Asrar-ut-Tanzil - Al-Israa : 71
یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْ١ۚ فَمَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖ فَاُولٰٓئِكَ یَقْرَءُوْنَ كِتٰبَهُمْ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا
يَوْمَ : جس دن نَدْعُوْا : ہم بلائیں گے كُلَّ اُنَاسٍ : تمام لوگ بِاِمَامِهِمْ : ان کے پیشواؤں کے ساتھ فَمَنْ : پس جو اُوْتِيَ : دیا گیا كِتٰبَهٗ : اسکی کتاب بِيَمِيْنِهٖ : اس کے دائیں ہاتھ میں فَاُولٰٓئِكَ : تو وہ لوگ يَقْرَءُوْنَ : پڑھیں گے كِتٰبَهُمْ : اپنا اعمالنامہ وَلَا يُظْلَمُوْنَ : اور نہ وہ ظلم کیے جائیں گے فَتِيْلًا : ایک دھاگے کے برابر
اور جس دن ہم تمام لوگوں کو ان کے پیشواؤں کے ساتھ بلائیں گے تو جن کتاب ان کے داہنے ہاتھ میں دی جائے گی سو وہ (خوش ہوکر) اپنی کتاب (اعمال نامہ) کو پڑھیں گے اور ان پر ذرہ بھر زیادتی نہ کی جائے گی
(رکوع نمبر 8) اسرارومعارف اب اگر یہ برائی کرتا ہے یا شیطان کی پیروی کرتا ہے تو آخر ایک روز ہر انسان کو اس کے نامہ اعمال سمیت بلایا جائے گا اور میدان حشر میں اکٹھا کیا جائے گا ۔ (امام) کہ امام سے مراد اعمالنامہ ہے کہ حدیث شریف میں یہ معنی بھی وارد ہے اور امام بمعنی پیشوا ومقتدا بھی مراد ہے کہ جیسے انبیاء کرام (علیہ السلام) کو ماننے والے یا ان کے نائبین مشائخ وعلماء کے پیچھے چلنے والے اور دوسرے شیطان کے پیروکار تو گویا دنیا میں جو عمل اور کردار ہے یا جس کی پیروی کرتا ہے ، اسی کے گروہ یا طبقے میں اٹھایا جائے گا کہ امام کا معنی مطلق پیشوا ہے نیک ہو بد مومن ہو یا کافر کہ امامت نبوت کی طرح کوئی شرعی منصب نہیں ، خود کتاب اللہ میں کفار کے پیشواؤں کو آئمۃ الکفر کہا گیا ہے تو حاضری پر جب اعمالنامے تقسیم ہوں گے تو مومن کو دائیں ہاتھ میں تھما دیا جائے گا نیک ہو یا گناہگار مگر کفر اور ابدی عذاب سے تو بچ گیا لہذا خوش ہو کر اپنا اعمالنامہ پڑھے گا اور کسی پر معمولی زیادتی بھی نہ کی جائے گی ، جبکہ کفار کو بالعکس یعنی بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا جس پر وہ نجات سے ناامید ہوجائیں گے ۔ مگر جو یہاں اندھا پن اختیار کئے رہا اور راہ ہدایت کو نہ پا سکا اسے بھلا وہاں نجات کا راستہ کیسے ملے گا ، جیسے یہاں اندھا تھا وہاں بھی ہوگا اور جیسے یہاں گمراہ تھا وہاں بھی نجات کی راہ سے بھٹک جائے گا ۔ (کفار ومشرکین کی دوستی) یہ بدبخت نہ صرف خود بھٹکے ہوئے ہیں بلکہ جس سے دوستی کرتے ہیں اس کو بھی راہ سے ہٹا دیتے ہیں حتی کہ یہ آپ کو بھی احکام الہی کے خلاف کرنے پر اکسانا چاہتے تھے بلکہ پوری کوشش کرچکے ہیں کہ اگر آپ ایسا کریں تو ہم بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کریں ۔ (مشرکین اور کفار سے دوستی کے لیے مسلمانوں کی حمایت سے دستبردار ہونا) مشرکین مکہ کے سرداروں نے خدمت عالی میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ ہم سب کی طرف مبعوث ہوئے ہیں تو ہمارے لیے بھی موقع پیدا فرمائیں کہ ہم آپ کی خدمت میں بیٹھ کر ارشادات تو سن سکیں اور آپ جانتے ہیں کہ شہر کے فقراء کے ساتھ ہم نہیں بیٹھ سکتے تو آپ ان غریب مسلمانوں کو مجلس سے اٹھا دیا کریں اس پر یہ آیہ مبارک نازل ہوئی کہ یہ آپ سے اللہ کی وحی کے خلاف کروانا چاہتے ہیں ، اور مسلمان سے الگ ہونے کی شرط پر کفار سے دوستی گویا اللہ جل جلالہ کے حکم کی صریح خلاف ورزی ہے اور جب یہ عمل آپ سے صادر ہوتا تو اس کا معنی تھا کہ اللہ جل جلالہ کا حکم ہی ایسا ہے کہ نبی تو اللہ جل جلالہ کے حکم کے خلاف نہیں کرتا تو اتنے بڑے نقصان کے عوض دوستی اور وہ بھی کافر کی جو بہرحال دشمنی ہی ہوتی ہے ۔ اگر آپ کو عصمت نبوت عطا فرما کر ثابت قدم نہ کردیا جاتا تو ممکن ہے کہ کسی قدر آپ کا میلان ان کی بات کی طرف ہوجاتا یہ شان رسالت ﷺ ہے کہ عصمت نبوت نے تو اللہ جل جلالہ کے حکم کی خلاف ورزی کا امکان ہی ختم کردیا اس کے بغیر بھی نبی کا وجود تخلیقی طور پر اتنا پاکیزہ ہوتا ہے اور مزاج اتنا صالح ہوتا ہے کہ اللہ جل جلالہ کے حکم اور پسند کے خلاف جانا طبعا گوارا نہیں کرتا یعنی پھر بھی صرف یہ امکان تھا کہ کسی قدر آپ کا میلان اس طرف ہوجاتا ۔ (مسلمانوں کی ذلت یا مخالفت پر کفار کی دوستی خریدنے کی سزا) اور اگر آپ ایسا کرتے جو نہ آپ ﷺ نے کہا اور نہ اس کا آپ ﷺ سے امکان ہی تھا ، مگر آپ ﷺ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمانے سے مراد ہے کہ پھر دنیا میں کوئی دوسرا ایسا نہیں جو یہ عمل کرکے اس سزا سے بچ سکے کہ ایسا کرنے والے کو ہم دوگنا عذاب اس دنیا میں بھی دیتے اور بعد موت برزخ اور آخرت میں بھی اس کے عذاب کو دوگنا کردیتے اور اسے ہمارے مقابل کوئی مددگار بھی نصیب نہیں ہوسکتا ، اب اس ارشاد باری کی روشنی میں ان قوموں ، ملکوں اور حکمرانوں کو دیکھا جائے جو امریکہ اور یورپ کے کفار کی دوستی کے بدلے مسلمانوں سے بےاعتنائی برتتے ہیں کہ یہ کتنا بڑا ظلم ہے اور سب کو ہدایت دے ۔ بلکہ کفار تو آپ کو شہر بدر کرنے کے درپے تھے پھر دوستی کیسی کہ دنیاوی اعتبار سے بھی ان کے باطن میں تو محض آپ کو خدام سے محروم کرکے شہر سے نکلنے پر مجبور کرنا تھا ، مگر اللہ جل جلالہ کا قانون یہ ہے کہ جو لوگ اس کے نبیوں کو اپنی سرزمین سے نکال دیتے ہیں پھر وہ بھی وہاں سکھ کا سانس نہیں لے سکتے اور نہ رہ سکتے ہیں ، لہذا اگر یہ ایسا کرتے تو انہیں بھی نتیجہ بھگتنا پڑتا کہ آپ سے پہلے نبیوں اور رسولوں کو جن اقوام نے نکال دیا وہ اسی ضابطہ کے تحت تباہ ہوگئیں کہ یہی سنت اللہ ہے اور سنت اللہ میں کبھی تفاوت نہیں ہوتا ، چناچہ اہل مکہ نے بھی یہ کر کے دیکھ لیا ، آپ ﷺ کو ہجرت پہ مجبور کیا مگر آپ ﷺ کے بعد ایک لمحہ آرام نہ پا سکے ، جنگوں میں ذلیل اور تباہ ہوئے قحط کا شکار ہوئے اور بالآخر مکہ سے ہاتھ دھو بیٹھے اور آٹھ ہجری میں مکہ مکرمہ فتح ہوگیا ، یہی حال ان افراد کا ہوتا ہے جو سنت نبوی ﷺ کو اپنی ذات یا اپنے عمل سے خارج کردیتے ہیں ، کہ پھر دو عالم میں تباہی ان کا مقدر بن جاتی ہے ، لہذا دنیا کے امن اور آبرو کے لیے بھی شہروں یا قوموں میں نبی کو وجود اور اتباع ضروری ہے تو افراد میں بھی اطاعت نبوت کا عنصر عزت وآبرو کی بنیاد ہے ۔
Top