Anwar-ul-Bayan - Al-An'aam : 90
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ١ؕ قُلْ لَّاۤ اَسْئَلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْعٰلَمِیْنَ۠   ۧ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو هَدَى : ہدایت دی اللّٰهُ : اللہ فَبِهُدٰىهُمُ : سو ان کی راہ پر اقْتَدِهْ : چلو قُلْ : آپ کہ دیں لَّآ اَسْئَلُكُمْ : نہیں مانگتا میں تم سے عَلَيْهِ : اس پر اَجْرًا : کوئی اجرت اِنْ : نہیں هُوَ : یہ اِلَّا : مگر ذِكْرٰي : نصیحت لِلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان والے
یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے ہدیات دی تھی تو تم انھی کی ہدایت کی پیروی کرو۔ کہہ دو کہ میں تم سے اس (قرآن) کا صلہ نہیں مانگتا۔ یہ تو جہان کے لوگوں کے لیے محض نصیحت ہے۔
(6:90) اولئک سے مراد وہ اٹھارہ انبیاء ہیں جو اوپر مذکور ہیں۔ اقتدہ۔ تو اس کی پیروی کر۔ تو اس کی اقتدا کر۔ اقتداء کا معنی ہے کسی کے کام کے موافق کوئی کام کرنا۔ علامہ قطب الدین الکشاف کے حاشیہ میں لکھتے ہیں :۔ ” کہ یہاں اقتداء سے مقصود صرف اخلاق فاضلہ اور صفات کمال ہیں ان جلیل القدر انبیاء کی پیروی کرنا ہے “۔ ہ ضمیر واحد مذکر فبھذا ہم میں ھدی کی طرف راجع ہے۔ اولئک الذین (آیۃ 89) سے لے کر اقتدہ (آیۃ 90) تک ترجمہ یوں ہوگا۔ یہ تھے انبیاء جنہیں ہم نے کتاب و حکمت اور نبوت عطا کی۔ پس اگر یہ لوگ (اہل مکہ) ان (کتاب و حکمت۔ نبوت یا آیات قرآنی) سے انکار کرتے ہیں۔ تو ہم نے مقرر کردیا ہے ایک ایسی قوم کو (اصحاب النبی علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ انصار۔ مہاجرین وغیرہ) جو ان (کتاب و حکمت ۔ نبوت یا آیات قرآنی) سے منکر نہیں ہے (بلکہ ان پر ایمان رکھتی ہے) یہی (انبیاء علیہم السلام) وہ لوگ تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت عطا فرمائی تو بھی ان کی اس ہدایت کی (جو میں نے ان کو عطا کی) پیروی کر۔ علیہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع قرآن یا تبلیغ قرآن ہے اور اسی طرح ھو ضمیر کا مرجع بھی قرآن ہے۔ ان نافیہ ہے۔ ذکری نصیحت۔ اوپر 6:68 ملاحظہ ہو۔
Top