Ashraf-ul-Hawashi - Al-An'aam : 98
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَّ مُسْتَوْدَعٌ١ؕ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّفْقَهُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْٓ : وہ۔ جو۔ جس اَنْشَاَكُمْ : پیدا کیا تمہیں مِّنْ : سے نَّفْسٍ : وجود۔ شخص وَّاحِدَةٍ : ایک فَمُسْتَقَرٌّ : پھر ایک ٹھکانہ وَّمُسْتَوْدَعٌ : اور سپرد کیے جانے کی جگہ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ : بیشک ہم نے کھول کر بیان کردیں آیتیں لِقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّفْقَهُوْنَ : جو سمجھتے ہیں
اور اسی (خدا) نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا (یعنی حضرت آدم سے) پھر (تمہارے لیے) ایک ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایک سونپے جانے کی2 جو لوگ سمجھ رکھتے ہیں ان کے لیے ہم نے کھول کر نشانیاں بیان کردی ہیں3
2 ٹھہر ن کی جگہ یعنی ماں کا رحم اور ایک سونپے جانے کی یعنی باپ کی پشت حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اور مفسرین کی ایک جماعت سے اس کے برعکس بھی منقول ہے یعنی مستقر باپ کی پشت) اور مستودع (ماں کا رحکم) بعض نے ان سے دنیا اور آخرت ی اقبر بھی مراد لی ہے مگر حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں پہلا قول زیادہ واضح ہے شاہ صاحب لکھتے ہیں اول ماں کے پیٹ میں سپرد ہوتا ہے تاکہ آہستہ آہستہ دنیا میں رہنے کی صلاحیت پیدا کرے پھر دنیا میں آکر ٹھہر تا ہے پھر سپرد ہوگی قبر میں تاکہ آہستہ آہستہ آخرت کا اثر قبول کرسکے پھر جا ٹھہرے گا جنت یا دوزخ میں ( مو ضح) 3 اوپر دلائل آفاقی بیان فرمائے ہیں اور اس آیت میں دلائل نفسی کی طرف اشارہ ہے اور دلائل آفاقی سے دلائل انفسی کا سمجھنا ذرا زیادہ غور کا محتاج ہے اس لئے یہاں سمجھ کا لفظ فرمایا ہے اور اول کے متعلق علم کا واللہ اعلم (وحیدی)4 یعنی ہر قسم کی نبا تات۔ ، (فتح لقدیر)
Top