Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 35
وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَ زِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ١ؕ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا
وَاَوْفُوا : اور پورا کرو الْكَيْلَ : پیمانہ اِذَا كِلْتُمْ : جب تم ماپ کر دو وَزِنُوْا : اور وزن کرو تم بِالْقِسْطَاسِ : ترازو کے ساتھ الْمُسْتَقِيْمِ : سیدھی ذٰلِكَ : یہ خَيْرٌ : بہتر وَّاَحْسَنُ : اور سب سے اچھا تَاْوِيْلًا : انجام کے اعتبار سے
اور جب (کوئی چیز) ناپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا بھرا کرو اور (جب تول کردو) تو ترازو سیدھی رکھ کر تولا کرو۔ یہ بہت اچھی بات اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت بہتر ہے۔
(17:35) اوفوا۔ تم پورا کرو۔ تم ایفا کرو۔ ایفاء (افعال) مصدر۔ امر ۔ جمع مذکر حاضر۔ الکیل۔ مصدر۔ پیمانے سے غلہ وغیرہ کا ماپنا۔ اوفوا الکیل۔ جب ماپو تو پورا پورا ماپ دو ۔ مراد غلہ ہے۔ کلتم۔ ماضی جمع مذکر حاضر۔ کیل مصدر اصل میں کیلتم تھا۔ باب ضرب اذا کلتم جب تم پیمانہ بھر کردو۔ یا کوئی چیز غلہ وغیرہ پیمانہ سے ماپ کردو۔ اوفوا۔ تو پورا پورا دو ۔ القسطاس۔ ترازو، یہ لفظ رومی ہے۔ قسطاس المستقیم۔ انصاف کی ترازو۔ صحیح ترازو۔ تاویلا۔ انجام کار۔ مصدر ہے اول سے جس کے معنی اصل کی طرف لوٹنے کے ہیں اسی لئے جائے بازگشت کو موئل کہت ہیں۔ تاویل کے معنی کسی چیز کو اس کی غایت کی طرف لوٹانے کے ہیں جو اس سے بلحاظ علم یا عمل کے مقصود ہوتی ہے۔ چناچہ غایت علمی کے متعلق فرمایا وما یعلم تاویلہ الا اللہ (3:6) حالانکہ اس کی مراد اصلی خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ غایت عملی کے متعلق فرمایا ھل ینظرون الا تاویلہ یوم یاتی تاویلہ (7:53) اب وہ صرف اس کی تاویل یعنی وعدۂ عذاب کے انجام کار کا انتظار کر رہے ہیں جس دن اس وعدۂ عذاب کے نتائج سامنے آئیں گے۔ یعنی اس دن سے جو غایت مقصود ہے وہ عملی طور پر ان کے سامنے آجائے گی۔
Top