Asrar-ut-Tanzil - Al-Hijr : 45
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍؕ
اِنَّ : بیشک الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار فِيْ : میں جَنّٰتٍ : باغات وَّعُيُوْنٍ : اور چشمے
بیشک پرہیزگار باغوں اور چشموں میں ہوں گے
(رکوع نمبر 4) اسرارومعارف جو لوگ تقوی اختیار کرتے ہیں اور زندگی اطاعت الہی میں بسر کرتے ہیں یقینا باغوں اور چشموں کی بہترین سرزمین میں رہیں گے ایک ایسی جگہ جہاں کا داخلہ ہی ہر طرح کے امن کی ضمانت ہے اور جہاں داخلے پر کہہ دیا جائے گا جاؤ یہاں امن وسلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ نیز اگر دنیا میں کبھی ایک دوسرے کے درمیان رنجش بھی رہی ہوگی تو اس کا طبعی اثر یا خفگی جنت میں داخلے کے وقت دور کردی جائے گی ۔ (مزاج برزخ میں وہی رہتا ہے جو دنیا میں ہو) گویا انسانی مزاج کو موت تبدیل نہیں کرتی نہ علم کو فنا کرتی ہے لہذا برزخ میں وہی مزاج رہتا ہے جو دنیا میں رہا ہو اور محبت وناراضگی کے اثرات دل میں موجود رہتے ہیں اور واقعات جو ان کا باعث بنے یاد رہتے ہیں مگر جنت میں داخلے کے وقت یہ سب چیزیں اس لیے صاف کردی جائیں گی کہ یہ بھی ایک قسم کا رنج ہے اور جنت ایسی حسین سرزمین کا نام ہے جہاں رنج کو دخل نہیں لہذا بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تخت بچھا کر بیٹھے ہوں گے نہ تو انہیں وہاں کسی بھی طرح کا کوئی دکھ ہوگا اور نہ ہی وہاں سے کبھی نکالے جائیں گے لہذا آپ اے نبی ﷺ میرے بندوں کو خبر کر دیجئے کہ ان انمول نعمتوں کا حصول کوئی مشکل نہیں کہ میں معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں لہذا توبہ کرکے معافی حاصل کریں اور اطاعت کرکے رحمت کو پائیں کہ ان انعامات کو پالیں اور یہ بھی واضح کر دیجئے کہ جس نے نافرمانی کی راہ ہی اپنائی تو میرا عذاب بھی بہت ہی دردناک عذاب ہے اس کی جھلک اگر وہ دنیا میں بھی دیکھنا چاہیں تو انہیں ان ملائکہ کے حالات سنائیے جو ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس انسانی شکل میں مہمان بن کر وارد ہوئے اور جب انہوں نے کھانا پیش کیا تو انہوں نے ہاتھ نہ بڑھایا تو ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ ہمیں تو آپ لوگوں سے خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ عربوں میں دستور تھا کہ دشمن کے گھر کا نہ کھاتے تھے تو انہوں نے کہا ہمارے نہ کھانے کا سبب دشمنی نہیں بلکہ ہم اللہ جل جلالہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں اور آپ کو ایک ایسے بیٹے کی خوش خبری سنانے حاضر ہوئے ہیں جو بہت بڑے علم کا مالک ہوگا فرمایا بھلا یہ خوشخبری سنانے کا کونسا وقت ہے جب بڑھاپے نے میری قوی مضمحل کردیئے ہیں تو کہنے لگے ہم تو حق کی بات عرض کر رہے ہیں جس کا رب کریم نے حکم دیا ہے لہذا ناامیدی کی کوئی وجہ نہیں کہ وہ ہر طرح سے قادر ہے تو ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا بیشک اس کی رحمت سے تو صرف راہ گم کردہ لوگ ہی ناامید ہوا کرتے ہیں لیکن کی تمہارے آنے کا باعث صرف یہی خبر سنانا ہے یا اور بھی کوئی اہم کام درپیش ہے تب انہوں نے بتایا کہ ہمیں ایک ایسی قوم کو تباہ کرنا ہے جو بہت بڑی مجرم ہے یعنی لوط (علیہ السلام) کی قوم جس میں سے حضرت لوط (علیہ السلام) کا اتباع کرنے والوں کے علاوہ کوئی نہ بچ سکے گا اور عین تباہی کے وقت وہ سب لوگ امن میں رہیں گے جو ان کی اطاعت کرنے والے ہیں سوائے ان کی اہلیہ کے کہ وہ بھی عملا زندگی ان کے گھر گزارنے کے باوجود عقیدۃ کفار کے ساتھ ہے لہذا ۔ (نجات کا مدار) انہی کے ساتھ ہوگی گویا کا مدار عقیدہ پر ہے اگر عقیدہ درست نہ ہو تو دنیا کا بہت قریبی رشتہ بھی کسی کام کا نہیں ہاں عقیدہ درست ہو اور صالحین سے نسبی رشتہ بھی تو نور علی نور ہے ۔
Top