Ashraf-ul-Hawashi - Al-Furqaan : 22
یَوْمَ یَرَوْنَ الْمَلٰٓئِكَةَ لَا بُشْرٰى یَوْمَئِذٍ لِّلْمُجْرِمِیْنَ وَ یَقُوْلُوْنَ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا
يَوْمَ : جس دن يَرَوْنَ : وہ دیکھیں گے الْمَلٰٓئِكَةَ : فرشتے لَا بُشْرٰى : نہیں خوشخبری يَوْمَئِذٍ : اس دن لِّلْمُجْرِمِيْنَ : مجرموں کے لیے وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہیں گے حِجْرًا : کوئی آڑ ہو مَّحْجُوْرًا : روکی ہوئی
جس دن یہ فرشتوں کو دیکھیں گے4 اس دن ان گنہگاروں کو کچھ خوشی نہ ہوگی اور فرشتے یہ کہیں گے (اب) تم پر بہشت یا خوشی یا راحت یا رحمت حرام ہے بالکل حرام5
4 ۔ بعض نے اس سے قیامت کا دن مراد لیا ہے۔ جیسا کہ بعد کی آیت : وقدمنا الی ما عملوا سے معلوم ہوتا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ اس سے ان کی موت کا دن مراد ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے۔ اور احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ نیز دیکھئے انفال 50 و انعام 93 (ابن کثیر) 5 ۔ یا یہ کلمہ مجرمین خود کہیں گے (یعنی خدا کی پناہ) یعنی فرشتوں سے ڈر کر پناہ مانگیں گے۔ یہ محاورہ (حجراً محجوراً ) عرب عموماً اس وقت استعمال کرتے جب کوئی سخت آفت ان پر آپڑتی۔ جیسے ہم ایسے موقع پر کہتے ہیں ” یا اللہ بچائیو “۔ قاضی شوکانی نے اسی مطلب کو ترجیح دی ہے مگر حافظ ابن کثیر (رح) نے پہلے مطلب کو اختیار کیا ہے (ابن کثیر۔ شوکانی)
Top