Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 148
وَ لِكُلٍّ وِّجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّیْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ١ؐؕ اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یَاْتِ بِكُمُ اللّٰهُ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَلِكُلٍّ
: اور ہر ایک کے لیے
وِّجْهَةٌ
: ایک سمت
ھُوَ
: وہ
مُوَلِّيْهَا
: اس طرف رخ کرتا ہے
فَاسْتَبِقُوا
: پس تم سبقت لے جاؤ
الْخَيْرٰتِ
: نیکیاں
اَيْنَ مَا
: جہاں کہیں
تَكُوْنُوْا
: تم ہوگے
يَاْتِ بِكُمُ
: لے آئے گا تمہیں
اللّٰهُ
: اللہ
جَمِيْعًا
: اکٹھا
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
عَلٰي
: پر
كُلِّ
: ہر
شَيْءٍ
: چیز
قَدِيْر
: قدرت رکھنے والا
اور ہر ایک (ذی مذہب) کے واسطے ایک قبلہ رہا ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا رہا پس نیکیوں میں بڑھ چڑھ کر کوشش کرو تم جہاں کہیں ہوگے اللہ تم سب کو حاضر کریں گے بیشک اللہ ہر چیز پہ قادر ہیں
آیات 148- 152 اسرارو معارف ولکل وجھۃ ھو مولیھا…………………ان اللہ علی کل شی قدیر۔ سب قوموں اور جملہ مذاہب کے لئے کوئی نہ کوئی نقطہ اتحاد ہے ۔ افکار و خیال کے لئے بھی اور عبادات و اعمال کے لئے بھی۔ کسی نے اس کو رنگ ونسل کی حد بندی سے واضح کیا ہے تو کسی نے محض طاقت کو اپنا قبلہ بنالیا ، جیسے آج کل مغرب میں سفید فام ہونا ہی معاشرے میں جگہ پانے کا سبب ہے اور سیاہ فام خواہ ان کا مذہب بھی قبول کرلے ان کے دل میں جگہ نہیں بنا سکتا۔ یا ہندوازم کہ جو شے اپنے سے طاقت یا محض جسامت میں بڑی نظر آئی وہاں سر جھک گئے خواہ کوئی بڑا پہاڑ ہو یا دریا ، درخت ہو یا جانور ، اسی طرح ؎ ” ہر قوم راست را ہے دینے و قبلہ گاہے “ کسی نے جغرافیائی حدود کو اور کسی نے محض مخصوص خاندانوں میں پیدا ہونے کو وجہ اتحاد قرار دیا۔ اب یہ تمام غیر اختیاری چیزیں بجائے انسانیت کو کسی وحدت پر جمع کرنے کے بہت سے کثرتوں میں بانٹنے کا سبب بن گئیں۔ مگر دین حق نے ہمیشہ اور ہر دور میں خیال وفکر کو توحید و رسالت پر جمع فرمایا اور ظاہری نقطہ اتحاد قبلہ کو قرار دیا۔ جہاں بلا رنگ ونسل اور بلا تفریق قوم وملک سب انسان بیک وقت جمع ہوسکتے ہیں اور دنیا کے کسی گوشے میں بھی ہو وقت نماز سب کا رخ ایک طرف ہوتا ہے۔ جیسے سب کے دل ایک تار میں پروئے گئے ہیں ویسے ہی سب کے چہرے بھی ایک سمت تو ہوں گے اور یہ اختیاری ہے کہ مرد ، عورت ، پڑھا لکھا ، یا ان پڑھ ، گورا یا کالا سب اختیار کرسکتے ہیں اور یہ ظاہری وباطنی اتحاد فکروعمل کا ایک ایسا مرکزی نقطہ ہے جس کے لئے ہر مکتب فکر نے کوشش کی ہے بالکل اسی طرح اسلام نے بھی ایک سمت عطا فرمائی ہے اور اس میں کوئی انوکھی بات نہیں۔ اس بحث میں پڑنا تو وقت کا ضیاع ہے جو گزرہا ہے۔ تم اطاعت الٰہی اور عبادت الٰہی میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر محنت کرو۔ یاد رہے کہ اگر کوئی سمجھنا چاہے تو اس سے بات کرنا تو ضروری ٹھہرا۔ لیکن اگر کوئی محض کج بحثی کرنا چاہے تو اس سے مناظرہ کرنا درست نہیں سوائے اس کے کہ کسی شخص کی باتوں یا اس کے دعو وں سے لوگوں کے گمراہ ہونے کا خطرہ ہو تو اس کا تدارک ضروری ہے کہ سر میدان اس کی سفاہت عیاں ہوجائے اس کام کے لئے اہلیت شرط ہے ، نااہل الٹا دینداروں کو بدنام کرے گا۔ سومحض اپنا سکہ جمانے کے لئے زور دار بحثوں میں نہ پڑو بلکہ یہ زور اللہ کی اطاعت پر صرف کرو۔ اور یہاں ایک دوسرے پر سبقت لے جائو کہ بالآخر تمہیں اللہ ہی کے ہاں جمع ہونا ہے تم جہاں اور جس حال میں ہوگے ، اللہ تمہیں یکجا کرے گا۔ یہ اس کے لئے مشکل نہیں کہ مرنے کے بعد اگر کوئی جل گیا یادرندے کھا گئے یا کسی طرح بھی اس کے اجزاء منتشر ہوگئے تو اس قدر منتشر نہیں ہوسکتے جس قدر پیدا ہونے سے پیشتر تھے کہ روئے زمین کے دانے دانے میں اور ہر شے اور ہر پھل میں کسی نہ کسی جسم کیا جزاء موجود ہیں۔ جو ایک ملک سے دوسرے ملک میں پہنچ کر اس کی غذا بن کر وجود کا حصہ بنتے ہیں اور نطفے سے لے کر مرنے تک اس بدن کی تعمیر شروع رہتی ہے تو مر کر اس قدر نہیں بکھر سکتا جتنا پیدا ہونے سے پہلے تھا۔ سو اللہ کو ہر طرح کی قدرت ہے وہ تم سب کو یکجا فرمائے گا بجائے دنیاوی وقار کے اخروی زندگی تلاش کرو۔ ومن حیث خرجت…………………بغافل عما تعلمون۔ آپ کہیں بھی ہوں ، سفر پر بھی نکلیں تو وقت نماز روخ مسجد حرام کی طرف رکھا کریں۔ یعنی سفر وحضر میں ہمیشہ کے لئے مسلمانوں کا قبلہ یہی ہے اور یہ دین اسلام اور اس کے جملہ احکام حق ہیں آپ ﷺ کے پروردگار کی طرف سے یعنی عبادات کوئی محض رسوم نہیں ہیں جیسے مذاہب باطلہ ، کہ ان کی عبادات رسوم سے زیادہ کچھ نہیں ، مگر اسلامی عبادات اللہ کی ربوبیت کا مظہر ہیں۔ جس طرح جسم کی تعمیر کے لئے اس کی ربوبیت نے طرح طرح کے پھل میوے اور غذائیں پیدا فرمائی ہیں۔ اسی طرح روح کی تعمیر کے لئے عبادات اغذ یہ ہیں جیسے تمام غذائوں میں غلہ اور پانی بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اسی طرح روح کی غذائوں میں فرائض کی حیثیت ہے اور ان کے بغیر روح زندہ نہیں رہ سکتی سنن ونوافل ان کی زینت کا سبب ہیں۔ جیسے لوگ محض غلہ نہیں پھانکتے بلکہ طرح طرح کی مزیدار ڈشیں بناتے ہیں۔ اسی طرح فرائض کے ساتھ سنن ونوافل مل کر روح کے لئے لذیذ غذا بنتے ہیں۔ ظاہری میں تو غریب ترین آدمی بھی محض دانے نہیں چباتا اس کی روٹی تو بناتا ہی ہے گھر پر میسر نہ ہو تو لسی مانگ کرلے آتا ہے اور زیادہ نہ کرسکے تو چٹنی اچار تو بنا ہی لیتا ہے اس طرف یہ حال ہے تو ادھر غفلت کیوں ؟ وہ بھی تو تمہارے رب کی طرف سے ہے یعنی مظہر ربوبیت ہے عبادات وہی مظہر ربوبیت ہوں گی جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے ہوں۔ یہاں ایجاد سے کام نہیں چل سکے گا کہ یہ دین حق آپ ﷺ کے رب کی طرف سے ہے۔ اب یہاں گھبراہٹ کی ضرورت بھی نہیں کہ لوگ صبح تک سوتے ہیں ہمیں علی الصبح بیدار ہونا پڑتا ہے یا لوگ تو عیش کرتے ہیں اور ہم پر اخلاقی حدود نافذ ہیں یا لوگ تو کھاتے پیتے ہیں اور ہم روزہ رکھتے ہیں بھئی ! یہ آپ لوگوں کے لئے نہیں کرتے ، یہ اللہ کی اطاعت کرتے ہو جو ہر حال میں تمہارا نگران ہے اور ذاتی طور پر تمہاری کارکردگی کو ملاحظہ فرمارہا ہے۔ جو نہیں کرتے۔ وہ بھی اس سے اوجھل نہیں ہیں اور جو کرتے ہیں ان کے حال سے بھی باخبر ہے کرنے والوں کے دلوں کو سوز بخشتا ہے اور ترک فرائض پہ روحانی موت مرتب ہورہی ہے۔ یہ روزانہ نئے مذاہب کی ایجاد اسی بات کی غماض ہے۔ سو آپ جس طرف بھی نکلیں یہی نقطہ اتحاد ہے وجود ظاہر کے لئے خواہ انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر مسلمان جہاں ہوں جس ملک میں ہوں جس حال میں ہوں فردواحد ہو یا افراد کثیرہ۔ وقت نماز تمہارے چہرے مسجد حرام کی طرف ہوں۔ یہاں یہ بھی ظاہر ہوا کہ مسلمان جس حال میں بھی ہو ادائے فرض میں کوتاہی نہ کرے اور نہ مبتلائے بدعات ہو بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کو پوری طرح بجا لائے نہ اس کی سمت بدلے اور نہ افکار میں افتراق پیدا ہو۔ نیز یہ بھی کہ تم فرائض ہی چھوڑ بیٹھو جس طرح تم مذاہب باطلہ کو محض رسومات کا پلندہ کہتے ہو لوگ تمہارے طرز عمل سے دین کی حقانیت پر طنزکریں کہ اسلام اگر واقعی دین ہے اللہ کا حکم ہے یا حضور ﷺ برحق نبی ہیں تو پھر ان کے ماننے والے ان کی اطاعت کیوں نہیں کرتے اور فرائض تک کی پرواہ نہیں کرتے تو گویا یہ اس بات کا اظہار ہے کہ معاذ اللہ یہ بھی محض ایک فرقہ بندی کے سوا کچھ نہیں یا تم روزمرہ کے امور میں محض لوگوں کے طعنوں سے بچنے کے لئے ارکان دین کی پرواہ نہ کرو۔ اور غیر شرعی رواجات میں مبتلا ہوجائو تو گویا تم نے سمت بدل لی۔ ترسم کہ نہ رسی بکعبہ اے اعرابی ایں راہ کہ می روی بتر کستان است کا مصداق بن گئے اول تو اسلامی اقدار ہی اعلیٰ ترین اقدار ہیں اور اگر کافر بھی ہو تو ان اقدار پر طنز نہیں کرے گا۔ مثلاً سچ بولنا ، جائز طریقے سے پیسہ کمانا ، بدکاری نہ کرنا ، بدکلامی سے اجتناب ، اللہ کی عبادت کرنا یہ سب ایسے امور ہیں کہ سوائے سخت بےانصاف اور ظالم لوگوں کے ان پر کوئی طعن نہ کرے گا۔ اب کوئی طبقہ عام انسانی اقدار کو بھی پامال کرے جھوٹ کو عبادت اور بدکلامی کو قرب الٰہی کا ذریعہ سمجھ بیٹھے یا خیانت اور بدکاری کو طاعت کا درجہ دے دے تو ایسے ظالم اگر ارکان اسلام پر اعتراض کریں بھی تو ان کی پرواہ ہرگز نہ کی جائے کہ ان کا تو معیار ہی الٹ گیا۔ اور عبادات کے لئے معیار ایک ہی ہے کہ اللہ کی خشیت دل میں ہو اور بس ۔ صرف یہ سامنے رہے کہ ترک عبادت سے اللہ کی ناراضگی کا وبال آئے گا۔ اور اس کی عظمت کے پیش نظر خلوص دل سے اس کی عبادت کرے۔ واخسونی یعنی مجھ سے ، میری ناراضگی سے لرزاں وترساں رہو۔ تمہیں غیر کا کیا اندیشہ ۔ اگر یہ نعمت تم نے پالی تو میری نعمتوں کا دروازہ تم پر کھل گیا اور یہ خشیت اسی لئے اپنائو کہ میں اپنی نعمتیں تم پر تمام کردوں اور تم سیدھی راہ پانے والے ہوجائے تم حق شناس اور حق گو قرار پائو۔ دو عالم کی بھلائی تمہارے حصہ میں آئے جس طرح میں نے تم پر انعام کیا ہے اور بہت بڑا انعام کیا ہے کہ۔ کما ارسلنا فیکم…………………مالم تکونوا تعلمون۔ کہ تم میں ایک عظیم رسول تم ہی میں سے مبعوث فرمایا۔ ایک انعام تو یہ کہ تم میں رسول اللہ ﷺ کو مبعوث فرمایا اور دوسرا یہ کہ آپ ﷺ کو تم ہی میں سے یعنی نوع انسانی سے پیدا فرما کر انسانیت کو زینت بخشی کہ اگر نبوت کسی اور مخلوق کو ملتی تو اشراف المخلوقات وہی ہوتی ۔ انسان نہ ہوتا کیونکہ مخلوق کے لئے سب سے اعلیٰ درجہ اور انتہائی مقام نبوت ہے۔ باقی تمام کمالات اس کے بعد ہیں تو انبیاء کا نوع انسانی میں سے ہونا انسانیت کے لئے باعث فخر ہے۔ بعض نادان بشریت انبیاء کا سرے سے انکار کردیتے ہیں یہ ایک طرح سے نبوت ہی کا انکار ہے۔ ہاں ! یہ تمیز ضرور رہے کہ نبی بھی بشر تو ہوتے ہیں مگر ماوشما کی طرح نہیں بلکہ بشریت کی انتہائی بلندی اور پر اور نوع بشر کے لئے نمونہ ہوتے ہیں خصوصاً امام الانبیاء حضرت محمد ﷺ کہ آپ ﷺ منازل قرب کی ان بلندیوں پر فائز ہیں جو صرف آپ ﷺ کا حصہ ہیں اور ساری کائنات کے لئے آپ ﷺ کا اتباع لازمی۔ حتیٰ کہ اگر انبیاء میں سے کوئی ہستی دوبارہ اس عالم آب وگل میں تشریف لائیں گے تو باوجود اس کے کہ خود صاحب کتاب رسول ہیں عمل حضور ﷺ کے احکام پہ کریں گے ، سو میرے نبی ﷺ کے ذریعے تمہیں کس قدر نعمتیں ملی ہیں کہ تم پر آیات الٰہی کی تلاوت کرتے اور اللہ کریم کا ذاتی کلام کر دیا ہم سخن بندوں کو اللہ سے تو نے کہ تم سوال کرتے ہو تو اللہ کی طرف سے جواب آتا ہے تم کو پوری زندگی کا نظام اللہ کی طرف سے تعلیم کیا جاتا ہے اور جو بھی اس کی تعلیمات کو قبول کرتا ہے اسے پاک کردیتا ہے فکروخیال ، عقیدہ و اعمال ، ظاہروباطن ہر شرح سے اس کی ایسی صفائی فرماتا ہے کہ اس کے اس کمال کو اللہ اپنی عظیم رحمت کے طور پر سارے انسانوں کے سامنے فرما رہے ہیں۔ گویا ایسا پاک کرتا ہے معمولی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ ہاں واقعی ان لوگوں کو کسی کی صحبت نصیب ہوئی ہے اور تمہیں کتاب اللہ کی اور حکمت و دانائی یعنی ارشادات رسول ﷺ کی تعلیم دیتا ہے۔ گویا تعلیم کتاب و حکمت کا مدار تزکیہ پر ہے اگر یہ نعمت نصیب نہ ہوئی تو حقیقی علم یا علم نافع نصیب نہ ہوگا۔ حصول تزکیہ : اب یہ تزکیہ کس طرح حاصل ہوتا تھا۔ صرف نگاہ مصطفیٰ ﷺ سے اور صحبت نبوی ﷺ سے۔ خواہ وہ بالکل تھوڑی دیر کے لئے ہو کہ صفائی باطن سے ولایت خاصہ نصیب ہوتی ہے اور اگر سارے جہاں کے ولی جمع کئے جائیں تو صحابی نہیں بن سکتا بلکہ اس کی گرد پایہ سب نثار ہیں اور نبی کریم ﷺ کی صحبت کا کمال یہ ہے کہ ایک آن میں درجہ صحابیت پر فائز کردیتی ہے۔ آپ ﷺ سے دو طرح کا فیض نصیب ہوتا ہے ایک علم ظاہر کہ اقوال وافعال رسول ﷺ کا مرقع ہے قرآن وحدیث اور فقہ سب اسی قبیل سے ہیں اور فیض صحبت کہ انعکاسی طور پر مجلس میں حاضر ہونے والوں کو نصیب ہوتا اور مس خام کو کندن بناتا ہے۔ دلوں کو روشن اور سینوں کو منور کرتا ہے اور استقامت علی الحق کی استعداد پیدا کرتا ہے اور پہلی قسم کے فیض کی بنیاد بھی یہی فیض صحبت بنتا ہے ورنہ صرف ونحو اور جملوں کی اقسام تو ذہن نشین ہوجاتی ہیں۔ ان پر حقیقی فائدہ مرتب نہیں ہوتا۔ کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ علماء باہم دست و گریبان ہیں اور غضب یہ ہے کہ ایک مسجد والے دوسری مسجد والوں پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں کبھی علماء کافروں کو اسلام کی طرف راغب کرتے تھے اور آج جگہ جگہ کفر سازی کا کام جاری ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تزکیہ قلوب نصیب نہیں سو دین بھی قسمت میں نہیں بلکہ محض اپنے وقار کے لئے جنگ جاری ہے الا ماشاء اللہ۔ صرف وہ حضرات اس مصیبت سے بچے ہوئے ہیں جو تزکیہ باطن کی طرف بھی کوشاں ہیں کہ یہی دین کی بنیاد ہے اب اگر یہ کہا جائے کہ آج کل مشکل ہے تو درست نہ ہوگا کہ فیضان نبوی ﷺ تو قیامت تک آنے والی انسانیت کے لئے عام ہے اور تعلیمات نبوی ﷺ قرآن وحدیث ہر ملک میں ہر دور میں دستیاب ہیں حالانکہ ان میں تو تحریف اور ملاوٹ کا اندیشہ بھی ہوسکتا تھا مگر اللہ نے ایسا اہتمام فرمایا کہ الفاظ قرآنی کو سینوں میں جگہ دی اور حفاظت حدیث کے لئے اپنے پسندیدہ بندے پیدا فرماتے جنہوں نے