Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 71
یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْ١ۚ فَمَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖ فَاُولٰٓئِكَ یَقْرَءُوْنَ كِتٰبَهُمْ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا
يَوْمَ : جس دن نَدْعُوْا : ہم بلائیں گے كُلَّ اُنَاسٍ : تمام لوگ بِاِمَامِهِمْ : ان کے پیشواؤں کے ساتھ فَمَنْ : پس جو اُوْتِيَ : دیا گیا كِتٰبَهٗ : اسکی کتاب بِيَمِيْنِهٖ : اس کے دائیں ہاتھ میں فَاُولٰٓئِكَ : تو وہ لوگ يَقْرَءُوْنَ : پڑھیں گے كِتٰبَهُمْ : اپنا اعمالنامہ وَلَا يُظْلَمُوْنَ : اور نہ وہ ظلم کیے جائیں گے فَتِيْلًا : ایک دھاگے کے برابر
جس دن ہم سب لوگوں کو انکے پیشواؤں کے ساتھ بلائیں گے تو جن (کے اعمال) کی کتاب ان کے داہنے ہاتھ میں دی جائے گی وہ اپنی کتاب کو (خوش ہو ہو کر) پڑھیں گے اور ان پر دھاگے برابر بھی ظلم نہ ہوگا۔
(17:71) یوم۔ فعل محذوف اذکرکا مفعول بہٖ ہے ای اذکر یوم ندعوا۔۔ الخ۔ یقرء ون مضارع جمع مذکر غائب قراء ۃ مصدر (باب فتح) وہ پڑھیں گے۔ وہ پڑھتے ہیں۔ فتیلا۔ فتل یفتل (ضرب) فتل رسی بٹنا۔ فتلت الحبل فتلا رسی کو بل دیتا بٹی ہوئی رسی کو مفتول کہتے ہیں۔ کھجور کی گٹھلی کے شگاف میں جو ایک باریک سا ڈورا ہوتا ہے اسے بھی فتیل کہتے ہیں۔ کیونکہ وہ رسی کی شکل و صورت پر ہوتا ہے۔ فتیل اصل میں اس دھاگے کو کہتے ہیں جو دو انگلیوں میں پکڑ کر بٹی جاتی ہے۔ یہ حقیر چیز کے لئے ضرب المثل ہے۔ فتیلہ وہ بتی جس سے چراغ روشن کیا جاتا ہے۔ لا یظلمون فتیلا۔ ان پر ذرہ برابر بھی ظلم یا بےانصافی نہیں کی جائے گی۔ نیز ملاحظہ ہو 4:49 ۔
Top