Asrar-ut-Tanzil - Al-Israa : 94
وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْۤا اِذْ جَآءَهُمُ الْهُدٰۤى اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْۤا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا
وَمَا : اور نہیں مَنَعَ : روکا النَّاسَ : لوگ (جمع) اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا : کہ وہ ایمان لائیں اِذْ : جب جَآءَهُمُ : ان کے پاس آگئی الْهُدٰٓى : ہدایت اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَبَعَثَ : کیا بھیجا اللّٰهُ : اللہ بَشَرًا : ایک بشر رَّسُوْلًا : رسول
اور لوگوں کو ایمان لانے سے کس چیز نے روکا جب ان کے پاس ہدایت پہنچ گئی سوائے اس کے کہ کہنے لگے کیا اللہ نے آدمی کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے
(رکوع نمبر 11) اسرارومعارف انہیں آپ ﷺ کو اللہ کا رسول ماننے میں ہی رکاوٹ پیش آ رہی ہے کہ کیا اللہ جل جلالہ نے بشر کو ایک انسان کو اپنا رسول بنایا ہے یعنی ان کے خیال میں جو انسان کھاتا پیتا ہے ، سوتا جاگتا ہے گرمی سردی محسوس کرتا ہے اس کے بیوی بچے ، گھر بار اور خاندان ہے تو گویا سارے احوال میں ایسا ہی ہے ، جیسے ہم لوگ ہیں ، تو بھلا اسے اللہ کا رسول کیونکر مان لیں ، اللہ جل جلالہ تو ہمارے سامنے آنے سے رہا تو پھر اللہ جل جلالہ کا حکم اس کے رسول سے ہی ملے گا تو گویا اللہ کے نام پر بھی اقتدار تو رسول اللہ کے ہاتھ میں چلا گیا تو ہم ایسا کیوں ہونے دیں گے ہاں کوئی فرشتہ ہوتا جو عام اوصاف میں ہم سے بہت بڑھ کر ہوتا تو بات بھی تھی ، اس جاہلانہ سوچ اور محض اقتدار کی ہوس کے لیے مختلف حیلوں کا جواب بھی بہت خوبصورت انداز میں ارشاد ہوا ، بغیر غصہ کئے بغیر کسی طنز کے فرمایا ٹھیک ہے فرشتہ بھی رسول ہو سکتا تھا لیکن اس صورت میں جب زمین پر بھی فرشتے آباد ہوتے اور انسانوں کی طرح اس عالم آب وگل میں مکلف زندگی گزارتے انہیں ایسی ہی ضرورتیں لگائی جاتیں پھر ان کی تکمیل کے اسباب وذرائع کائنات میں پیدا کئے جاتے تو ان کو اپنانے یا اختیار کرنے کے طریقوں پر اللہ کی رضا مندی کا مدار ہوتا تو یقینا ان کی طرف رسول بھی فرشتوں ہی کو بنایا جاتا مگر اب جبکہ زمین پہ انسان بستے ہیں تو رسول بھی یقینا انسان ہی ہوگا جسے ویسی ہی سب ضرورتیں درپیش ہوں اور ان میں اطاعت الہی اختیار کرکے ثابت کرے کہ انسانی فلاح اسی میں ہے اور یہ سب ممکن ہے ، اتباع شریعت محال نہیں ۔ (نبی اور ولی انسان ہوتے ہیں ، اور عام انسانی زندگی گذارتے ہیں) اس آیہ کریمہ میں موجودہ دور کی بدعات کا رد بھی آگیا کہ نبی ﷺ کی بشریت کا انکار کیا جاتا ہے حالانکہ عظمت نبوت میں یہ ہے کہ تمام انسانی ضرورتوں کے باوجود انہیں اللہ جل جلالہ کے ناپسندیدہ طریقے سے پورا نہیں فرماتا اور یہی کمال ولایت ہے کہ ولی اللہ دنیا کے معاملات کو اللہ جل جلالہ اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق اور بحسن و خوبی ادا کرتا ہے نہ آج کے دور کی خرافات کی مانند کہ ولی کا کوئی گھر گھاٹ نہ ہو جنگل میں پایا جائے ، کھاتا پیتا نہ ہو وغیرہ ذالک من الخرافات۔ فرما دیجئے کہ اب ان سب دلائل عقلی اور نقلی کے ساتھ بیشمار معجزات اور اللہ جل جلالہ کی کتاب کے باوجود اگر تم قبول کرنے کو تیار نہیں تو پھر میرے اور تمہارے درمیان اللہ جل جلالہ ہی گواہ ہے جو میری محنت و کوشش سے بھی واقف ہے تمہارے انکار پہ اصرار کو بھی دیکھ رہا ہے کہ اپنے بندوں اور اپنی مخلوق کے ہر حال سے ہر آن باخبر بھی ہے اور خود بھی ملاحظہ فرما رہا ہے اسے کسی کے بتانے کی احتیاج نہیں ۔ (ہدایت کا مدار) ہدایت بھی اللہ جل جلالہ ہی کی دین ہے اور اس کا مدار بھی اس بات پر ہے کہ کسی کی قلبی حالت کیسی ہے اور کیا اس میں اللہ جل جلالہ کو ماننے کی استعداد جو اسے اللہ جل جلالہ سے ملی تھی باقی ہے ورنہ جس نے گناہ کرکے وہ استعداد ہی کھو دی ہو اسے اللہ جل جلالہ ہدایت نہیں دیتے لہذا ہدایت وہی پا سکتا ہے جسے اللہ جل جلالہ کی طرف سے ہدایت نصیب ہو اور جو اللہ جل جلالہ کی ذات سے ہی اس قدر دوری پہ چلا جائے کہ اللہ جل جلالہ ہی اسے قریب نہ آنے دے تو پھر اللہ کے علاوہ ان کا کوئی مددگار اور معاون نہیں ہو سکتا ، نہ صرف یہ دنیا بلکہ یہ تو آخرت میں بھی اپنے الٹے کردار کے باعث جسمانی طور پر بھی الٹے ہو کر میدان حشر میں آئیں گے اور جیسے آج ہدایت کی راہ سے اندھے بہرے اور گونگے بن رہے ہیں کہ نہ حق دیکھنے کا تکلف کرتے ہیں نہ سننے اور بولنے کا ایسے ہی نجات کی راہ سے اندھے گونگے اور بہرے ہو کر جہنم میں پھینکے جائیں گے جو دم بدم بھڑکائی جاتی رہے گی ، اور جس کی تپش بڑھتی ہی رہے گی کبھی کم نہ ہوگی ، ان کے کفر کی یہی سزا ہے کہ کس دلیری سے کہہ دیتے ہیں کہ جب مر کر ہم گل سڑ جائیں گے تو پھر بھلا کیسے نئے سرے سے تخلیق ہو سکیں گے ۔ کیا یہ زمین وآسمان کے خالق کی عظمت سے بھی غافل ہوگئے کہ جو خالق عدم سے اتنی بڑی کائنات کو وجود میں لانے والا ہے ، وہ ان جیسوں کو بنانے پہ قادر نہیں جن کو پہلے ایک قطرے سے بنا چکا انہیں مٹی گارے سے بھی بنا لے گا اور بلاشبہ اس کام کا وقت مقرر ہوچکا ہے جب وقت آئے گا تو یقینا ایسا ہوگا ۔ مگر ان ظالموں کا ظلم اور بدکرداری ہی ان کے انکار اور ناشکری کا باعث بن گئی ان سے کہئے کہ انسانی مزاج اگر اسے نور ایمان نصیب نہ ہو تو ایسا تنگ ظرف ہے کہ اگر نبوت اور کمالات نبوت کے خزانے اللہ جل جلالہ تمہارے اختیار میں دے دیتا جو کبھی کم نہیں ہوتے مگر تم شاید پھر بھی کسی کو نہ دے سکتے کہ اگر ایمان نصیب ہو تو نبی پر ہی ہوتا ہے اور نور ایمان سے ظرف انسانی میں وہ وسعت آتی ہے کہ اللہ جل جلالہ کے لیے دو عالم سے دست بردار ہو سکتا ہے مگر اس کے بغیر جس حال میں تم ہو اگر تمہیں نور نبوت اور کمالات نبوت کا خزانہ بھی مل جائے تو اس پر سانپ بن کر بیٹھ رہو گے ، اور اپنی تنگ ظرفی کے باعث کسی کو مقرر نہ کر پاؤ گے کہ پھر یہ خیال ویسے ہی تمہیں ستائے گا کہ اگر کسی کو ہمارے مشورہ پر بھی رسالت ملی تو اس کی اطاعت کرنا پڑے گی اور یوں وہ تو بادشاہ بن جائے گا اور ہم کوئی مقام و مرتبہ اس کے مقابل نہ پا سکیں گے ۔ (بیعت توڑنے والوں کا مرض) بیعت کرکے توڑنے والوں کا سبب بھی عموما ان کی ذات میں متکبرانہ خیالات اور ذاتی اقتدار کی طلب ہوتی ہے ، ورنہ تو بغیر واقفیت تو کوئی بیعت نہیں کرتا اور اگر اس کا کردار درست نہ ہو تو بیعت کرنا ہی درست نہیں اب یہ سب دیکھ کر بیعت کرلی تو پھر اپنے ذاتی تکبر پر زد پڑی تو توڑنے کے حیلے سوچے جاتے ہیں ، لہذا بیعت توڑنے والے کبھی بھی بھلے لوگ نہیں ہو سکتے ہمیشہ تنگ نظر اور تنگ ظرف ہوا کرتے ہیں ۔
Top