Asrar-ut-Tanzil - Al-Hijr : 61
فَلَمَّا جَآءَ اٰلَ لُوْطِ اِ۟لْمُرْسَلُوْنَۙ
فَلَمَّا : پس جب جَآءَ : آئے اٰلَ لُوْطِ : لوط کے گھر والے الْمُرْسَلُوْنَ : بھیجے ہوئے (فرشتے)
پھر جب وہ بھیجے ہوئے (فرشتے) لوط (علیہ السلام) کے گھر والوں کے پاس پہنچے
(رکوع نمبر 5) اسرارومعارف جب وہ فرشتے لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو ان کے لوگ بڑے پریشان ہوئے کہ وہ خوبصورت لڑکوں کی شکل پر تھے اور قوم لوط بچوں سے غیر فطری فعل ہی جیسے گناہ فاسد میں مبتلا تھی لہذا ان کا گھبرانا ایک قدرتی امر تھا کہ یہ کیسے خوبصورت اور شریف بچے ہیں مگر اہل شہر کو خبر ہوگی تو وہ چڑھ دوڑیں گے جس میں جہاں ان کی رسوائی ہوگی وہاں عزت بھی نہ رہے گی اور اللہ جل جلالہ کی نافرمانی اور گستاخی کا یہ فعل اللہ جل جلالہ نہ کرے کہ ہمارے گھر سے شروع ہو چناچہ وہ بہت گھبرائے اور وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا شہر کے لوگ چڑھ دوڑے کہ یہ خوبصورت لڑکے ہیں انہیں ہمارے سپرد کیا جائے اس کا تذکرہ یہاں موخر کردیا گیا ہے حالانکہ دوسری جگہ یہ مقدم ہے اور بعد میں فرشتوں نے اپنا فرشتہ ہونا حضرت لوط (علیہ السلام) پہ ظاہر فرمایا اور اللہ کریم کا پیغام پہنچایا ۔ (کشف کی حقیقت) اس واقعہ سے بھی کشف کی حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ جب چاہے اور جس بات سے چاہے نیز جتنا چاہے پردہ ہٹا دیتا ہے ورنہ انبیاء کو بھی علم نہیں ہو سکتا اور جب چاہتا ہے ہوجاتا ہے اس قصد میں نہ ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے فرشتہ ہونے کا پتہ چلا نہ لوط (علیہ السلام) کو حتی کہ بہت گھبرائے تاآنکہ خود فرشتوں نے بتایا لہذا کشف اللہ جل جلالہ کی طرف سے ایک ذریعہ علم ہے علم غیب نہیں ہے وہ صرف اس کی ذات کا خاصہ ہے ۔ لہذا فرشتوں نے انہیں بتایا کہ ہم کو حسین لڑکوں کی صورت تو محض ان پر حجت تمام کرنے کو دی گئی ہے کہ اگر اب بھی آپ کی اطاعت کرلیں تو بچ جائیں گے ورنہ یہ نہ کہہ سکیں گے کہ ہمیں موقعہ نہ ملا تھا ہم تو اللہ جل جلالہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں اور ان لوگوں کا جھگڑا چکانے کو آئے ہیں جس بات میں یہ آپ سے جھگڑتے ہی رہتے ہیں اور اطاعت نہیں کرتے لہذا ہم حق کے ساتھ آئے ہیں اور یہ بالکل سچی اور کھری بات ہے لہذا آپ کچھ رات گئے اپنے لوگوں کو ساتھ لے یہاں سے کوچ کر جائیے اور جہاں آپ کو جانے کا حکم ہے تشریف لے چلیں مفسرین کرام کے مطابق آپ کو ملک شام چلے جانے کا کہا گیا تھا ، اور آپ سب کو روانہ کر کے ان کے پیچھے چلیں کہ کوئی مسلمان رہ نہ جائے نیز کوئی بھی مڑ کر پیچھے نہ دیکھے کہ ان کا حشر کیا ہوتا ہے کہ اللہ کریم نے ان کا فیصلہ فرما دیا ہے کہ صبح ہوتے ہوتے یہ تباہ وبرباد کردیئے جائیں گے ۔ اب پھر قصہ وہاں سے شروع فرماتے ہیں کہ جب وہ فرشتے نو عمر لڑکوں کی صورت حضرت لوط (علیہ السلام) کے ہاں پہنچے اور شہر میں خبر ہوئی تو اہل شہر خوشی سے اچھلتے کودتے وہاں پہنچے حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کا مقصد بھانپ کر فرمایا کہ شرم کرو یہ میرے مہمان ہیں تم ان سے زیادتی کرو گے تو میری رسوائی ہوگی اللہ جل جلالہ سے حیا کرو اور اس کی گرفت سے ڈرو نیز میری عزت بھی خراب نہ کرو کہ تم صرف گناہ کا ارادہ ہی نہیں کر رہے ساتھ اللہ جل جلالہ کے نبی کی رسوائی بھی کرنا چاہتے ہو اور یہ ایسا جرم ہے جس پر فوری گرفت کا قوی امکان ہے لیکن انہوں نے ایک نہ سنی الٹا کہنے لگے آپ کیوں سارے جہان کا ٹھیکہ لیتے ہیں جبکہ ۔۔۔۔۔۔ منع بھی کردیا تھا کہ آپ لوگوں کے اور ہمارے درمیان نہ آیا کریں حضرت لوط (علیہ السلام) نے فرمایا یہ میری بیٹیاں یعنی جو تمہاری منکوحہ بیبیاں ہیں آخر تم ان سے قضاء شہوت کیوں نہیں کرتے جبکہ یہ تم پر حلال بھی ہیں ۔ (آپ ﷺ کی عظمت کی ایک انوکھی دلیل) مگر آپ کی زندگی کی قسم ، سبحان اللہ یہاں آپ ﷺ کی حیات پاک کی قسم کھائی گئی ہے جس سے مراد ہے کہ آپ کی تمام عمر قبل بعثت اور بعد بعثت اللہ جل جلالہ کی اطاعت عشق الہی اور اس کی رضا کی طلب کا ایسا نمونہ ہے جس کی مثال کسی مقرب فرشتہ میں ملتی ہے نہ کسی نبی اور رسول کی حیات میں کہ اللہ جل جلالہ نے اور کسی کی زندگی کی قسم نہیں کھائی اور قسم سے مراد جس کی قسم کھائی جائے اسے بات مذکورہ پہ بطور گواہ پیش کرنا ہوتا ہے اسی لیے مخلوق کے لیے اللہ کریم کے سوا کسی کی قسم کھانا جائز نہیں مگر اللہ کریم جس بات کو بطور دلیل پیش کریں اس کی قسم کھاتے ہیں تو یہاں آپ ﷺ کی حیات مبارکہ کو گواہ بنایا کہ وہ راہ راست سے کس قدر دور تھے کہ راہ راست تو آپکی حیات ہے اب انہیں دیکھیں جو اپنی مستی میں ہر بات بھول رہے تھے کہ اچانک سورج نکلنے کے وقت انہیں ایک سخت چنگھاڑ نے آدبوچا جس سے جگر تک پھٹنے لگے مگر اسی پر بس کہاں اس کی زمین ہی کو نیچے تک اکھیڑ کر الٹا کر پھینک دیا گیا نیچے کی طرف اوپر آگئی اور اوپر والے نیچے دھنس گئے نیز آسمانوں سے ان پر پتھروں کی بارش برسائی گئی یعنی ایک دردناک چیخ نے حواس گم کردیئے پھر آسمانوں سے پتھر برسنے لگے اور آخر زمین ہی الٹ دی گئی ان کے حالات پر غور وفکر کرنے والوں کے لیے اس میں بہت سامان عبرت ہے اور وہ مقام تاحال ایک بڑے راستے پر ان کی بربادی کو اپنی زبان حال سے بیان کر رہا ہے ۔ یہ جگہ اردن میں عرب سے شام جانے والے بڑے راستے پر ہے جہاں ایک بہت بڑا رقبہ سطح سمندر سے بہت نیچے واقعہ ہے اور جس پر ایک سیاہ پانی کا سمندر سا موجود ہے جس میں کوئی حیات نہیں مینڈک اور آبی گھونگا تک نہیں ملتا ہے بلکہ اس کا نام ہی بحر میت (DEAD SEA) ہے جدید تحقیق کے مطابق اس میں پانی کے اجزا کم اور تیل کے اجزاء زیادہ ہیں اس لیے حیات ممکن نہیں مگر یہ شہادت تو موجود ہے کہ کتنی گہرائی تک زمین کو الٹا گیا کہ تیل اوپر آگیا جو سمندروں میں بھی ہزاروں فٹ نیچے کھودنے سے ملتا ہے ۔ (سامان عبرت) یہ جگہیں بھی سامان عبرت ہیں مگر ایمان نصیب ہو تب اسی لیے آپ ﷺ جب کسی ایسی جگہ سے گزرتے تو آپ پر ہیبت طاری ہوجاتی اور سرمبارک جھکا کر گزر جاتے مگر افسوس آجکل اسے تفریح گاہ بنایا گیا ہے اور ہوٹل وغیرہ بنا کر وہاں سیاحوں کو رکھا جاتا ہے جیسے اپنے ہاں موہنجوداڑو ہڑپہ اور ٹیکسلا وغیرہ سے عبرت حاصل کرنے کی بجائے انہیں سیرگاہ بنایا گیا ہے ، ایسے ہی اصحاب الکیہ یعنی ایک بن میں رہنے والے جن کی طرف حضرت شعیب (علیہ السلام) مبعوث ہوئے بھی بڑے ظالم تھے انہوں نے بھی اپنے کئے کی سزا پائی اور انتقام الہی کا شکار ہوئے وہ جگہ بھی ایک بڑے راستے یہ پڑتی ہے یہ وادی حجاز اور شام کے درمیان واقع ہے ۔
Top