Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 75
اِذًا لَّاَذَقْنٰكَ ضِعْفَ الْحَیٰوةِ وَ ضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَیْنَا نَصِیْرًا
اِذًا : اس صورت میں لَّاَذَقْنٰكَ : ہم تمہیں چکھاتے ضِعْفَ : دوگنی الْحَيٰوةِ : زندگی وَضِعْفَ : اور دوگنی الْمَمَاتِ : موت ثُمَّ : پھر لَا تَجِدُ : تم نہ پاتے لَكَ : اپنے لیے عَلَيْنَا : ہم پر (ہمارے مقابلہ میں) نَصِيْرًا : کوئی مددگار
اس وقت ہم تم کو زندگی میں بھی (عذاب کا) دونا اور مرنے پر بھی دونا عذاب چکھاتے پھر تم ہمارے مقابلے میں کسی کو اپنا مددگار نہ پاتے۔
(17:75) اذا۔ تب ۔ اس وقت۔ اس صورت میں۔ لاذقنک۔ لام تاکید کے لئے ہے اذقنا ماضی جمع متکلم۔ ہم نے چکھایا۔ ک ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ ہم تجھے ضرور چکھاتے۔ ضعف الحیوۃ وضعف الممات۔ اصل کلام یہ تھا۔ لا ذقنک عذابا ضعفا فی الحیوۃ الدنیا ضعفا فی المماۃ۔ پھر موصوف کو حذف کر کے اس کی جگہ صفت کو قائم رکھا۔ یعنی الضعف پھر موصوف کی اضافت صفت کو دی اور الحیوۃ کا مضاف ہو کر ضعف الحیوۃ بن گیا۔ اسی طرح ضعف المماۃ یعنی دوگنا عذاب دنیا ودوگنا عذاب بعد از موت۔ لک۔ تیرے اپنے لئے ۔ علینا ہمارے مقابلہ میں (پھر آپ اپنے لئے ہمارے مقابلہ میں کوئی مددگار نہ پاتے۔
Top