Asrar-ut-Tanzil - Al-Israa : 61
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ قَالَ ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًاۚ
وَاِذْ : اور جب قُلْنَا : ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں سے اسْجُدُوْا : تم سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْٓا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّآ : سوائے اِبْلِيْسَ : ابلیس قَالَ : اس نے کہا ءَاَسْجُدُ : کیا میں سجدہ کروں لِمَنْ : اس کو جسے خَلَقْتَ : تونے پیدا کیا طِيْنًا : مٹی سے
اور جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے (نہ کیا اور) کہا کیا میں ایسے شخص کو سجدہ کروں جس کو آپ نے مٹی سے پیدا فرمایا ؟
(رکوع نمبر 7) اسرارومعارف آج جو تکبر انہوں نے اختیار کیا ہے یہ شیطان نے کیا تھا اور گمراہ ہوا یہ لوگ بھی اس کی باتوں میں آگئے اس کا واقعہ یہ ہوا کہ جب ہم نے سب فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کریں تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے جو انہیں میں موجود تھا اور اسے بھی یہ حکم شامل تھا مگر وہ کہنے لگا بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جسے تو نے اے اللہ مٹی سے پیدا کیا ہے میں اس کے سامنے سجدہ کروں یعنی خود کو اس سے بڑا سمجھا اور اسی تکبر میں اللہ جل جلالہ کے حکم کو بھی ماننے سے انکار کردیا ، بلکہ دل کی بات زبان پر لے آیا اور کہنے لگا کہ آپ نے اس شخص کو مجھ پر فضیلت دے دی ، یعنی یہ تو ابھی بنا اور مجھے سجدے کرتے اور عبادت کرتے عرصہ بیت گیا پھر بھلا اسے مجھ پر فضیلت دینا کیسے درست ہو سکتا ہے گویا اللہ کی تقسیم پر معترض ہوا جیسے انہیں اس بات پر اعتراض ہے کہ اللہ جل جلالہ نے آپ ﷺ کو نبوت سے کیوں سرفراز فرمایا ۔ کہنے لگا کہ اے اللہ اگر مجھے روز قیامت تک زندگی اور مہلت دی جائے تو میں اس کی نسل اور اولاد سے مقابلہ کروں گا اور انہیں گمراہ کروں گا ہاں اگر تھوڑے بہت بچ جائیں تو الگ بات ہے ورنہ میں ان سب سے تیرا در چھڑا کر انہیں اپنے آگے جھکا لوں گا ، تو ارشاد ہوا جا اور یہ بھی کر کے دیکھ لے مگر سن لے کہ جو کوئی تیری بات مانے گا اور انسانی عظمت کھو کر تیری غلامی کرے گا وہ تمہارے سمیت جہنم میں جائے گا اور اس ظلم کی پوری پوری سزا پائے گا ، تجھے افسوس نہ رہنا چاہئے اپنے سوار اور پیادے یعنی لاؤ لشکر سمیت ان پر چڑھائی کر دے ، انہیں اپنی آواز سے گمراہ کرنے کی سعی کر اور ان کے مال میں شراکت کرلے ان کی اولادوں میں حصہ داری بنا لے اور انہیں جھوٹے وعدوں سے بہلا پھسلا کر گمراہ کرنے کی کوشش کر واقعی شیطان اپنے ماننے والوں سے جو وعدہ کرتا ہے وہ محض دھوکا اور فریب ہوتا ہے ۔ (شیطان کی آواز اور لاؤ لشکر کیا ہے) صاحب تفسیر قرطبی (رح) فرماتے ہیں حضرت ابن عباس ؓ کا ارشاد ہے کہ گانا بجانا اور گانے بجانے کے آلات یعنی مزا میر ہی شیطان کی صوت ہیں اسی لیے یہ سب شرعا حرام ہے اگرچہ جدید تہذیب میں اسے روح کی غذا کا نام دیا گیا ہے مگر یہ روح کے لیے زہر قاتل ہے اور جو ایسا کہتے ہیں وہ روح کے بارے کچھ نہیں جانتے بلکہ یہ سرتال نفس انسانی کے سفلی جذبات کو بھڑکانے کا سبب بنتے ہیں ، اور یہ جدید دانشور اسی نفس کو روح کا نام دے کر جذبات کو ابھارنے والی آواز کو اس کی غذا قرار دے رہی ہیں حالانکہ روح کو غذا ملے تو انسان جذبات سے مغلوب نہیں ہوتا بلکہ جذبات پر قابو پانے کی صلاحیت حاصل کرتا ہے ، اللہ جل جلالہ معاف کرے جہلانے مزامیر اور گانے بجانے کو قوالی شریف کہہ کر مذہبی تقدس بھی دے دیا ہے جو بہت بڑی زیادتی ہے ۔ اور شیطان کے سوار اور پیادے سے مراد تو اس کے ماننے والوں کے لشکر ہیں جن میں اس کی اولاد اس کے پیروکار جن اور اس کے متبعین انسان سب شامل ہیں ، آج کے لشکر تو اقوام مغرب ہیں جو محض چند ٹکوں کا فائدہ حاصل کرنے کے لیے ممالک اور اقوام کو جنگ کی ہولناکیوں میں دھکیل دیتے ہیں ۔ (مال اور اولاد میں شیطان کی شراکت) جو مال بھی ناجائز ذرائع سے جمع کیا جائے اس میں ابلیس کی شراکت واضح کہ اس کے کہنے پر خرچ کیا گیا ۔ ایسے ہی حصول اولاد کے لیے غیر شرعی طریقے اختیار کرنا یا غیر شرعی رسومات ادا کرنا یا ناجائز اولاد کا ہونا شیطان کی شراکت ہے ، اور یہ ناجائز ذرائع اختیار کرنا یا مشرکانہ رسومات کیسے درست ہو سکتی ہیں جبکہ سب اختیار اللہ کو ہے جس نے تمہارے لیے سمندروں پر جہازوں میں سواری کرنا آسان بنا دیا تاکہ تم اپنے رزق کے ذرائع پیدا کرسکو وہ تو تم پر حد درجہ مہربان ہے کہ تمہیں ان امور کی عقل اور قوت کار عطا کی اور خود تمہارا عمل گواہ ہے کہ سمندر میں جب کبھی تمہیں طوفان آگھیریں تو تم اپنے فرض کردہ باطل معبودوں کو بھول جاتے ہو اور صرف اللہ کے نام کی دہائی دیتے ہو کہ عرب ایسا ہی کرتے تھے خود ان کے خیال میں بتوں کا بس صرف خشکی پر چلتا تھا پھر جب اللہ جل جلالہ تمہیں ان مصائب سے بچا کر لاتا ہے تو خشکی پر پہنچ کر تم اس کی اطاعت سے روگردانی کرنے لگتے ہو ، انسان بھی کس قدرنا شکرا ہے ، کیا تم یہ نہیں سوچتے کہ اللہ قادر ہے اور خشکی پر پہنچ کر تم اس کی گرفت سے دور نہیں ہو گے بلکہ وہ چاہے تو خشکی میں ہی غرق کر دے اور زمین میں دھنسا دے یا آندھی اور طوفان مسلط کرکے تباہ کر دے اور تمہیں کوئی مددگار میسر نہ ہو سکے ، یا اس بات سے بھی بےخوف ہوجاتے ہو کہ تمہیں پھر سے سمندروں میں لے جائے اور سمندری طوفانوں کی نذر کر دے ایسے حالات پیدا فرما دے کہ تمہیں پھر بحری سفر پر جانا پڑجائے اور وہاں طوفان تمہیں تمہارے کفر کی وجہ سے غرق کرکے تباہ کر دے اور اس کی بارگاہ میں تو تمہاری بات کرنے والا بھی کوئی نہ ہو کہ تمہاری حمایت میں منہ کھولنے کی جرات کرے ،۔ ہمارا احسان دیکھو کہ ہم نے اولاد آدم کو بزرگی اور عظمت بخشی اسے سمندروں اور خشکی پر بےپناہ اختیار واقتدار دیا اور بہترین کھانے عطا فرمائے غرض اپنی بےحساب مخلوق پر اسے فضیلت بخشی ۔ (کرامت بنی آدم) سب سے بڑی عظمت آدمیت نور نبوت ہے جو انسانوں کے علاوہ کسی بھی مخلوق کو عطا نہ ہوا اور یہی نور انسانوں کے دلوں کو روشن کرکے انہیں جمال باری کو اپنی حیثیت کے مطابق دیکھنے کی سکت اور نتیجے میں عشق وطلب عطا کرتا ہے اور مادی اعتبار سے بھی جسمانی ساخت قد کاٹھ اور اعضاء اور اعضاء کی کارکردگی میں عقل و شعور اور فہم و فراست میں اور طرح طرح کے کھانے بنانے اور آرام کے اسباب ایجاد کرنے میں ہر طرح سے انسان کو دوسرے حیوانات پر بہت بڑی فضیلت ہے اور روحانی اعتبار سے تخلیق پر سبقت لے گیا ۔
Top