Asrar-ut-Tanzil - Al-Hijr : 26
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ
وَلَقَدْ خَلَقْنَا : اور تحقیق ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے صَلْصَالٍ : کھنکھناتا ہوا مِّنْ حَمَاٍ : سیاہ گارے سے مَّسْنُوْنٍ : سڑا ہوا
اور یقینا ہم نے انسان کو کھٹکھٹاتے ہوئے سڑے ہوئے گارے سے پیدا فرمایا
(رکوع نمبر 3) اسرارومعارف خود انسان کو بھی تو ہم نے ہی پیدا کیا سڑے ہوئے مٹی گارے سے جو خشک ہوچکا تھا ۔ (جنات کو پہلے پیدا کیا گیا) قبل ازیں ہم جنات کو آگ کی لو سے پیدا کرچکے تھے یعنی آگ کی وہ تپش جو ایک گرم ہوا کی صورت میں تھی کہ آگ کا نظر آنا اجزائے کثیفہ کی ملاوٹ سے ہوتا ہے ورنہ وہ بہت لطیف ہوتی ہے تو گویا جنات کا وجود اسی سے پیدا ہوا جو نظر نہیں آتا ، اور جنات پہلے سے زمین پر آباد کئے گئے تھے ،۔ پھر وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے جب آپ کے رب نے فرشتوں کو حکم دیا کہ میں کھنکتے اور سڑے ہوئے گارے سے ایک بشر تخلیق کر رہا ہوں جب وہ بن چکے اور میں اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب کے سب اس کے سامنے سجدہ میں گر جانا ، (روح اور نفخ روح) روح کی تحقیق میں اہل علم میں بڑی لمبی بحث ہے اور اسی موضوع پر دونوں طرف ہزاروں دلائل موجود ہیں کہ روح کوئی جسم ہے یا مجرد جوہر ہے صاحب معارف القرآن کے مطابق جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ روح ایک جسم لطیف ہے اور یہی حق ہے جوہر مجرد فلاسفہ کا قول ہے جس کو بعض صوفیہ نے بھی قبول کیا ہے مگر اس موضوع پر سب سے خوبصورت تحقیق صاحب تفسیر مظہری حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) کی ہے فرماتے ہیں روح دو قسم کی ہے علوی اور سفلی ، روح علوی مادہ سے پاک اللہ جل جلالہ کی ایک مخلوق ہے جس کی حقیقت کا ادراک ممکن نہیں اور اہل کشف کو اس کا مقام عرش کے اوپر نظر آتا ہے کہ عرش سے زیادہ لطیف ہے اور بنظر کشفی اوپر نیچے پانچ درجات میں محسوس کی جاتی ہے جو یہ ہیں قلب ، روح ، سرخفی ، اخفی اور یہ سب عالم امر کے لطائف ہیں جس کی طرف اشارہ فرمایا گیا کہ (آیت) ” قل الروح من امر ربی “۔ یہاں تک کہ قاضی صاحب (رح) کی بات تھی اس کی تھوڑی سی وضاحت یہ ہے کہ عرش نو ہیں جن کی وسعتوں کا اندازہ انسان کے لیے ممکن نہیں کہ زمین خلا اور ساتھ آسمانوں تک کا سارا جہان مل کر پہلے عرش کے مقابل اتنا سا ہے جیسے کسی صحرا میں ایک معمولی انگشتری پڑی ہو جس ارض وسما اور ما بینھما کے فاصلے ماپنا اور ستاروں اور سیاروں کے حجم انسانی علم سے بہت آگے ہیں تو پھر عرش کی عظمت کا اندازہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ دوسرا عرش پہلے سے بزرگ تر اور تیسرا اس سے بڑا ہے حتی کہ اسی طرح (9) نو عرش ہیں جب ان کی انتہا آتی ہے تو