Anwar-ul-Bayan - Az-Zumar : 26
فَاَذَاقَهُمُ اللّٰهُ الْخِزْیَ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۚ وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
فَاَذَاقَهُمُ : پس چکھایا انہیں اللّٰهُ : اللہ الْخِزْيَ : رسوائی فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا ۚ : دنیا وَلَعَذَابُ : اور البتہ عذاب الْاٰخِرَةِ : آخرت اَكْبَرُ ۘ : بہت ہی بڑا لَوْ : کاش كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہوتے
پھر ان کو خدا نے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا مزہ چکھا دیا اور آخرت کا عذاب تو بہت بڑا ہے کاش یہ سمجھ رکھتے
(39:26) اذاقھم ماضی واحد مذکر غائب۔ اذاقۃ باب افعال سے مصدر۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب ۔ (اللہ نے) ان کو چکھایا ۔ الخزی۔ ذلت و اہانت ۔ یہ اذاق کا مفعول ثانی ہے۔ ذلت اور رسوائی صورتیں بگڑ جانا۔ زمین میں دھنسا یا جانا۔ مارا جانا۔ طوفان میں مبتلا ہونا۔ اوپر سے پتھروں کی بارش ہونا۔ غرق کیا جانا وغیرہ شامل ہے۔ لو کانوا یعلمون۔ اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) اگر ضمیر فاعل ان مکذبین کی طرف راجع ہو جن کو دنیا میں ذلت و رسوائی کی سزا دی گئی تھی تو اس کا مطلب ہوگا :۔ کاش وہ تکذیب انبیاء کے نتیجے کو سمجھ لیتے تو تکذیب نہ کرتے۔ (2) اگر ضمیر فاعل کا مرجع منکرین مکہ ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ :۔ اہل مکہ اگر اہل بصیرت اور ارباب نظر ہوتے تو پہلے لوگوں کے حالات سے عبرت حاصل کرتے۔
Top