Anwar-ul-Bayan - Al-An'aam : 40
قُلْ اَرَءَیْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ اَوْ اَتَتْكُمُ السَّاعَةُ اَغَیْرَ اللّٰهِ تَدْعُوْنَ١ۚ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَرَءَيْتَكُمْ : بھلا دیکھو اِنْ : اگر اَتٰىكُمْ : تم پر آئے عَذَابُ : عذا اللّٰهِ : اللہ اَوْ : یا اَتَتْكُمُ : آئے تم پر السَّاعَةُ : قیامت اَغَيْرَ اللّٰهِ : کیا اللہ کے سوا تَدْعُوْنَ : تم پکارو گے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
کہو (کافرو) بھلا دیکھو تو اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ تو کیا تم (ایسی حالت میں) خدا کے سوا کسی اور کو پکارو گے ؟ اگر سچے ہو (تو بتاؤ) ۔
(6:40) ارئیتکم۔ اخبرونی۔ مجھے بتاؤ۔ بھلا بتاؤ تو۔ اَ ۔ ہمزہ استفہام۔ رایت فعل یا فاعل جس میں ت فاعل ہے۔ اس کے بعد ک ۔ کما ۔ کم خطاب کے لئے ہیں۔ اور محض ضمیر فاعل کی تاکید کے لئے لائے جاتے ہیں۔ ت کو حالت تثنیہ۔ جمع اور تانیث میں اس کی حالت پر چھوٹ دیا جاتا ہے۔ اور ان حالتوں میں بجائے ت کے ک میں حسب مقام تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ اگر ک۔ کما۔ کم برائے تاکید نہ لائے جائیں تو ت میں ضمیر کے مطابق تبدیلی ہوجائے گی۔ مثلاً ارایت الذی ینھی (96:9) کیا تم نے اس شخص کے حال پر نظر کی جو منع کرتا ہے۔ اور قل ارایتم ما تدعون (45:4) (اے پیغمبر) ان لوگوں سے کہو کہ بھلا دیکھو تو سہی کہ جن کو تم (اللہ کے سوا) پکارتے ہو۔ رأی مادہ۔ مہموز العین اور ناقص یائی ہے۔ اس سے مشتق رویۃ آتا ہے۔
Top