Asrar-ut-Tanzil - Al-Hijr : 80
وَ لَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِیْنَۙ
وَلَقَدْ كَذَّبَ : اور البتہ جھٹلایا اَصْحٰبُ الْحِجْرِ : حجر والے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
اور بیشک (وادی) حجر کے رہنے والوں نے بھی پیغمبروں کو جھوٹا قرار دیا
(رکوع نمبر 6) اسرارومعارف اور اصحاب حجر بھی جنہیں ثمود کہا گیا ہے نے بھی اللہ جل جلالہ کے رسولوں کا انکار کیا حالانکہ انہیں بہت روشن معجزات عطا ہوئے تھے مگر ان لوگوں نے توجہ تک نہ کی بلکہ محض دنیاوی اسباب پہ بھروسہ کرنے میں لگے رہے ان لوگوں نے بڑے بڑے پہاڑوں کو کاٹ کر گھر بنائے کہ یہ مضبوط مکان انہیں امن وسلامتی مہیا کریں گے مگر انہیں بھی ویسی ہی زبردست چنگھاڑ نے صبح کے وقت آلیا اور حفاظت کے جس قدر مادی اسباب انہوں نے بنائے تھے وہ ان کے کسی کام نہ آسکے کہ یہ ارض وسما کی تخلیق یا یہ نظام عالم بڑی حکمت سے بنایا گیا ہے اور بظاہر اسباب خواہ کیسے نظر آ رہے ہوں کفر اور برائی پر ہمیشہ سزا ملتی ہے اور تباہی آتی ہے اور امن کا راستہ صرف اللہ جل جلالہ کی اطاعت ہی کا ہے نیز قیامت بھی تو بلاشبہ قائم ہوگی جس میں حقیقی سزا وجزا دی جائے گی کہ دنیا کی سزا تو محض گناہ کا ہلکا سا اثر ہے لہذا آپ نہایت مناسب طریقے سے در گذر کیجئے ۔ (تبلیغ دین کے لیے حالات کو برداشت کرنا چاہئے) اس میں دینی تبلیغ کا طریقہ ارشاد فرمایا کہ تحمل اور بردباری سے حالات کا مقابلہ کیا جائے اور دین کا کام کرنے والے فرد کو جذباتی نہ ہونا چاہئے کہ آپ کا رب ہی سب کا خالق ہے اس لیے وہ سب کی ہر ہر حرکت اور ہر سوچ کا علم رکھتا ہے ۔ ( سورة فاتحہ کی عظمت) ہم نے آپ کو سات آیات عطا فرمائی ہیں جو پورے قرآن کی عظمت کی حامل ہیں اور جو بار بار یعنی نماز کی ہر ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہیں مفسرین کرام کے مطابق اسلام کے سارے بنیادی اصول اسی سورة میں سمو دیئے گئے قرآن حکیم انہی کی وضاحت اور حدیث شریف انہی کا مفہوم بیان کرتی ہے نیز ایسی جامع دعا پہلے کسی بھی امت کو عطا نہ کی گئی کاش مسلمان اسی کو خلوص سے دہرایا کرتے مگر آج تو اکثریت اس کے لفظی معنوں تک سے آشنا نہیں آپ اس بات کو کوئی اہمیت نہ دیجئے کہ کفار ومشرکین میں بعض لوگوں کو بہت مال و دولت یا دنیاوی اسباب حاصل ہیں نہ اس بات پر دکھ محسوس کیجئے یعنی نہ تو یہ خیال فرمائیے کہ یہ مالدار ہیں حالانکہ کفر اختیار کیے ہوئے اور نہ یہ دکھ کہ شاید مالدار نہ ہوتے تو ایمان لے آتے کہ پہلے تباہ ہونے والوں کے پاس بھی دنیا کے اسباب تھے مگر وہ وقتی اور فانی فائدے کے علاوہ کسی کام نہ آئے نیز یہ لوگ مزاجا بگڑ چکے ہیں مالدار نہ بھی ہوتے تو ان کا کردار یہی ہوتا لہذا آپ اپنی ساری شفقتیں ان لوگوں پر متوجہ فرمائیے ۔ ّ (حجت عقیدہ بہت بڑی نعمت ہے) جو ایمان لائے ہیں واہ کیا نعمت ہے کہ صحت عقیدہ پہ شفقت رسالت کو متوجہ فرمایا جا رہا ہے جو پہلے رحمت عالم میں بھلا اس حکم کے بعد ان کی شفقتوں کا کیا عالم ہوگا ، اور آپ علی الاعلان فرما دیجئے کہ میں تمہیں اللہ جل جلالہ کے عذابوں سے کھلم کھلا ڈرانے اور ہر وقت مطلع کرنے والا ہوں کہ قبل از تبلیغ مکہ مکرمہ میں خفیہ طریقے سے جاری تھی کہ اعلان کرنے کا حکم ہوا تو نہ صرف آپ ﷺ بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین بھی کھل کر میدان میں آگئے اور تبلیغ دین کا کام علی الاعلان ہونے لگا آپ ان عذابوں سے خبردار کیجئے جو پہلے بھی ایسے لوگوں پہ نازل ہوچکے جنہوں نے اللہ جل جلالہ کی کتابوں کے حصے بخرے کر رکھے تھے یعنی جو بات پسند آئی قبول کرلی اور جو خلاف مزاج نظر آئی اس کا انکار کردیا ، سو تیرے پروردگار کی قسم یعنی تیرے پیدا کرنے والے کی شان ربوبیت کہ ہر شے پر پھل لگتا ہے اور ہر کام کا نتیجہ سامنے آتا ہے خود اس بات کی دلیل ہے کہ کردار و اعمال کے نتایج بھی اپنے وقت پر سامنے آئیں گے ، لہذا آپ وہ بات کھول کر سنا دیجئے جس کا حکم آپ کو ہوا ہے اور مشرکین کی ہرگز پرواہ نہ کیجئے اور نہ مذاق اڑانے کو خاطر میں لائیے ہم آپ کی طرف سے انہیں کافی ہیں کہ آپ سے مذاق کرتے ہیں اور اللہ جل جلالہ کے ساتھ دوسروں کو معبود قرار دیتے ہیں بہت جلد اپنے انجام کو پالیں گے یہ تو اللہ کریم اللہ جل جلالہ کے علم میں ہے کہ آپ کے دل کو رنج پہنچتا ہے ایک فطری جذبے اور انسانی مزاج کے تقاضے کے مطابق ایسا ہوتا ہے کہ یہ باتیں ہی ایسی کرتے ہیں مگر اس کا بھی علاج ہے ۔ (ذکر طبعی تفکرات کا علاج بھی ہے) کہ آپ اپنے رب کی پاکی بیان کریں اس کا ذکر کیا کریں اور عبادات میں مجاہدہ فرمائیں اور یہ کام کیے جائیں حتی کہ دنیا کی زندگی اپنے اختتام کو پہنچے گویا دشمن کی ایذا اور دل کی تنگی کا حقیقی علاج ذکر الہی ہے جس سے عبادات کا اعلی درجہ بھی نصیب ہوتا ہے اور انسان کلی طور پر ادھر متوجہ رہتا ہے سورة حجر تمام ہوئی ۔
Top