عالم خلق ختم ہوجاتا ہے اور عالم امر شروع ہوتا ہے جہاں مادہ مادی وجود تو کیا دائرہ تخلیق ہی ختم ہوگیا اور عالم امر کا پہلا دائرہ ہی اتنا وسیع ہے کہ (9) عرشوں تک کی ساری کائنات اس ایک دائرے کے مقابل ایسی ہی ہے جیسے کسی صحرا کے اندر انگشتری اور حجابات الہیہ تک ایسے ہی بیالیس 42 دائرے ہیں جو سب ایک دوسرے سے ایسے ہی بڑے ہیں اور اسی عالم امر سے روح جسد انسانی میں وارد ہو کر اسے زندگی کی حرارت عطا کرتی ہے جو براہ راست قلب میں آتی ہے جہاں سب سے پہلے حیات پیدا ہوتی ہے اور پھر پانچوں لطائف روشن کرتی ہے ۔ قاضی صاحب (رح) کے مطابق (روح سفلی اور بخار لطیف ہے جو عناصر اربعہ یعنی آگ مٹی ہوا اور پانی کے ملنے اور ان میں روح کی حرارت سے پیدا ہو کر نس نس میں پھیل جاتی ہے اس کا یہ سرایت کرنا ہی پھونکنے اور نفخ سے تعبیر کیا گیا ہے) یہ روح سفلی ہی ہے جو خواہشات اور جسمانی ضروریات کا احساس اور ضرورت پیدا کرتی ہے اور روح علوی اگر غالب رہے تو ان امور میں اللہ جل جلالہ کی اطاعت کرتا ہے جس سے روح علوی مزید قوت حاصل کرتی ہے اور عالم امر سے اس کا تعلق مضبوط تر ہوتا جاتا ہے لیکن اگر روح سفلی یا جسے نفس بھی کہا گیا یہ غالب ہوجائے تو انسان محض خواہشات کا بندہ بن کر گناہ اور نافرمانی میں غرق ہوجاتا ہے اور روح علوی کی تجلی جو روح سفلی پر تھی اور جس نے اسے شرف انسانیت بخشا تھا کمزور ہونا شروع ہوجاتی ہے اور کفر پر بالکل منقطع ہوجاتی ہے اسی لیے کفار کو کتاب اللہ میں کالانعام یعنی چوپاؤں اور حیوانات کی مثل قرار دیا گیا کہ ان میں صرف روح سفلی ہی ہوتی ہے اور عالم امر کی اس لطیف تر تجلی سے ان کے قلوب کا تعلق نہیں ہوتا اسی لیے کفار کو آخرت میں انسانی چہرہ بی نصیب نہ ہوگا اور جانوروں ہی کی طرح جہنم میں چلائینگے انبیاء جب مبعوث ہوتے ہیں تو اسی روح علوی کو حیات نو عطا کرتے ہیں اور ایمان لانے والوں کو نبی کی ایک نگاہ مقام صحابیت یعنی روح علوی کا روشن ترین حال عطا کرتی ہے اور یہی نعمت حاصل کرنے کیلئے صحبت شیخ کی ضرورت بھی ہے ورنہ روح سفلی اپنا کام طبعی طور پر کرتی رہتی ہے روح علوی مادہ سے بالاتر محض امر الہی سے پیدا ہونے والی ایک لطیف تر شے ہے اسی لیے تجلیات باری کو قبول کرنے کی استعداد رکھتی ہے جو انسان کے علاوہ کسی مخلوق کو حاصل نہیں نیز قاضی صاحب (رح) بھی لکھتے ہیں کہ انسان وجود میں غالب عنصر اگرچہ مٹی ہے لہذا اسی سے تعبیر فرمایا گیا ورنہ درحقیقت دس چیزوں سے مرکب تھے جن میں پانچ عالم خلق کی مٹی ، آگ ہوا ، پانی اور ان سے پیدا ہونے والا بخار لطیف جو روح سفلی یا نفس کہلاتا ہے اور پانچ عالم امر کی ہیں یعنی قلب ، ، روح ، سر ، خفی اور اخفی اسی جامعیت کے سبب نور معرفت اور نار عشق و محبت کا متحمل ہوا جس کا نتیجہ بےکیف معیت الہی کا حصول ہے اور اسی عظمت کے باعث ملائکہ کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ، واللہ اعلم بالثواب۔ (ابلیس اور اس کے حوالے سے ایک مسئلہ) لہذا سب فرشتے مل کر سجدے میں چلے گئے سوائے ابلیس کے جس نے انکار کردیا اور سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا یہ اگرچہ جنات میں سے تھا مگر عبادات وریاضات سے ترقی کرتا ہوا فرشتوں میں جا شامل ہوا اور اس وقت وہیں موجود تھا لہذا اسی حکم میں شامل تھا ، لیکن اس نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا ارشادہ ہوا کہ اے ابلیس تجھے سجدہ کرنے سے کس بات نے روکا تو کہنے لگا میں کوئی ایسا ویسا نہیں ہوں کہ اس کیچڑ اور گارے سے بنے انسان کو سجدہ کروں تو ارشاد ہوا کہ تو یہاں سے نکل جا اور تو مردود ہوا اور تجھے تا قیامت اللہ جل جلالہ کی رحمت سے محروم کردیا گیا یعنی ہمیشہ کے لیے کہ بعد قیامت تو پھر امید ہی نہ رہی تو یہ مسئلہ یہاں ثابت ہوگیا کہ جس طرح شیطان اپنی بڑائی کو دل میں رکھ کر مجاہدہ کرتا رہا اور فرشتوں تک میں شامل ہوگیا ایسے ہی کوئی طالب اپنی شہرت اور بڑائی کے لیے مجاہدہ کرکے شیخ کی صحبت میں منازل سلوک حاصل کرسکتا ہے مگر آکار شیطان کا بھانڈھا پھوٹا اور مردود ہوا ایسے ہی یہ شخص بھی ایک روز سب کچھ کھو کر محروم ہوجاتا ہے اور اس نعمت سے محروم ہو کر مرتا ہے ، تو ابلیس کہنے لگا کہ پروردگار عالم مجھے مہلت و فرصت عطا کر اور اس روز تک مجھے رہنے دے جس روز مردے زندہ ہوں گے کہ میں انسان سے مقابلہ کروں گا فرمایا تجھے ایک معلوم وقت تک یعنی فناء دنیا تک مہلت دی جاتی ہے کہ فناء عالم کے وقت اسے بھی موت کی وادی سے گزرنا ہوگا تو کہنے لگا پروردگار جیسے تو نے تکوینی طور پر مجھے گمراہ کردیا اپنی غلطی کا اعتراف پھر بھی نہ کیا بلکہ اسے اللہ جل جلالہ کی طرف منسوب کردیا جو تکبر اور گمراہی کا نتیجہ تھا تو میں بھی قسم کھاتا ہوں کہ انسانوں کو گناہ بڑے سجا کر دکھاؤں گا اور انہیں گمراہ کروں گا سوائے تیرے خاص بندوں کے جنہیں تو نے اپنے لیے چن لیا ان پر میرا داؤ نہ چلے گا یعنی وہ گمراہ نہ ہوں گے غلطی کا صدور ناممکن نہیں کہ بھول چوک ہو سکتی ہے مگر اللہ جل جلالہ کے بندے اس پر قائم نہیں رہتے توبہ کرکے رحمت باری کو پا لیتے ہیں ، فرمایا یہی خلوص اور صرف میرے اور میری رضا مندی کے لیے اپنے کو مخصوص کردینا ہی تو مجھ تک سیدھا راستہ ہے ، اور بیشک جو میرے بندے ہوں گے ان پر تیرا بس نہ چلے گا تیرا زور بھی انہی پر چلے گا جو میری راہ ترک کر کے تیری پیروی اختیار کریں گے اور تیرے بہکاوے میں آجائیں گے مگر یاد رکھ ایسے سب لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے جس کے سات دروازے یا سات درجے ہیں اور جیسا کوئی کرے اسی کے مطابق ہر درجے کے لوگ بانٹ دیئے جائیں گے اور الگ الگ کردیئے جائیں گے ۔
Top