Anwar-ul-Bayan - As-Saff : 11
تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَۙ
تُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ : تم ایمان لاؤ اللہ پر وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کے رسول پر وَتُجَاهِدُوْنَ : اور تم جہاد کرو فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کے راستے میں بِاَمْوَالِكُمْ : اپنے مالوں کے ساتھ وَاَنْفُسِكُمْ : اور اپنی جانوں کے ساتھ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ : یہ بات بہتر ہے لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ كُنْتُمْ : اگر ہو تم تَعْلَمُوْنَ : تم علم رکھتے
(وہ یہ کہ) خدا پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو۔ اگر تم سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔
(61:11) تؤمنون باللہ۔ مضارع واحد مؤنث غائب ایمان (افعال) مصدر۔ تم ایمان لاؤ گے۔ یا لاتے ہو۔ اللہ کے ساتھ۔ ویجاھدون واؤ عاطفہ۔ تجاھدون صیغہ جمع مذکر مضارع معروف۔ مجاھدۃ (مفاعلۃ) مصدر ۔ بمعنی دشمن کی مدافعت میں مقدور بھر کوشش و طاقت صرف کرنا۔ تم جہاد کرتے ہو۔ جہاد کی تین قسمیں ہیں :۔ (1) ظاہری دشمن سے جہاد۔ (2) شیطان سے جہاد۔ (3) نفس سے جہاد۔ تجاھدون کا عطف تؤمنون پر ہے۔ جملہ تؤمنون باللہ ۔۔ وانفسکم استیناف بیانیہ ہے۔ جیسا کہ کہا جائے ما ھذہ التجارۃ ؟ ولنا علیہا۔ اور جواب میں کہا جائے : تؤمنون باللہ ۔۔ الخ۔ ہر دو مواقع پر (تؤمنون ، وتجاھدون) مضارع بمعنی امر ہے ۔ پوچھا جائے وہ کونسی تجارت ہے جو ہمیں عذاب الیم سے نجات دے گی ؟ اور جواب دیا جائے کہ تم ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے۔ ذلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون ۔ ان کنتم تعلمون جملہ شرط ہے ۔ شرط مؤخر۔ ذلکم خیر لکم جواب شرط مقدم ہے۔ ذلکم : ذا اسم اشارہ کم ضمیر جمع مذکر حاضر خطاب کے لئے ہے۔ یہ یہی۔ اس میں ایمان باللہ ایمان بالرسول و جہاد فی سبیل اللہ مشار الیہ ہے۔ خیر افعل التفضیل کا صیغہ ہے۔ یعنی خواہشات کی پیروی کرنے اور جان و مال کو راہ خدا میں خرچ نہ کرنے سے بہتر ہے۔ ان کنتم تعلمون : اگر تم کچھ سمجھ رکھتے ہو تو سمجھو اور یہ تجادت کرو اس کو نہ چھوڑو۔
Top