Anwar-ul-Bayan - Al-Furqaan : 40
وَ لَقَدْ اَتَوْا عَلَى الْقَرْیَةِ الَّتِیْۤ اُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ١ؕ اَفَلَمْ یَكُوْنُوْا یَرَوْنَهَا١ۚ بَلْ كَانُوْا لَا یَرْجُوْنَ نُشُوْرًا
وَلَقَدْ اَتَوْا : اور تحقیق وہ آئے عَلَي : پر الْقَرْيَةِ : بستی الَّتِيْٓ : وہ جس پر اُمْطِرَتْ : برسائی گئی مَطَرَ السَّوْءِ : بری بارش اَفَلَمْ يَكُوْنُوْا : تو کیا وہ نہ تھے يَرَوْنَهَا : اس کو دیکھتے بَلْ : بلکہ كَانُوْا لَا يَرْجُوْنَ : وہ امید نہیں رکھتے نُشُوْرًا : جی اٹھنا
اور یہ کافر اس بستی پر بھی گزر چکے ہیں جس پر بری طرح مینہ برسایا گیا تھا کیا وہ اس کو دیکھتے نہ ہونگے ؟ بلکہ ان کو (مرنے کے بعد) جی اٹھنے کی امید ہی نہیں تھی
(25:40) اتوا۔ اتیان سے ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب وہ پہنچے ۔ وہ آئے۔ وہ گذرے ۔ وہ لائے۔ ضمیر فاعل اہل مکہ کے لئے ہے۔ اتوا علی۔ کسی شے کے پاس سے گذرے ہیں۔ لقد اتوا علی میں لام تاکید کا ہے۔ اور قد اگرچہ ماضی کے ساتھ تقریب کا فائدہ دیتا ہے یعنی اس کو زمانہ حال سے نزدیک بنا دیتا ہے لیکن فعل ماضی کے ساتھ تحقیق کے معنی دیتا ہے جیسے قولہ تعالی۔ قد افلح المومنون (23:1) بیشک بامراد ہوگئے ایمان والے۔ یہاں آیت ہذا (25:40) میں بھی یہ تحقیق کے معنی دیتا ہے۔ لقد اتوا علی القریۃ بیشک وہ ضرور گذرے ہیں اس بستی کے پاس سے۔ القریۃ سے مراد سدوم وغیرہ قوم لوط کے علاقے ہیں۔ امطرت ماضی مجہول واحد مؤنث غائب امطار (افعال) مصدر۔ مطر بارش اس پر بارش برسائی گئی۔ ابو عبیدہ نے تصریح کی ہے کہ مطر (باب نصر) مطر ومطر مصدر سے استعمال باران رحمت میں ہوتا ہے اور امطر (باب افعال) سے عذاب میں۔ مطر السوئ۔ سوء ساء یسوء (نصر) کا مصدر ہے ، برا ہونا قبیح ہونا۔ مطر السوئ۔ مضاف مضاف الیہ۔ قباحت کی بارش، بدبختی کی بارش۔ انجام کا رغم کا باعث بننے والی بارش۔ جیسے مذمت کے سلسلے میں کہتے ہیں رجل السوئ۔ قبیح انسان۔ جس کا فعل غم میں منتج ہو۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے علیہم دائرۃ السوء (9:98) انہیں پر بری مصیبت (واقع) ہو۔ یہاں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے جو انجام کار غم کا موجب ہو ۔ یہاں مطر السوء سے مراد مطر الحجارۃ ہے کیونکہ قوم لوط کی تباہی پتھروں کی بارش سے ہوئی تھی ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔ وامطرنا علیھا حجارۃ من سجیل (11:82) اور ہم نے برسا دئیے ان پر پتھر کھنگر کے۔ مطر امطرت کے مفعول ثانی ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ امطرت مطر السوء جس پر پتھروں کی سخت بارش برسائی گئی تھی۔ جس پر بری طرح پتھرائو کیا گیا تھا۔ افلم یکونوا یرونھا۔ ہمزہ استفہام انکاری کا ہے۔ الفاء جملہ مقدرہ کے عطف کے لئے ہے ای الم یکونوا ینظرون الیھا فلم یکونوا یرونھا۔ کیوں نہیں یہ ان برباد (بستیوں) کی طرف نظر کرتے اور کیوں نہیں ان کو (نظر بصیرت سے) دیکھتے (کہ عذاب اللہ کے آثار سے نصیحت پکڑیں) ھا ضمیر القریۃ کی طرف راجع ہے۔ بل۔ یہاں بطور حرف اضراب آیا ہے یعنی ماقبل سے اعراض کے لئے آیا ہے۔ اور تدارک یعنی اصلاح کے لئے استعمال ہوا ہے۔ یعنی بات یہ نہیں کہ اپنی ظاہری نظروں سے ان برباد بستیوں کو نہیں دیکھتے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کانوا لا یرجون نشورا۔ یہ لوگ مر کر جی اٹھنے کی امید ہی نہیں رکھتے۔ اس پر ان کا ایمان ہی نہیں۔ اس لئے اصلاح احوال کی انہیں فکر ہی نہیں۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو (2: 135) ۔ لا یرجون۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب رجاء مصدر۔ وہ امید نہیں رکھتے ہیں۔ وہ یقین نہیں رکھتے۔ وہ اندیشہ نہیں کرتے ہیں۔ نشورا۔ قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہو کر اٹھنا۔ نشر ینشر (نصر) سے مصدر ہے۔
Top