Anwar-ul-Bayan - Nooh : 14
وَ قَدْ خَلَقَكُمْ اَطْوَارًا
وَقَدْ خَلَقَكُمْ : اور تحقیق اس نے پیدا کیا تم کو اَطْوَارًا : طرح طرح سے
حالانکہ اس نے تم کو طرح طرح (کی حالتوں) کا پیدا کیا ہے
(71:14) وقد خلقکم اطوارا۔ جملہ حال ہے لکم کی ضمیر جمع مذکر حاضر سے اور اطوار حال ہے۔ خلقکم کی ضمیر جمع مذکر حاضر سے ترجمہ ہوگا :۔ حالانکہ اس نے تم کو طرح طرح کا پیدا کیا ہے۔ اطوارا طور کی جمع ہے۔ طرح طرح ۔ طرح طرح کی شکل کے بھی ہوسکتے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اول توحید کی دعوت دی اس کے بعد اس کے ثبوت میں چند دلائل دئیے۔ جن میں سے ایک یہ کہ :۔ وقد خلقکم اطوار۔ کہ اس نے تم کو طرح سے بنایا۔ کہ تم اول نطفہ تھے پھر علقہ ہوئے پھر مضغہ ہوئے۔ پھر انسان بنے۔ یا یہ کہ کسی کو امیر کسی کو غریب کسی کو خوبصورت کسی کو بدصورت بنایا۔ پھر سب کا ڈھانچہ ایک ہے مگر صورتیں جدا جدا ۔ یہ نہ مادہ بےشعور کا کام ہے نہ طبیعت کی کاریگری کا آخر کوئی علم وخبیر ہے کہ میں نے یہ بڑا کام کیا ہے یہ بڑی مستحکم دلیل ہے جو انسان ہی سے متعلق ہے مفسرین کے اس بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ مثلاً (1) اطوار یعنی نطفہ علقہ ثم مضغہ ای طور بعد طور الی اتمام الخلق (ابن عباس) ۔ یعنی پہلے نطفہ کی حالت پھر علقہ (جمے ہوئے خون کا ٹکڑا) پھر مضغہ (گوشت کا لوتھڑا) یعنی کئی مرحلوں سے گزار کر مکمل صورت میں پیدا کیا۔ (2) وقیل اطوار ، صبیانا ثم شبانا، ثم شیوخا و ضعفاء یعنی پہلے بچے کی حالت ، پھر جوانی پھر بڑھاپا اور ضعیف العمری۔ (3) وقیل اطوارا، ای انواعا صحیحا وسقیما وبصیرا او ضریرا و غنیا وفقیرا۔ یعنی مختلف انواع و اقسام کی صورت میں۔ کوئی صحت مند۔ کوئی بیمار، کوئی بینا کوئی نابینا۔ کوئی غنی کوئی فقیر۔ (قرطبی)
Top