Anwar-ul-Bayan - Al-Furqaan : 5
وَ قَالُوْۤا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِیَ تُمْلٰى عَلَیْهِ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا
وَقَالُوْٓا : اور انہوں نے کہا اَسَاطِيْرُ : کہانیاں الْاَوَّلِيْنَ : پہلے لوگ اكْتَتَبَهَا : اس نے انہیں لکھ لیا ہے فَهِيَ تُمْلٰى : پس وہ پڑھی جاتی ہیں عَلَيْهِ : اس پر بُكْرَةً : صبح وَّاَصِيْلًا : اور شام
اور کہتے ہیں یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جس کو اس نے لکھ رکھا ہے اور وہ صبح و شام اس کو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں
(25:5) اساطیر۔ اسطورۃ کی جمع (وہ جھوٹی خبر جس کے متعلق یہ اعتقاد ہو کہ وہ جھوٹ گھڑ کر لکھ دی گئی ہے۔ اسی طرح ارجوحۃ (لکڑی کا جھولا) کی جمع اراجیح ہے اثفیۃ (ہنڈیا کا پایہ) کی جمع اثافی اور احدوثۃ (قصہ ، کہانی، خبر) کی جمع احادیث ہے۔ السطر والسطر قطار کو کہتے ہیں خواہ کتاب کی ہو یا درختوں اور آدمیوں کی۔ سطر یسطر (نصر) لکھنا۔ جیسے ن والقلم وما یسطرون (68: 1) ن : قسم ہے قلم کی اور اس کی جو وہ لکھتے ہیں۔ اکتتبھا۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب اس نے اس کو گھڑ کر لکھ رکھا ہے۔ اس نے اس کو لکھوا دلیا ہے۔ اکتتاب (افتعال) من گھڑت چیز کو لکھنا۔ کسی سے لکھوانا۔ ھا کا مرجع اساطیر ہے۔ فھی۔ میںھی اساطیر کی طرف راجع ہے تملی۔ مضارع مجہول واحد مؤنث غائب وہ لکھوائی جاتی ہیں۔ (اساطیر) وہ پڑھی جاتی ہیں۔ املاء کی صورت یہ ہے کہ ایک بولتا جائے یا پڑھتا جائے اور دوسرا لکھتا جائے۔ املاء دراصل املال تھا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے فلیکتب ولیملل الذی علیہ الحق (2:282) پس چاہیے کہ وہ لکھ دے اور چاہیے کہ وہ شخص بول کر لکھوائے جس کے ذمہ حق واجب ہے لام کو ہمزہ سے تخفیف کے لئے بدل دیا گیا ہے۔ ملل مادہ ہے۔ بکرۃ دن کا اول حصہ ۔ صبح۔ اصیلا۔ شام ۔ عصر ومغرب کے درمیان وقت کو کہتے ہیں۔ فائدہ :۔ کفار مکہ و مشرکین انکار رسالت میں اس حد تک بڑھ گئے تھے کہ انہوں نے کتاب اللہ کے متعلق بھی بہتان تراشی میں بڑے شد ومد سے کام لینے لگے۔ کبھی کہتے کہ اسے تو ایک دوسرا آدمی سکھلاتا ہے حالانکہ جس آدمی کی طرف ان کا اشارہ تھا وہ عجمی تھا اور عربی اس کی مادری زبان ہی نہ تھی۔ کبھی کہتے کہ یہ من گھڑت کہانیوں کا مجموعہ ہے اور اس میں اس کی ایک دوسری قوم کے افراد مدد کررہے ہیں۔ جن میں عبید بن الحصر حبشی کاہن، ابو فکیہہ، یسار، عدس، جبر وغیرہ کا نام لیتے تھے۔ حالانکہ یہ ان ہی مشرکین کے آزاد کردہ غلام تھے۔ اور ان کی مادری زبان عربی نہیں تھی۔ بھلا ایسے آدمی ایسی کتاب کے مصنف کیسے ہوسکتے تھے ؟ جس کی فصاحت و بلاغت، حسن بیان اور زور استدلال نے عرب بھر کے ادیبوں، دانشوروں، فصحا وبلغا کے چھکے چھڑا دئیے تھے۔
Top