے ہاتھوں کسی امیر قبیلے کا کوئی فرد مارا جاتا تو پھر عجیب مطالبے ہوتے کہ ہماری عورت کے بدلے اس کا مرد قتل کیا جائے یا ان کے آزاد آدمی کے بدلے ہم اپنا غلام قتل کے لئے پیش کریں گے وغیرہ۔ حتیٰ کہ دو قبیلے ایسے تھے کہ جن میں قبل اسلام جنگ ہوئی اور طرفین کے مرد عورتیں اور غلام قتل ہوئے۔ جب ان کو اسلام نصیب ہوا اور صلح کی بات چلی تو ان میں سے ایک نے یہ مطالبہ کیا کہ ہمارے غلام کے بدلے ان کا آزاد اور عورت کے بدلے مرد قتل کیا جائے تب صلح ہوگی۔ گویا وہ اپنی ذوات کو ان کی نسبت برتر خیال کرتے تھے۔ نیکی پر بحث کرتے ہوئے اللہ کریم نے سب سے پہلے اسی امر کی اصلاح فرمائی کہ یہ معاملہ برارہ راست انسانی جانوں سے متعلق تھا فرمایا کہ اے ایمان والو ! پہلی بات تو یہ ہے کہ قصاص لینا تم پر فرض ہے قصاص مماثلت کو کہا جاتا ہے اور اصطلاح شرح میں قتل عمد کے بدلے قتل یازخم لگانے کے بدلے برابر کی سزا کو کہا جاتا ہے۔ اور یہ اختیار ہر ایک کو نہیں کہ جس کا قتل ہوجائے وہ دوسرے کے قتل کے درپے ہو بلکہ حاکم یا انتظامی سربراہ کا فرق ہے کہ قاتل کو یا زیادتی کرنے والے کو سزا دے۔ اگر ایسا نہ کرے گا تو عنداللہ قاتل کے ساتھ وہ خود بھی ماخوذ ہوگا۔ اب جبکہ یہ مساوات ضروری ٹھہری تو مساوات تب ہی ہوگی جب مقتول کے بدلے قاتل کو سزا ملے نہ یہ کہ غلام کے بدلے بےگناہ آزاد یا عورت کے قاتل ہونے کے باوجود سزا اس کے مرد کو دی جائے۔ فرمایا کہ آزاد کے بدلے آزاد ، غلام کے بدلے غلام ، عورت کے بدلے عورت قتل ہوگی جبکہ آزاد کا قاتل آزاد اور غلام کا غلام ہو یا عورت ، عورت کو قتل کرے۔ اسی طرح بالعکس بھی یعنی قتل کرنے والا آزاد ہو یا غلام ، عورت ہو یا مرد ، قتل کی سزا میں قتل کیا جائے گا۔ یہاں تک تو ان کے جاہلانہ اور ظالمانہ طریق کار کی اصلاح کی بات ارشاد ہوئی۔ اس کے ساتھ اصلاح کا ایک اور عمدہ پہلو ارشاد فرمایا کہ جب ایک جان تو ضائع ہو ہی چکی اب اگر اس کے ورثاء اس بات پر راضی ہوں کہ اللہ کی راہ میں قاتل کو معاف کردیں تو بیشک اس پر کوئی مطالبہ نہیں کہ ان کا یہ احسان دوسرے شخص کی اصلاح کردے یا اگر وہ چاہیں تو قتل کے بدلے دیت یا خون بہا قاتل سے لے لیں جس سے ان کو تنبیہ بھی ہوگی اور مقتول کے وارث کی مالی امداد بھی۔ دیت یا خون بہا شرعاً سو اونٹ یا ہزار دینار ہے جس کو صاحب معارف نے حل کرکے 36 سیر 36 تولے 8 ماشے چاندی دور حاضرہ کے اعتبار سے قرار دیا ہے اب اس کی قیمت لگائی جاسکتی ہے یا باہم کسی قدر مال پر مصالحت ہوجائے ، تو پھر وہی مال دیت بن جائے گا اس کی مفصل بحث اور شرائط کتب فقہ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ مقتول کے ورثاء میں اگر ایک وارث بھی اپنا حق معاف کردے تو قاتل پر قصاص معاف ہوجائے گا اور اسے قتل نہ کیا جائے گا اس میں بات صرف قاتل اور ناحق مقتول کی ہے گورے ، کالے ، یا آزاد غلام یا مرد ، عورت کی نہیں۔ نوع انسانی کے افراد ہونے میں سب برابر ہیں۔ یہ انصاف صرف اسلام کے پاس ہے ورنہ روئے زمین پر باطل مذاہب ہوں یا دور جدید کی نام نہاد تہذیب ہر طرف زبردست مارتا بھی ہے اور رونے بھی نہیں دیتا۔ ہندومت میں اگر شورد ، برہمن پر تھوکے تو اس کی زبان کھینچ لی جاتی ہے اور اگر برہمن شودر کو قتل بھی کردے تو کوئی جرم نہیں ہے۔ اسی طرح مغربی دنیا کے بنائے ہوئے جمہوری قوانین تو خود ہم پر بھی مسلط ہیں اور ان کی لائی ہوئی مصیبتیں یہاں پیش نظر ہیں۔ کہ مقتول کے ورثاء کو اس کا دکھ بھول جاتا ہے اور مقدمے کی فکر ، گواہوں کا اہتمام ، وکیل کی فیس اور اس طرح دوسری مصیبتوں کی فکر لاحق ہوجاتی ہے سالوں مقدمہ چلتا ہے بےچارے کچہریوں میں ذلیل ہوتے ہیں اور پھر جج صاحب قاتل کو بری کردیتے ہیں کہ اس طویل مدت میں گواہ ہی نہ رہے۔ کوئی مرگیا ، کوئی اندھا ہوگیا یا پھر رشوت لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے اب اس کا اثر مقتول کے ورثاء پہ یہ ہے کہ وہ ایک کی بجائے معتدبہ بےگناہ افراد کو بھی شامل کرتے چلے جاتے ہیں کہ اگر چھوٹ بھی جائیں تو کم از کم ذلیل تو ہوں۔ ان قوانین کو بنانے والے اسلام کے قانون قصاص پر طنز کرتے ہیں حالانکہ وہ سراسر امن اور ان کے قوانین سراسر فساد ہیں۔ آج بھی اس کی زندہ مثال مغربی معاشرے اور سعودی عرب میں موازنہ کرکے دیکھی جاسکتی ہیں کہ امریکہ میں انسانی جان کی کیا قیمت ہے ؟ لندن اور انگلینڈ میں کیا ہورہا ہے اور وہ ظالم انگریز جو یہاں تو معمولی بات پر گولی چلوادیتا اور کشتوں کے پشتے لگا دیتا تھا۔ اپنے ملک میں ہزاروں بےگناہ ایشیائی باشندوں کے قتل پر سوچ رہا ہے کہ کیا قاتلوں پر ربڑ کی گولی بھی چلائے یا نہ اور دنیا بھر کی خبر دینے والا ادارہ بی بی سی بھی اس بات پر منقار زیر پر ہے۔ اس کے مقابل سعودی عرب کو دیکھیں جہاں صرف حدود اسلامی کا نفاذ اور قصاص لیا جاتا ہے کوئی غریب ترین آدمی بھی کسی بڑے سے بڑے آدمی سے نہیں دبتا بلکہ اس کا اپنا حق ہے اور اس کا اپنا۔ اور دنیا میں اگر کسی ملک کا امن مثالی ہے تو وہ ملک یہی ہے اگرچہ ان میں وہ دینداری نہیں مگر اسلامی قانون کی برکات عیاں ہیں۔ فرمایا صاحب عقل اس بات کو جان سکتے ہیں کہ قصاص ہی میں زندگی ہے اور جس معاشرے میں ظالم کا ہاتھ نہ روکا جائے وہ معاشرہ تباہی کا منظر پیش کرتا ہے جس پر تاریخ عالم ہے۔ یہی بات تمہیں قرب الٰہی بخشنے کا سبب اور تمہارے وصف تقویٰ سے متصف ہونے کا ذریعہ بھی ہے یعنی قصاص ہر دو عالم کی بھلائی ہے اصلاح معاشرہ بھی اور آخرت کی سرخروئی بھی۔ یہ بات تو قتل کی تھی ، جو لوگ طبعی موت مرتے اور اپنے پیچھے مال چھوڑ جاتے ہیں وہ بھی کھینچا تانی کا سبب بن جاتا ہے۔ ایے ایمان والو ! تم پر فرض ہے کہ اگر مال چھوڑو تو اس کے بارے وصیت بھی کرو۔ ماں باپ اور رشتہ داروں کے حق میں اور انصاف سے کرو ، جس قدر کسی کا حق بنتا ہے نہ اس سے زیادہ دو نہ کم کرو۔ یہ حکم اللہ کے نیک بندوں پر لازم ہے۔ اس آیات میں مال کو ” خیر “ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ مومن جائز ذرائع سے کماتا اور شرعی طور پر خرچ کرتا ہے پھر اس کمے پاس کچھ مال بچ رہے تو وہ بھی خیر ہی کہلاتا ہے۔ اسلام میں مال جمع کرنا منع نہیں ہے ، ناجائزطور پر کمانا بھی منع ہے اور خرچ کرنا بھی ، ایسے ہی ناجائز ذرائع سے جمع کرنا بھی ناروا ہے ورنہ حلال رقز کے لئے محنت کرنا بجائے خود عبادت ہے اسے ناجائز امور میں خرچ کرنا نیکی اور پس ماندگان کو دے کر جانا خیر ہے۔ جب آیہ میراث نازل نہ ہوئی تھی مرنے والوں پر فرض تھا کہ مال میں وصیت کرتا۔ پھر جب اللہ نے خود ورثاء کے حقوق مقرر فرمادیئے تو یہ حکم منسوخ ہوا کہ یہ اللہ کی مرضی کس وقت کون سا حکم باقی رکھتا ہے۔ ہاں ! ورثاء کی اجازت سے اب بھی وصیت کرسکتا ہے یا پھر باجماع امت مال کے ایک تہائی میں وصیت کا حق رکھتا ہے یہ حکم اس شخص کا ہے جس کے ذمے کسی کا حق یا امانت نہ ہو اگر دوسروں کے حقوق واجب نہ ہوں تو پھر وصیت واجب ہوگی۔ نیز ایک تہائی ہیں جو وصیت کا حق دیا گیا ہے انسان اپنی زندگی میں اس میں تبدیلی کا حق بھی رکھتا ہے کس قدر ناپائیداری عالم یہاں ہے کہ صاحب مال ورثاء سے اجازت لے کر وصیت کرسکتا ہے گویا مال اس کا نہیں ورثاء کا ہے اور پھر جب ان کے پاس پہنچے گا تو یہی حال ان کا ہوگا اس مال کے لئے جو کسی کا ہے۔ انسان اگر نافرمانی کرے تو کس قدر نادانی ہے واقعی دنیا کا مال چند روزہ ہے جو دوسروں کو سونپ کر چلے جانا ہے۔ وصیت سننے والوں کا حق ہے کہ اسے تبدیل نہ کریں اگر ایسا کریں گے تو اللہ کریم بھی سن رہا ہے اور جانتا ہے۔ جس کی بارگاہ میں کل انہیں جواب دینا ہے۔ ہاں ! وصیت کرنے والا اگر غلط کر جائے اور طرفداری یا ناجائز تقسیم کا خطرہ ہو تو ورثاء میں باہم صلح کرانا۔ اور اس کے لئے اگر وصیت میں تبدیلی بھی آجائے تو کوئی گناہ نہیں کہ اللہ کریم بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ دراصل احوال کی اصلاح کی بنیاد ہی ایمان بالآخرت ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں پیشی پر یقین ہو۔ اور ہر کام کو اس نگاہ سے کرے کہ اس کا اثر وہاں کیا ہوگا۔
Top