Anwar-ul-Bayan - Al-Furqaan : 58
وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَمُوْتُ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِهٖ١ؕ وَ كَفٰى بِهٖ بِذُنُوْبِ عِبَادِهٖ خَبِیْرَا٤ۚۛۙ
وَتَوَكَّلْ : اور بھروسہ کر عَلَي الْحَيِّ : پر ہمیشہ زندہ رہنے والے الَّذِيْ لَا يَمُوْتُ : جسے موت نہیں وَسَبِّحْ : اور پاکزگی بیان کر بِحَمْدِهٖ : اس کی تعریف کے ساتھ وَكَفٰى بِهٖ : اور کافی ہے وہ بِذُنُوْبِ : گناہوں سے عِبَادِهٖ : اپنے بندے خَبِيْرَۨا : خبر رکھنے والا
اور اس (خدائے) زندہ پر بھروسہ رکھو جو (کبھی) نہیں مرے گا اور اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح ہی کرتے رہو اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے خبر رکھنے کو کافی ہے
(25:58) توکل : توکل (تفعیل) سے امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ توکل کر بھروسہ رکھ۔ اعتماد کر۔ الحی۔ زندہ۔ حیاۃ سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے۔ کفی۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ (باب ضرب) یہ صیغہ ماضی کا ہے۔ لیکن مراد استمرار ہے۔ کفایۃ مصدر بھی ہے اور اسم مصدر بھی ہے۔ کفایۃ اس چیز کو کہتے ہیں کہ جو ضرورت پوری کر دے۔ کفی ۔ کفی ۔ کافی۔ سب کے معنی ضرورت پوری کرنے والا۔ جس کے بعد کسی کی حاجت نہ رہے۔ کفی کا استعمال لغت عرب میں دو طرح آیا ہے :۔ (1) متعدی، مثلاً کفاک الشیئ۔ تیرے لئے وہ چیز کافی ہے یا جیسے قرآن مجید میں ہے :۔ وکفی اللہ المؤمنین القتال (33:25) اور جنگ میں اللہ اہل ایمان کے لئے کافی ہوگیا۔ اس صورت میں فاعل کے ساتھ باء حرف جر نہیں آتا۔ (2) لازم۔ فاعل کے ساتھ باء حرف جر لایا جاتا ہے یہ باء زائدہ ہے محض تاکید کے لئے آتا ہے مثلاً وکفی باللہ نصیرا (4:45) اور بطور مددگار اللہ ہی کافی ہے۔ فاعل مجرور بالباء (جس فاعل سے قبل باء حرف جر ایا ہو) کے بعد تمیز لایا جاتا ہے ۔ جیسا کہ نصیرا۔ وکفی بہ بذنوب عبادہ خبیرا۔ بہ ضمیر فاعل کے ساتھ باء زائدہ ہے اور خبرا تمیز ہے۔ اور اپنے بندوں کے گناہوں سے باخبر ہونے کے لئے وہی (اللہ) کافی ہے یعنی وہ اس قدر باخبر ہے کہ اس کے بعد کسی اور کی ضرورت نہیں رہتی۔
Top