Asrar-ut-Tanzil - Al-Hijr : 16
وَ لَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ زَیَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِیْنَۙ
وَلَقَدْ جَعَلْنَا : اور یقیناً ہم نے بنائے فِي : میں السَّمَآءِ : آسمان بُرُوْجًا : برج (جمع) وَّزَيَّنّٰهَا : اور اسے زینت دی لِلنّٰظِرِيْنَ : دیکھنے والوں کے لیے
اور بیشک ہم نے آسمان میں برج (بڑے بڑے منارے) بنائے اور دیکھنے والوں کے لئے اس کو سجا دیا
(رکوع نمبر 2) اسرارومعارف حالانکہ قدرت باری اس قدر ہویدا ہے کہ آسمانوں میں چڑھے بغیر اس کی عظمت پہ دلالت کرتی نظر آتی ہے آخر ہم نے ہی تو آسمانوں میں بہت بڑے بڑے ستارے اور سیارے سجا دیئے اور خلا کو دیکھنے والوں کے لیے بہت خوبصورت بنا دیا جہاں ان میں اور بیشمار حکمتیں ہیں وہاں آسمانوں کی حفاظت کا کام بھی ان سے لیا اور پھر شیطان مردود کو ان کے باعث آسمانوں سے دور کردیا کہ ان میں کی ٹوٹ پھوٹ اور ان کی روشنی و گرمی اور مختلف اثرات فضا اور خلا کی ایک خاص حد سے آگے کسی کو بڑھنے نہیں دیتے حتی کہ شیاطین تک سوائے اس کے کسی شیطان نے خلا میں سے چوری چھپے کوئی بات فرشتوں سے سن لی تو اس کے پیچھے روشن شعلہ لپکتا ہے جو اسے ہلاک کردیتا ہے یا وہ بدحواس ہو کر کچھ سننے کی بجائے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے ، (شہاب ثاقب) ابلیس کے آسمان سے نکالے جانے کے بعد اس کی رسائی آسمان پر تو نہ ہو سکتی تھی مگر وہ اور اس کی اولاد خلا میں آسمانوں کے قریب چلے جاتے اور کوئی نہ کوئی بات فرشتوں سے سن کرلے اڑتے جس کی خبر کاہنوں کو کرتے اور اپنے اندازے سے اس میں خوب جھوٹ بھی ملاتے اس طرح کفر کا کاروبار چلتا تھا حتی کہ آپ ﷺ کی بعثت پر شیاطین کو اس سے بھی روک دیا گیا جس کے باعث عرب کے مشہور کاہنوں کا کاروبار بھی بہت متاثر ہوا اور کفر کے پھیلنے کا ایک سبب ختم ہوا یہ بھی آپ ﷺ کی عظیم برکات میں سے ایک ہے ، چناچہ اس کے بعد چوری چھپے سننے والے شیطانوں کو شہاب ثاقب سے روک دیا گیا جہاں تک سائنسدانوں کا اور فلاسفہ کا خیال کہ خلا میں بعض بخارات آگ پکڑتے ہیں یا کسی ستارے یا سیارے کا کوئی حصہ ٹوٹ کر گرتا ہے اور یہ خلا میں ایک معمول کا عمل ہے تو یہ اپنی جگہ درست ہے کہ علما کے مطابق یہ شہاب ثاقب آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے بھی ہوتے تھے مگر آپ ﷺ کی بعثت کے بعد انہی سے شیطانوں کو بھگانے کام بھی لیا جانے لگا ۔ اور زمین کو بھی تو ہم نے پھیلایا ، اور اس پر بڑے بڑے پہاڑ ٹکا دیئے اور اس میں بیشمار روئیدگی کتنے خوب صورت انداز اور ایک خاص مقدار میں پیدا فرمائی حتی کہ چیزوں کے وجود ، رنگ اور ذائقے تک میں اس قدر اندازہ متعین فرمایا کہ ہر اعتبار سے انسانی ضروریات کی تکمیل میں کام آسکیں عمارتی لکڑی کا قد کاٹھ ملاحظہ ہو اور سوختنی کا ایسے ہی پھلوں کو دیکھیں تو بڑے بڑے پھل زمین پر پڑے بیلوں سے اور چھوٹے درختوں سے لگا دیئے گندم کا خوشہ اپنے انداز سے پیدا ہوا اور مکی کا سٹہ اپنی صورت لے کر نیز مقدار میں بھی کتنا خوبصورت اندازہ کار فرما ہے کہ نہ تو اس قدر بہتات کہ گلتے سڑتے رہیں اور ساری فضا ہی متعفن کردیتے غرض ہر شئے ہر اعتبار سے کتنی موزوں اور مناسب ہے اور پھر ان نعمتوں کے حصول کے ذرائع اور معیشت کے اسباب پیدا فرما دیئے یونہی ہر چھت پر یا ہر صحن میں بارش نہیں ہو رہی بلکہ انسانوں کو کسب معاش کرنا پڑتا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ کتنے بیشمار جاندار ہیں جن کی غذا کا سامان انسان کی ذمہ داری نہیں تو انہیں یہی سامان حیات ہر جگہ مفت مل جاتا ہے ۔ غرض اللہ جل جلالہ کے پاس تو ہر شے کے نہ ختم ہونے والے خزانے ہیں مگر ہر چیز ایک متعین اور مقرر مقدار میں دنیا میں نازل کی جاتی ہے ، پھر اپنے آبی نظام کو دیکھو کہ کتنا عجیب اور اس کی قدرت کا نمونہ ہے کہ پانی کے سمندروں کو تلخ اور کھاری بنا دیا کہ وہ خود گلتے سڑتے نہیں مگر ان میں ملنے والی ہر آلائش گل سڑ جاتی ہے اگر میٹھے ہوتے تو تعفن پیدا کر کے زمین پر زندگی ناممکن بنا دیتے پھر انہی کو زمین کی حیات کی سیرابی کا سبب بنایا کہ سورج نے بھاپ بنائی اور ہوائیں بادلوں کو لے اڑیں اور جہاں جہاں جس قدر اللہ جل جلالہ کو منظور ہوا بارش کی صورت میں برسا دیا پھر انسان کے بس میں نہ تھا کہ اپنی سب ضرورتوں کا پانی ذخیرہ کرلیتا یا پھر روزانہ بارش برستی تو زندگی دشوار ہوجاتی ، لہذا ایسا اہتمام فرما دیا کہ پہاڑوں پر برف کی صورت میں محفوظ فرما دیا جو گرد و غبار سے پاک اور آلودگی سے دور محفوظ رہتا ہے پھر پانی بن بن کر دریا بہاتا ہے تو کبھی زمین میں رس رس کر چشمے کی صورت پھوٹتا اور اندیوں کی شکل بہتا ہے اور انسان حیوان اور نباتات تک کو سیراب کرتا چلا جاتا ہے کیا یہ سب نشانیاں اس کی عظمت ہی کا اظہار نہیں ہیں ۔ یقینا یہ سارا نظام ہی قدرت کاملہ پر گواہ ہے اور ہم ہی زندگی بخشتے ہیں اور موت دیتے ہیں بلکہ اللہ جل جلالہ ہی باقی رہنے والا اور ہر شے کا وارث ہے نیز جس کے علم عالی میں ایک قطرہ ایک ایک ذرہ ہے وہ یقینا تم میں بھلائی میں سبقت حاصل کرنے والوں سے بھی واقف ہے اور پیچھے رہ جانے والوں کو بھی جانتا ہے اور آپ کا رب ہی سب کو دوبارہ اکٹھا کرے گا کہ وہی سب حکمتوں کا مالک اور ہر شے کا علم رکھنے والا ہے ، لہذا ہر ایک کے اعمال کے مطابق درجہ بندی فرمائے گا ۔
Top