Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 148
وَ لِكُلٍّ وِّجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّیْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ١ؐؕ اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یَاْتِ بِكُمُ اللّٰهُ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَلِكُلٍّ : اور ہر ایک کے لیے وِّجْهَةٌ : ایک سمت ھُوَ : وہ مُوَلِّيْهَا : اس طرف رخ کرتا ہے فَاسْتَبِقُوا : پس تم سبقت لے جاؤ الْخَيْرٰتِ : نیکیاں اَيْنَ مَا : جہاں کہیں تَكُوْنُوْا : تم ہوگے يَاْتِ بِكُمُ : لے آئے گا تمہیں اللّٰهُ : اللہ جَمِيْعًا : اکٹھا اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز قَدِيْر : قدرت رکھنے والا
اور ہر ایک (ذی مذہب) کے واسطے ایک قبلہ رہا ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا رہا پس نیکیوں میں بڑھ چڑھ کر کوشش کرو تم جہاں کہیں ہوگے اللہ تم سب کو حاضر کریں گے بیشک اللہ ہر چیز پہ قادر ہیں
آیات 148- 152 اسرارو معارف ولکل وجھۃ ھو مولیھا…………………ان اللہ علی کل شی قدیر۔ سب قوموں اور جملہ مذاہب کے لئے کوئی نہ کوئی نقطہ اتحاد ہے ۔ افکار و خیال کے لئے بھی اور عبادات و اعمال کے لئے بھی۔ کسی نے اس کو رنگ ونسل کی حد بندی سے واضح کیا ہے تو کسی نے محض طاقت کو اپنا قبلہ بنالیا ، جیسے آج کل مغرب میں سفید فام ہونا ہی معاشرے میں جگہ پانے کا سبب ہے اور سیاہ فام خواہ ان کا مذہب بھی قبول کرلے ان کے دل میں جگہ نہیں بنا سکتا۔ یا ہندوازم کہ جو شے اپنے سے طاقت یا محض جسامت میں بڑی نظر آئی وہاں سر جھک گئے خواہ کوئی بڑا پہاڑ ہو یا دریا ، درخت ہو یا جانور ، اسی طرح ؎ ” ہر قوم راست را ہے دینے و قبلہ گاہے “ کسی نے جغرافیائی حدود کو اور کسی نے محض مخصوص خاندانوں میں پیدا ہونے کو وجہ اتحاد قرار دیا۔ اب یہ تمام غیر اختیاری چیزیں بجائے انسانیت کو کسی وحدت پر جمع کرنے کے بہت سے کثرتوں میں بانٹنے کا سبب بن گئیں۔ مگر دین حق نے ہمیشہ اور ہر دور میں خیال وفکر کو توحید و رسالت پر جمع فرمایا اور ظاہری نقطہ اتحاد قبلہ کو قرار دیا۔ جہاں بلا رنگ ونسل اور بلا تفریق قوم وملک سب انسان بیک وقت جمع ہوسکتے ہیں اور دنیا کے کسی گوشے میں بھی ہو وقت نماز سب کا رخ ایک طرف ہوتا ہے۔ جیسے سب کے دل ایک تار میں پروئے گئے ہیں ویسے ہی سب کے چہرے بھی ایک سمت تو ہوں گے اور یہ اختیاری ہے کہ مرد ، عورت ، پڑھا لکھا ، یا ان پڑھ ، گورا یا کالا سب اختیار کرسکتے ہیں اور یہ ظاہری وباطنی اتحاد فکروعمل کا ایک ایسا مرکزی نقطہ ہے جس کے لئے ہر مکتب فکر نے کوشش کی ہے بالکل اسی طرح اسلام نے بھی ایک سمت عطا فرمائی ہے اور اس میں کوئی انوکھی بات نہیں۔ اس بحث میں پڑنا تو وقت کا ضیاع ہے جو گزرہا ہے۔ تم اطاعت الٰہی اور عبادت الٰہی میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر محنت کرو۔ یاد رہے کہ اگر کوئی سمجھنا چاہے تو اس سے بات کرنا تو ضروری ٹھہرا۔ لیکن اگر کوئی محض کج بحثی کرنا چاہے تو اس سے مناظرہ کرنا درست نہیں سوائے اس کے کہ کسی شخص کی باتوں یا اس کے دعو وں سے لوگوں کے گمراہ ہونے کا خطرہ ہو تو اس کا تدارک ضروری ہے کہ سر میدان اس کی سفاہت عیاں ہوجائے اس کام کے لئے اہلیت شرط ہے ، نااہل الٹا دینداروں کو بدنام کرے گا۔ سومحض اپنا سکہ جمانے کے لئے زور دار بحثوں میں نہ پڑو بلکہ یہ زور اللہ کی اطاعت پر صرف کرو۔ اور یہاں ایک دوسرے پر سبقت لے جائو کہ بالآخر تمہیں اللہ ہی کے ہاں جمع ہونا ہے تم جہاں اور جس حال میں ہوگے ، اللہ تمہیں یکجا کرے گا۔ یہ اس کے لئے مشکل نہیں کہ مرنے کے بعد اگر کوئی جل گیا یادرندے کھا گئے یا کسی طرح بھی اس کے اجزاء منتشر ہوگئے تو اس قدر منتشر نہیں ہوسکتے جس قدر پیدا ہونے سے پیشتر تھے کہ روئے زمین کے دانے دانے میں اور ہر شے اور ہر پھل میں کسی نہ کسی جسم کیا جزاء موجود ہیں۔ جو ایک ملک سے دوسرے ملک میں پہنچ کر اس کی غذا بن کر وجود کا حصہ بنتے ہیں اور نطفے سے لے کر مرنے تک اس بدن کی تعمیر شروع رہتی ہے تو مر کر اس قدر نہیں بکھر سکتا جتنا پیدا ہونے سے پہلے تھا۔ سو اللہ کو ہر طرح کی قدرت ہے وہ تم سب کو یکجا فرمائے گا بجائے دنیاوی وقار کے اخروی زندگی تلاش کرو۔ ومن حیث خرجت…………………بغافل عما تعلمون۔ آپ کہیں بھی ہوں ، سفر پر بھی نکلیں تو وقت نماز روخ مسجد حرام کی طرف رکھا کریں۔ یعنی سفر وحضر میں ہمیشہ کے لئے مسلمانوں کا قبلہ یہی ہے اور یہ دین اسلام اور اس کے جملہ احکام حق ہیں آپ ﷺ کے پروردگار کی طرف سے یعنی عبادات کوئی محض رسوم نہیں ہیں جیسے مذاہب باطلہ ، کہ ان کی عبادات رسوم سے زیادہ کچھ نہیں ، مگر اسلامی عبادات اللہ کی ربوبیت کا مظہر ہیں۔ جس طرح جسم کی تعمیر کے لئے اس کی ربوبیت نے طرح طرح کے پھل میوے اور غذائیں پیدا فرمائی ہیں۔ اسی طرح روح کی تعمیر کے لئے عبادات اغذ یہ ہیں جیسے تمام غذائوں میں غلہ اور پانی بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اسی طرح روح کی غذائوں میں فرائض کی حیثیت ہے اور ان کے بغیر روح زندہ نہیں رہ سکتی سنن ونوافل ان کی زینت کا سبب ہیں۔ جیسے لوگ محض غلہ نہیں پھانکتے بلکہ طرح طرح کی مزیدار ڈشیں بناتے ہیں۔ اسی طرح فرائض کے ساتھ سنن ونوافل مل کر روح کے لئے لذیذ غذا بنتے ہیں۔ ظاہری میں تو غریب ترین آدمی بھی محض دانے نہیں چباتا اس کی روٹی تو بناتا ہی ہے گھر پر میسر نہ ہو تو لسی مانگ کرلے آتا ہے اور زیادہ نہ کرسکے تو چٹنی اچار تو بنا ہی لیتا ہے اس طرف یہ حال ہے تو ادھر غفلت کیوں ؟ وہ بھی تو تمہارے رب کی طرف سے ہے یعنی مظہر ربوبیت ہے عبادات وہی مظہر ربوبیت ہوں گی جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے ہوں۔ یہاں ایجاد سے کام نہیں چل سکے گا کہ یہ دین حق آپ ﷺ کے رب کی طرف سے ہے۔ اب یہاں گھبراہٹ کی ضرورت بھی نہیں کہ لوگ صبح تک سوتے ہیں ہمیں علی الصبح بیدار ہونا پڑتا ہے یا لوگ تو عیش کرتے ہیں اور ہم پر اخلاقی حدود نافذ ہیں یا لوگ تو کھاتے پیتے ہیں اور ہم روزہ رکھتے ہیں بھئی ! یہ آپ لوگوں کے لئے نہیں کرتے ، یہ اللہ کی اطاعت کرتے ہو جو ہر حال میں تمہارا نگران ہے اور ذاتی طور پر تمہاری کارکردگی کو ملاحظہ فرمارہا ہے۔ جو نہیں کرتے۔ وہ بھی اس سے اوجھل نہیں ہیں اور جو کرتے ہیں ان کے حال سے بھی باخبر ہے کرنے والوں کے دلوں کو سوز بخشتا ہے اور ترک فرائض پہ روحانی موت مرتب ہورہی ہے۔ یہ روزانہ نئے مذاہب کی ایجاد اسی بات کی غماض ہے۔ سو آپ جس طرف بھی نکلیں یہی نقطہ اتحاد ہے وجود ظاہر کے لئے خواہ انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر مسلمان جہاں ہوں جس ملک میں ہوں جس حال میں ہوں فردواحد ہو یا افراد کثیرہ۔ وقت نماز تمہارے چہرے مسجد حرام کی طرف ہوں۔ یہاں یہ بھی ظاہر ہوا کہ مسلمان جس حال میں بھی ہو ادائے فرض میں کوتاہی نہ کرے اور نہ مبتلائے بدعات ہو بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کو پوری طرح بجا لائے نہ اس کی سمت بدلے اور نہ افکار میں افتراق پیدا ہو۔ نیز یہ بھی کہ تم فرائض ہی چھوڑ بیٹھو جس طرح تم مذاہب باطلہ کو محض رسومات کا پلندہ کہتے ہو لوگ تمہارے طرز عمل سے دین کی حقانیت پر طنزکریں کہ اسلام اگر واقعی دین ہے اللہ کا حکم ہے یا حضور ﷺ برحق نبی ہیں تو پھر ان کے ماننے والے ان کی اطاعت کیوں نہیں کرتے اور فرائض تک کی پرواہ نہیں کرتے تو گویا یہ اس بات کا اظہار ہے کہ معاذ اللہ یہ بھی محض ایک فرقہ بندی کے سوا کچھ نہیں یا تم روزمرہ کے امور میں محض لوگوں کے طعنوں سے بچنے کے لئے ارکان دین کی پرواہ نہ کرو۔ اور غیر شرعی رواجات میں مبتلا ہوجائو تو گویا تم نے سمت بدل لی۔ ترسم کہ نہ رسی بکعبہ اے اعرابی ایں راہ کہ می روی بتر کستان است کا مصداق بن گئے اول تو اسلامی اقدار ہی اعلیٰ ترین اقدار ہیں اور اگر کافر بھی ہو تو ان اقدار پر طنز نہیں کرے گا۔ مثلاً سچ بولنا ، جائز طریقے سے پیسہ کمانا ، بدکاری نہ کرنا ، بدکلامی سے اجتناب ، اللہ کی عبادت کرنا یہ سب ایسے امور ہیں کہ سوائے سخت بےانصاف اور ظالم لوگوں کے ان پر کوئی طعن نہ کرے گا۔ اب کوئی طبقہ عام انسانی اقدار کو بھی پامال کرے جھوٹ کو عبادت اور بدکلامی کو قرب الٰہی کا ذریعہ سمجھ بیٹھے یا خیانت اور بدکاری کو طاعت کا درجہ دے دے تو ایسے ظالم اگر ارکان اسلام پر اعتراض کریں بھی تو ان کی پرواہ ہرگز نہ کی جائے کہ ان کا تو معیار ہی الٹ گیا۔ اور عبادات کے لئے معیار ایک ہی ہے کہ اللہ کی خشیت دل میں ہو اور بس ۔ صرف یہ سامنے رہے کہ ترک عبادت سے اللہ کی ناراضگی کا وبال آئے گا۔ اور اس کی عظمت کے پیش نظر خلوص دل سے اس کی عبادت کرے۔ واخسونی یعنی مجھ سے ، میری ناراضگی سے لرزاں وترساں رہو۔ تمہیں غیر کا کیا اندیشہ ۔ اگر یہ نعمت تم نے پالی تو میری نعمتوں کا دروازہ تم پر کھل گیا اور یہ خشیت اسی لئے اپنائو کہ میں اپنی نعمتیں تم پر تمام کردوں اور تم سیدھی راہ پانے والے ہوجائے تم حق شناس اور حق گو قرار پائو۔ دو عالم کی بھلائی تمہارے حصہ میں آئے جس طرح میں نے تم پر انعام کیا ہے اور بہت بڑا انعام کیا ہے کہ۔ کما ارسلنا فیکم…………………مالم تکونوا تعلمون۔ کہ تم میں ایک عظیم رسول تم ہی میں سے مبعوث فرمایا۔ ایک انعام تو یہ کہ تم میں رسول اللہ ﷺ کو مبعوث فرمایا اور دوسرا یہ کہ آپ ﷺ کو تم ہی میں سے یعنی نوع انسانی سے پیدا فرما کر انسانیت کو زینت بخشی کہ اگر نبوت کسی اور مخلوق کو ملتی تو اشراف المخلوقات وہی ہوتی ۔ انسان نہ ہوتا کیونکہ مخلوق کے لئے سب سے اعلیٰ درجہ اور انتہائی مقام نبوت ہے۔ باقی تمام کمالات اس کے بعد ہیں تو انبیاء کا نوع انسانی میں سے ہونا انسانیت کے لئے باعث فخر ہے۔ بعض نادان بشریت انبیاء کا سرے سے انکار کردیتے ہیں یہ ایک طرح سے نبوت ہی کا انکار ہے۔ ہاں ! یہ تمیز ضرور رہے کہ نبی بھی بشر تو ہوتے ہیں مگر ماوشما کی طرح نہیں بلکہ بشریت کی انتہائی بلندی اور پر اور نوع بشر کے لئے نمونہ ہوتے ہیں خصوصاً امام الانبیاء حضرت محمد ﷺ کہ آپ ﷺ منازل قرب کی ان بلندیوں پر فائز ہیں جو صرف آپ ﷺ کا حصہ ہیں اور ساری کائنات کے لئے آپ ﷺ کا اتباع لازمی۔ حتیٰ کہ اگر انبیاء میں سے کوئی ہستی دوبارہ اس عالم آب وگل میں تشریف لائیں گے تو باوجود اس کے کہ خود صاحب کتاب رسول ہیں عمل حضور ﷺ کے احکام پہ کریں گے ، سو میرے نبی ﷺ کے ذریعے تمہیں کس قدر نعمتیں ملی ہیں کہ تم پر آیات الٰہی کی تلاوت کرتے اور اللہ کریم کا ذاتی کلام کر دیا ہم سخن بندوں کو اللہ سے تو نے کہ تم سوال کرتے ہو تو اللہ کی طرف سے جواب آتا ہے تم کو پوری زندگی کا نظام اللہ کی طرف سے تعلیم کیا جاتا ہے اور جو بھی اس کی تعلیمات کو قبول کرتا ہے اسے پاک کردیتا ہے فکروخیال ، عقیدہ و اعمال ، ظاہروباطن ہر شرح سے اس کی ایسی صفائی فرماتا ہے کہ اس کے اس کمال کو اللہ اپنی عظیم رحمت کے طور پر سارے انسانوں کے سامنے فرما رہے ہیں۔ گویا ایسا پاک کرتا ہے معمولی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ ہاں واقعی ان لوگوں کو کسی کی صحبت نصیب ہوئی ہے اور تمہیں کتاب اللہ کی اور حکمت و دانائی یعنی ارشادات رسول ﷺ کی تعلیم دیتا ہے۔ گویا تعلیم کتاب و حکمت کا مدار تزکیہ پر ہے اگر یہ نعمت نصیب نہ ہوئی تو حقیقی علم یا علم نافع نصیب نہ ہوگا۔ حصول تزکیہ : اب یہ تزکیہ کس طرح حاصل ہوتا تھا۔ صرف نگاہ مصطفیٰ ﷺ سے اور صحبت نبوی ﷺ سے۔ خواہ وہ بالکل تھوڑی دیر کے لئے ہو کہ صفائی باطن سے ولایت خاصہ نصیب ہوتی ہے اور اگر سارے جہاں کے ولی جمع کئے جائیں تو صحابی نہیں بن سکتا بلکہ اس کی گرد پایہ سب نثار ہیں اور نبی کریم ﷺ کی صحبت کا کمال یہ ہے کہ ایک آن میں درجہ صحابیت پر فائز کردیتی ہے۔ آپ ﷺ سے دو طرح کا فیض نصیب ہوتا ہے ایک علم ظاہر کہ اقوال وافعال رسول ﷺ کا مرقع ہے قرآن وحدیث اور فقہ سب اسی قبیل سے ہیں اور فیض صحبت کہ انعکاسی طور پر مجلس میں حاضر ہونے والوں کو نصیب ہوتا اور مس خام کو کندن بناتا ہے۔ دلوں کو روشن اور سینوں کو منور کرتا ہے اور استقامت علی الحق کی استعداد پیدا کرتا ہے اور پہلی قسم کے فیض کی بنیاد بھی یہی فیض صحبت بنتا ہے ورنہ صرف ونحو اور جملوں کی اقسام تو ذہن نشین ہوجاتی ہیں۔ ان پر حقیقی فائدہ مرتب نہیں ہوتا۔ کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ علماء باہم دست و گریبان ہیں اور غضب یہ ہے کہ ایک مسجد والے دوسری مسجد والوں پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں کبھی علماء کافروں کو اسلام کی طرف راغب کرتے تھے اور آج جگہ جگہ کفر سازی کا کام جاری ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تزکیہ قلوب نصیب نہیں سو دین بھی قسمت میں نہیں بلکہ محض اپنے وقار کے لئے جنگ جاری ہے الا ماشاء اللہ۔ صرف وہ حضرات اس مصیبت سے بچے ہوئے ہیں جو تزکیہ باطن کی طرف بھی کوشاں ہیں کہ یہی دین کی بنیاد ہے اب اگر یہ کہا جائے کہ آج کل مشکل ہے تو درست نہ ہوگا کہ فیضان نبوی ﷺ تو قیامت تک آنے والی انسانیت کے لئے عام ہے اور تعلیمات نبوی ﷺ قرآن وحدیث ہر ملک میں ہر دور میں دستیاب ہیں حالانکہ ان میں تو تحریف اور ملاوٹ کا اندیشہ بھی ہوسکتا تھا مگر اللہ نے ایسا اہتمام فرمایا کہ الفاظ قرآنی کو سینوں میں جگہ دی اور حفاظت حدیث کے لئے اپنے پسندیدہ بندے پیدا فرماتے جنہوں نے حق و باطل