Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 52
یَوْمَ یَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ وَ تَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا۠   ۧ
يَوْمَ : جس دن يَدْعُوْكُمْ : وہ پکارے گا تمہیں فَتَسْتَجِيْبُوْنَ : تو تم جواب دو گے (تعمیل کروگے) بِحَمْدِهٖ : اسکی تعریف کے ساتھ وَتَظُنُّوْنَ : اور تم خیال کروگے اِنْ : کہ لَّبِثْتُمْ : تم رہے اِلَّا : صرف قَلِيْلًا : تھوڑی دیر
جس دن وہ تمہیں پکارے گا تو تم اس کی تعریف کے ساتھ جواب دو گے اور خیال کرو گے کہ تم (دنیا میں) بہت کم (مدت) رہے۔
(17:52) یوم یدعوکم۔ میں یوم کا نصب بوجہ فعل مضمر اذکروا ہے۔ ترجمہ ہوگا۔ یاد کرو وہ دن جب وہ (اللہ ) تمہیں پکارے گا۔ یا بوجہ قریباً کے بدل ہونے کے ہے۔ ترجمہ ہوگا (عجب نہیں یہ وقت قریب ہی آپہنچا ہو) یہ اس روز ہوگا جب اللہ تمہیں پکارے گا۔۔ الخ فتستجیبون بحمدہ۔ فتستجیبون مادہ جوب باب استفعال سے مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ الجوب (باب ضرب) اس کے اصل معنی الجوبہ قطع کرنے کے ہیں۔ الجویہ یہ پست زمین کی طرح (زمین میں گڑھاسا) ہوتا ہے پھر ہر طرح زمین کے قطع کرنے پر بولا جاتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے وثمود الذین جابوا الصخر بالواد (89:9) اور ثمود (کے ساتھ کیا کیا) جو وادی میں پتھر تراشتے (اور مکان بناتے) تھے۔ کسی کلام کے جواب کو جواب اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ قائل کے منہ سے نکل کر فضا کر قطع کرتا ہوا سامع کے کان تک پہنچتا ہے مگر عرف میں ابتداء ً کلام کرنے کو جواب نہیں کہتے بلکہ کلام کے لوٹانے پر جواب کا لفظ بولا جاتا ہے۔ مثلاً قرآن مجید میں ہے ولوطا اذ قال لقومہ اتاتون الفاحشۃ۔۔ فما کان جواب قومہ الا ان قالوا۔۔ الخ (27:54 ۔ 56) اور لوط (کو بھی ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا تھا) جبکہ انہوں نے اپنی قوم والوں سے کہا کیا تم یہ بےحیائی کا کام کرتے ہو ؟۔۔ مگر اس کی قوم کا جواب کچھ نہ تھا سوائے اس کے کہ انہوں نے کہا۔ پھر جواب کا لفظ سوال کے مقابلہ میں بھی استعمال ہوتا ہے اور سوال دو قسم پر ہے : (1) گفتگو کا طلب کرنا۔ اور اس کا جواب گفتگو ہی ہوتی ہے۔ (2) طلب عطا۔ یعنی خیرات طلب کرنا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اسے خیرات دے دی جائے جیسے اجیبوا داعی اللہ (46:31) میں دعا کرنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں۔ جب وہ مجھ سے دعا کرتا ہے۔ الاستجابۃ (باب استفعال) کے متعلق بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابۃ (باب افعال) کے ہیں۔ اصل میں استجابۃ کے معنی جواب تلاش کرنا اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابۃ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے جیسے استحییبوا للہ وللرسول (8:24) خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو۔ کہ یہاں استجیبوا۔ اجیبوا کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ فتستجیبون۔ پس تم قبول کرو گے، تم تعمیل کرو گے۔ تم بجا لائو گے۔ بحمدہ۔ ضمیر فاعل تستجیبون کا حال ہے درآنحالیکہ تم اس (اللہ) کی حمد کر رہے ہوگے۔ وتظنون۔ وائو عاطفہ، تظنون کا عطف تستجیبون پر ہے۔ اور تم یہ خیال کروگے (قیامت کی ہولناکی کے پیش نظر) ۔ یا مبتداء انتم مقدرہ ہے اور جملہ وانتم تظنون موضع حال میں ہے اور درآنحالیکہ تم یہ گمان کر رہے ہو گے۔ ان لبثتم میں ان نافیہ ہے ای ما لبثتم فی القبور او فی الدنیا۔ کہ تم قبروں میں یا دنیا میں نہایت قلیل عرصہ رہے ہو۔
Top