Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 68
اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ یَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ اَوْ یُرْسِلَ عَلَیْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ وَكِیْلًاۙ
اَفَاَمِنْتُمْ : سو کیا تم نڈر ہوگئے ہو اَنْ : کہ يَّخْسِفَ : دھنسا دے بِكُمْ : تمہیں جَانِبَ الْبَرِّ : خشکی کی طرف اَوْ : یا يُرْسِلَ : وہ بھیجے عَلَيْكُمْ : تم پر حَاصِبًا : پتھر برسانے والی ہو ثُمَّ : پھر لَا تَجِدُوْا : تم نہ پاؤ لَكُمْ : اپنے لیے وَكِيْلًا : کوئی کارساز
کیا تم (اس سے) بےخوف ہو کہ خدا تمہیں خشکی کی طرف (لے جا کر زمین میں) دھنسا دے یا تم پر سنگریزوں کی بھری ہوئی آندھی چلا دے۔ پھر تم اپنا کوئی نگہبان نہ پاؤ۔
(17:68) افامنتم۔ ہمزہ استفہام کے لئے ہے امنتم ماضی جمع مذکر حاضر۔ تم امن میں ہوئے ۔ تم مطمئن ہوئے۔ امن سے۔ کیا تم بےفکر ہوگئے ہو۔ نڈر ہوگئے ہو۔ یخسف بکم۔ مضارع واحد مذکر غائب، منصوب بوجہ عمل ان۔ خسف مصدر ان یخسف بکم۔ وہ تم کو دھنسا دے۔ تمہارے سمیت دھنسا دے۔ جانب البر۔ مضاف مضاف الیہ۔ مل کر یخسف کا منفعول فیہ۔ خشکی کا کنارہ۔ یرسل۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ منصوب بوجہ عمل ان۔ ارسال (افعال) مصدر۔ یرسل علیکم تم پر بھیج دے۔ حاصبا۔ باد سنگ بار۔ پتھروں کا مینہ۔ سخت آندھی۔ نیز وہ پتھرائو جو تند ہوا میں ہو حاصب کہلاتا ہے۔ حصباء سے مشتق ہے۔ حصباء کنکریوں کو کہتے ہیں۔ سورة ملک میں ہے ام امنتم من فی السماء ان یرسل علیکم حاصبا۔ (67:17) کیا تم اس سے نڈر ہوگئے ہو وہ جو کہ آسمان میں ہے کہ وہ تمہارے اوپر ہوائے تند بھیج دے۔
Top