Anwar-ul-Bayan - Nooh : 24
وَ قَدْ اَضَلُّوْا كَثِیْرًا١ۚ۬ وَ لَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا ضَلٰلًا
وَقَدْ : اور تحقیق اَضَلُّوْا : انہوں نے بھٹکا دیا كَثِيْرًا : بہت بسوں کو وَلَا : اور نہ تَزِدِ : تو اضافہ کر الظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کو اِلَّا ضَلٰلًا : مگر گمراہی میں
(پروردگار) انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا ہے اور تو ان کو اور گمراہ کر دے
(71:24) وقدا ضلوا کثیرا۔ واؤ عاطفہ ، قد ماضی کے ساتھ تحقیق کے معنی دیتا ہے اور فعل کو زمانہ حال کے قریب کردیتا ہے۔ اضلوا ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب اضلال (افعال) مصدر سے۔ انہوں نے گمراہ کیا۔ انہوں نے بہکا دیا۔ اس میں ضمیر فاعل قوم نوح کے سرداروں کی طرف راجع ہے یا بتوں کی طرف راجع ہے بہکانے کی نسبت بتوں کی طرف مجازی ہے بت گمراہی کا سبب ہیں وہ گمراہ نہیں کرتے۔ ان کے ذریعہ شیطان نے گمراہ کیا تھا۔ جیسا کہ آیت رب انھن اضللن کثیرا من الناس (14:36) میں گمراہ کرنے کی نسبت بتوں کی طرف مجازی ہے۔ کثیرا : ای خلقا کثیرا۔ ترجمہ ہوگا :۔ اور (اے پروردگار) انہوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کردیا ہے جملہ وقد اضلوا کثیرا حالیہ ہے اور اس کا عطف جملہ سابقہ پر ہے ولاتزد الظالمین الا ضلال : واؤ عاطفہ ہے اس کا عطف انھم عصوفی پر ہے یا جملہ قد اضلوا کثیرا پر ہے۔ لا تزد فعل نہی واحد مذکر حاضر زیادۃ (باب ضرب) مصدر تو زیادہ نہ کر۔ تو مت بڑھا الظلمین ظلم کرنے والے۔ منصوب بوجہ مفعول ہونے کے۔ الاضلال مستثنیٰ مفرغ۔ ضلال گمراہی، ہلاکت۔ ترجمہ :۔ اور تو نہ بڑھا ظالموں کو مگر گمراہی میں (یعنی ان ظالموں کی گمراہی کو اور بڑھا دے ، تاکہ جلدی عذاب کا مزہ چکھیں) ۔ فائدہ : حضرت نوح (علیہ السلام) کی یہ بددعا کسی بےصبری کا نتیجہ نہ تھی۔ بلکہ یہ اس وقت آپ کی زبان مبارک سے نکلی تھی جب صدیوں تک تبلیغ کا حق ادا کرنے کے بعد وہ اپنی قوم سے مایوس ہوچکے تھے اور وحی الٰہی خود ظالموں کے قبول اسلام نہ کرنے سے مطلق کرچکی تھی سورة ہود میں ارشاد الٰہی ہے :۔ واوحی الی نوح انہ لن یؤمن من قومک الا من قدا من فلا تبتئس بما کانوا یفعلون ۔ (11:34) اور نوح علیہ السلام) کی طرف وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں جو لوگ ایمان لاچکے (لاچکے) ان کے سوا اور کوئی ایمان نہ لائے گا۔ تو جو یہ کام کر رہے ہیں ان کی وجہ سے غم نہ کھاؤ۔ ایسے ہی حالات میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی فرعون اور قوم فرعون کے لئے یہ بددعا کی تھی۔ وقال موسیٰ ربنا انک اتیت فرعون وملاہ زینۃ و امنو الا فی الحیوۃ الدنیا ربنا لیضلوا عن سبیلک ربنا اطمس علی اموالہم واشدد علی قلوبھم فلا یؤمنوا حتی یروا العذاب الالیم (11:88) اور (حضررت) موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے ہمارے رب تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں (بہت سا) سازوبرگ اور مال و زر دے رکھا ہے اے پروردگار اس کا مال یہ ہے کہ تیرے رستے سے گمراہ کردیں۔ اے پروردگار ان کے مالوں کو برباد کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے کہ ایمان نہ لائیں جب تک عذاب الیم نہ دیکھ لیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا :۔ قال قد اجیبت دعوتکما فاستقیما ولا تتبعن سبیل الذین لا یعلمون (11:89) (خدا نے) فرمایا : ۔ کہ تمہاری دعا قبول کرلی گئی ہے تو تم ثابت قدم رہنا اور بےعقلوں کے راستے پر نہ چلنا۔ فائدہ : (2): بعض نے ضلال کے معنی ہلاکت کے لئے ہیں جیسے آیت ان المجرمین فی ضلل وسعر (54:47) میں ضلال سے تباہی مراد ہے۔ فائدہ : (3) صاحب تفسیر حقانی نے اس آیت کا ترجمہ کیا ہے (وہ بت ستمگاروں کو یعنی اپنے پرستاروں کو تباہی کے سوا اور کچھ نہیں دیا کرتے
Top