حق و باطل کو علیحدہ کردیا اور کفر کی ہزار کوششوں کے باوجود یہ علم محفوظ رہے تو تزکیہ ، جو ایک باطنی کیفیت کا نام ہے جس میں نہ تحریف کا ڈر ، نہ ملاوٹ کا اندیشہ ، وہ کیونکر ضائع ہوگیا اور اگر خدانخواستہ ایسا ہوگیا تو پھر دین کہاں رہا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے امین کامیاب ہیں یہ ہمیشہ ہوتا ہے وقلیل ھن عبادی الشکور۔ تھوڑے تو ہوسکتے ہیں ختم نہیں ہوسکتے کہ انہیں حفاظت باری حاصل ہے اور یہی دنیا کے قیام کا سبب ہے۔ جب ختم ہوں گے تو سب ختم ہوجائے گا اور قیامت قائم ہوگی۔ یہ عمل انعکاسی اور القائی ہے حضور ﷺ سے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے ، ان سے تابعین نے ، ان سے تبع تابعین نے اور ان سے اولیائے امت نے حاصل کیا یہ تمام مسلمانوں کی امانت ہے اور تمام مرد وزن کو چاہیے کہ اس نعمت عظمیٰ کو حاصل کرنے کی سعی کریں کہ ربط قرآنی میں سے کے بعد تعلیم کتاب و حکمت ہے نیز تعلیم کتاب بھی آپ ﷺ کا منصب ہے۔ لہٰذا قرآن کے معنی بھی وہی معتبر ہوں گے جو آپ ﷺ نے ارشاد فرمائے اور جن پر آپ ﷺ کے سامنے عمل ہوا۔ آیات نازل ہوئیں تو عربی النسل اور عربی زبان میں ماہر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان کا مفہوم حضور ﷺ سے سمجھا۔ پھر آپ ﷺ کے سامنے اس پر عمل کرکے قبولیت کی سند حاصل کی۔ آج کوئی مفہوم جو قول رسول ﷺ اور تعامل صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف ہوگا ، قابل قبول نہ ہوگا۔ اور حکمت و دانائی بھی ارشادات رسول ﷺ کا نام ہے اس سے باہر یا ان ارشادات کے خلاف جہالت تو ہوسکتی ہے دانائی نہیں۔ نیز تمہیں وہ حقائق تعلیم فرمائے جن تک رسائی بجز تعلیم پیغمبر ﷺ ممکن نہ تھی کہ دنیا کے سارے علوم پیدائش سے لے کر موت تک بات کرتے ہیں اس سے آگے کی جرات نہیں رکھتے مگر عالم بالا کی حقیقتیں اور برزخ کے حالات ، جنت و دوزخ یا حساب وکتاب یہ سب حقیقتیں آپ ﷺ نے تم تک پہنچائی ہیں اور خاک نشینوں کو عرش آشنا کردیا ہے اور تم ایسے منعم حقیقی کو ہمیشہ یاد کرتے رہو۔ ذکر الٰہی کی برکات : ذکر کا مفہوم اصلی یاد ہے اور یہ قلب کا فعل ہے زبان سے یاد کرنے کو محض اس لئے ذکر کہہ دیا جاتا کہ زبان دل کی ترجمان ہے لیکن بعض اوقات یہ اداکاری بھی کرجاتی ہے دل میں اور ہوتا ہے ، یہ اور کہتی ہے یہی نفاق ہے اسی طرح بدن کے تمام وہ اعمال جو حدود شرعی کے اندر ہیں ذکر شمار ہوں گے کہ دل میں اللہ کی یاد تھی۔ تب اطاعت کی لیکن اگر اس میں بھی اداکاری ہوتی اور دل کی مطابقت نصیب نہ ہوئی تو منافقت کا وبال سر پر اور اگر دل نے ساتھ دیا تو یہ عملی ذکر اور لسانی ذکر ، مگر ذکر حقیقی وہی ہوگا جو دل کا ہوگا اور دل کو ذکر صاحب دل کی مجلس وصحبت سے انعکاسی والقائی طور پر نصیب ہوگا۔ یہ وہ ضرورت ہے جس سے کسی کو استثناء نہیں ہر مردوزن اور تمام مسلمانوں کی ضرورت ہے یہی نیکوں کے لئے ترقی درجات اور بدکاروں کے لئے توبہ وانابت کا سبب ہے نہ یہ وراثت ہے نہ رنگ ونسل پر مدار رکھتی ہے بلکہ ہر مسلمان کو حاصل کا حق ہے بلکہ سب پر واجب ہے ۔ کہ اس کے لئے کوشش کریں اور دلوں کو اللہ کے مبارک نام سے روشن کریں ایسے کاملین کو تلاش کریں جو اس دولت کے امین ہوں جو حضور ﷺ کے حقیقی وارث ہوں اور ان کی صحبت کو غنیمت جانیں۔ آج تک تو سب علماء بھی سند فراغت پانے کے بعد ان حضرات کی جستجو کرتے اور اس دولت کو پانے کے لئے سعی بلیغ فرماتے تھے تقریباً سوانح میں یہ قدر مشترک ہے مگر اس دور کی مصیبت یہ ہے کہ اول تو علم ظاہر بھی اٹھ رہا ہے جہان سے کوئی تشریف لے جاتا ہے۔ اس کا بدل ملنا مشکل ہوجاتا ہے رواج یہ ہے کہ چند سطور یاد کیں اور تقریریں کرنے چل نکلے پھر اس پر طرہ یہ کہ ذکر قلبی اور اس کے حصول کی تردید فرمانے لگے۔ بہ ببین تفاوت راہ از کجا ست تابکجا اذکرکم۔ تم محتاج ہو ، تم مجھے احتیاج سے یاد کرو گے میں بےنیاز اور منعم ہوں ، میں تمہیں اپنی عطاء سے یاد کروں گا۔ اور اس طرح تم پر ہمیشہ انعامات باری کا دروا رہے گا۔ یاد رہے کہ ساری مخلوق ہمیشہ اللہ کی عطا کی احتیاج رکھتی ہے اور عطائے باری کا سبب ہے ذکر الٰہی۔ اسی لئے انبیاء کرام کو بھی ذکر الٰہی کی تاکید فرمائی گئی ہے حتیٰ کو خود حضور ﷺ کو حکم دیا گیا۔ واذکراسم ربک یعنی اپنے پروردگار کے اہم ذاتی کو دل میں بسا لیں ہر دھڑکن اللہ کہتی رہے اس کے ساتھ صفت ربوبیت کا اظہار ہے اسم ربک یعنی آپ ﷺ کی دائمی ترقی کے لئے رب کے نام کی دائمی یاد بھی ضروری حیرت ہے ان لوگوں پر جو اپنے کو اس ضرورت سے فارغ جانتے ہیں۔ اللہ سب کو صحیح سمجھ عطا فرمائے ، آمین ! دل کی یاد ہی حقیقی شکر ہے محسن کو دل میں بسا لینا ہی اس کے احسانات پر اظہار ممنونیت ہے اور یادرکھو عاجز ہو کر بےنیاز سے کفر نہ کرو۔ یہاں چونکہ کفر شکر کے مقابلے پر لایا گیا ہے اس لئے اس کا ترجمہ ناشکری کیا جاتا ہے لیکن اگر ذرا غور کیا جائے تو بات ناشکری سے بڑھ کر کفر تک پہنچ جاتی ہے۔ کہ ذکر نام ہے دل کی یاد کا۔ اب مسلمان ہونے کے لئے جہاں زبانی اقرار کی ضرورت ہے وہاں تصدیق قلبی ضروری ہے اور اگر قلب تصدیق بھی کرتا ہے تو کسی نہ کسی درجہ میں ذاکر ہے اگر ذکر بالکل ہی اٹھ جائے تو گویا تصدیق قلبی بھی رخصت ہوئی تو یہ حقیقی کفر بن جائے گا۔ فرمایا۔ میرا نام دلوں سے مت مٹنے دو ! ورنہ کفر کی زد میں آجائے گا۔
Top