کو علیحدہ کردیا اور کفر کی ہزار کوششوں کے باوجود یہ علم محفوظ رہے تو تزکیہ ، جو ایک باطنی کیفیت کا نام ہے جس میں نہ تحریف کا ڈر ، نہ ملاوٹ کا اندیشہ ، وہ کیونکر ضائع ہوگیا اور اگر خدانخواستہ ایسا ہوگیا تو پھر دین کہاں رہا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے امین کامیاب ہیں یہ ہمیشہ ہوتا ہے وقلیل ھن عبادی الشکور۔ تھوڑے تو ہوسکتے ہیں ختم نہیں ہوسکتے کہ انہیں حفاظت باری حاصل ہے اور یہی دنیا کے قیام کا سبب ہے۔ جب ختم ہوں گے تو سب ختم ہوجائے گا اور قیامت قائم ہوگی۔ یہ عمل انعکاسی اور القائی ہے حضور ﷺ سے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے ، ان سے تابعین نے ، ان سے تبع تابعین نے اور ان سے اولیائے امت نے حاصل کیا یہ تمام مسلمانوں کی امانت ہے اور تمام مرد وزن کو چاہیے کہ اس نعمت عظمیٰ کو حاصل کرنے کی سعی کریں کہ ربط قرآنی میں سے کے بعد تعلیم کتاب و حکمت ہے نیز تعلیم کتاب بھی آپ ﷺ کا منصب ہے۔ لہٰذا قرآن کے معنی بھی وہی معتبر ہوں گے جو آپ ﷺ نے ارشاد فرمائے اور جن پر آپ ﷺ کے سامنے عمل ہوا۔ آیات نازل ہوئیں تو عربی النسل اور عربی زبان میں ماہر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان کا مفہوم حضور ﷺ سے سمجھا۔ پھر آپ ﷺ کے سامنے اس پر عمل کرکے قبولیت کی سند حاصل کی۔ آج کوئی مفہوم جو قول رسول ﷺ اور تعامل صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف ہوگا ، قابل قبول نہ ہوگا۔ اور حکمت و دانائی بھی ارشادات رسول ﷺ کا نام ہے اس سے باہر یا ان ارشادات کے خلاف جہالت تو ہوسکتی ہے دانائی نہیں۔ نیز تمہیں وہ حقائق تعلیم فرمائے جن تک رسائی بجز تعلیم پیغمبر ﷺ ممکن نہ تھی کہ دنیا کے سارے علوم پیدائش سے لے کر موت تک بات کرتے ہیں اس سے آگے کی جرات نہیں رکھتے مگر عالم بالا کی حقیقتیں اور برزخ کے حالات ، جنت و دوزخ یا حساب وکتاب یہ سب حقیقتیں آپ ﷺ نے تم تک پہنچائی ہیں اور خاک نشینوں کو عرش آشنا کردیا ہے اور تم ایسے منعم حقیقی کو ہمیشہ یاد کرتے رہو۔ ذکر الٰہی کی برکات : ذکر کا مفہوم اصلی یاد ہے اور یہ قلب کا فعل ہے زبان سے یاد کرنے کو محض اس لئے ذکر کہہ دیا جاتا کہ زبان دل کی ترجمان ہے لیکن بعض اوقات یہ اداکاری بھی کرجاتی ہے دل میں اور ہوتا ہے ، یہ اور کہتی ہے یہی نفاق ہے اسی طرح بدن کے تمام وہ اعمال جو حدود شرعی کے اندر ہیں ذکر شمار ہوں گے کہ دل میں اللہ کی یاد تھی۔ تب اطاعت کی لیکن اگر اس میں بھی اداکاری ہوتی اور دل کی مطابقت نصیب نہ ہوئی تو منافقت کا وبال سر پر اور اگر دل نے ساتھ دیا تو یہ عملی ذکر اور لسانی ذکر ، مگر ذکر حقیقی وہی ہوگا جو دل کا ہوگا اور دل کو ذکر صاحب دل کی مجلس وصحبت سے انعکاسی والقائی طور پر نصیب ہوگا۔ یہ وہ ضرورت ہے جس سے کسی کو استثناء نہیں ہر مردوزن اور تمام مسلمانوں کی ضرورت ہے یہی نیکوں کے لئے ترقی درجات اور بدکاروں کے لئے توبہ وانابت کا سبب ہے نہ یہ وراثت ہے نہ رنگ ونسل پر مدار رکھتی ہے بلکہ ہر مسلمان کو حاصل کا حق ہے بلکہ سب پر واجب ہے ۔ کہ اس کے لئے کوشش کریں اور دلوں کو اللہ کے مبارک نام سے روشن کریں ایسے کاملین کو تلاش کریں جو اس دولت کے امین ہوں جو حضور ﷺ کے حقیقی وارث ہوں اور ان کی صحبت کو غنیمت جانیں۔ آج تک تو سب علماء بھی سند فراغت پانے کے بعد ان حضرات کی جستجو کرتے اور اس دولت کو پانے کے لئے سعی بلیغ فرماتے تھے تقریباً سوانح میں یہ قدر مشترک ہے مگر اس دور کی مصیبت یہ ہے کہ اول تو علم ظاہر بھی اٹھ رہا ہے جہان سے کوئی تشریف لے جاتا ہے۔ اس کا بدل ملنا مشکل ہوجاتا ہے رواج یہ ہے کہ چند سطور یاد کیں اور تقریریں کرنے چل نکلے پھر اس پر طرہ یہ کہ ذکر قلبی اور اس کے حصول کی تردید فرمانے لگے۔ بہ ببین تفاوت راہ از کجا ست تابکجا اذکرکم۔ تم محتاج ہو ، تم مجھے احتیاج سے یاد کرو گے میں بےنیاز اور منعم ہوں ، میں تمہیں اپنی عطاء سے یاد کروں گا۔ اور اس طرح تم پر ہمیشہ انعامات باری کا دروا رہے گا۔ یاد رہے کہ ساری مخلوق ہمیشہ اللہ کی عطا کی احتیاج رکھتی ہے اور عطائے باری کا سبب ہے ذکر الٰہی۔ اسی لئے انبیاء کرام کو بھی ذکر الٰہی کی تاکید فرمائی گئی ہے حتیٰ کو خود حضور ﷺ کو حکم دیا گیا۔ واذکراسم ربک یعنی اپنے پروردگار کے اہم ذاتی کو دل میں بسا لیں ہر دھڑکن اللہ کہتی رہے اس کے ساتھ صفت ربوبیت کا اظہار ہے اسم ربک یعنی آپ ﷺ کی دائمی ترقی کے لئے رب کے نام کی دائمی یاد بھی ضروری حیرت ہے ان لوگوں پر جو اپنے کو اس ضرورت سے فارغ جانتے ہیں۔ اللہ سب کو صحیح سمجھ عطا فرمائے ، آمین ! دل کی یاد ہی حقیقی شکر ہے محسن کو دل میں بسا لینا ہی اس کے احسانات پر اظہار ممنونیت ہے اور یادرکھو عاجز ہو کر بےنیاز سے کفر نہ کرو۔ یہاں چونکہ کفر شکر کے مقابلے پر لایا گیا ہے اس لئے اس کا ترجمہ ناشکری کیا جاتا ہے لیکن اگر ذرا غور کیا جائے تو بات ناشکری سے بڑھ کر کفر تک پہنچ جاتی ہے۔ کہ ذکر نام ہے دل کی یاد کا۔ اب مسلمان ہونے کے لئے جہاں زبانی اقرار کی ضرورت ہے وہاں تصدیق قلبی ضروری ہے اور اگر قلب تصدیق بھی کرتا ہے تو کسی نہ کسی درجہ میں ذاکر ہے اگر ذکر بالکل ہی اٹھ جائے تو گویا تصدیق قلبی بھی رخصت ہوئی تو یہ حقیقی کفر بن جائے گا۔ فرمایا۔ میرا نام دلوں سے مت مٹنے دو ! ورنہ کفر کی زد میں آجائے گا۔
Top