Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 11
وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالْخَیْرِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا
وَيَدْعُ : اور دعا کرتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان بِالشَّرِّ : برائی کی دُعَآءَهٗ : اس کی دعا بِالْخَيْرِ : بھلائی کی وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان عَجُوْلًا : جلد باز
اور انسان جس طرح (جلدی سے) بھلائی مانگتا ہے اسی طرح برائی مانگتا ہے اور انسان جلد باز (پیدا ہوا) ہے
(17:11) یدع۔ مضارع واحد مذکر غائب دعاء سے باب نصر وہ دعا مانگتا ہے وہ دعا کرتا ہے۔ دعاء ہ۔ مضاف مضاف الیہ۔ اس کا دعا کرنا۔ اس کا دعا مانگنا ای کد عائہ بالخیر۔ اپنی بھلائی کی دعا کی طرح۔ یعنی جس طرح اس کو اپنی بھلائی کی دعا کرنی چاہیے بلا تامل اسی طرح وہ اپنی برائی کے لئے بھی دعا کردیتا ہے (نتائج سے لاپرواہی کرتے ہوئے) آیت 10 ۔ میں بالوضاحت ارشاد فرمایا گیا کہ مؤمنین صالحین کے لئے اجرکبیر (یعنی جنت ) ہے اور منکرین وکافرین کے لئے عذاب الیم (دوزخ) ہے۔ لیکن بعض لوگ یعنی کافر سزا و عذاب کے لئے بھی یوں بار بار دعائیں کرتے ہیں جیسے وہ جزایا رحمت کے لئے کر رہے ہوں۔ مثلاً کفار مکہ کہ وہ اپنے اس احمقانہ پن میں بار بار کہتے تھے۔ اللہم ان کان ھذا (ای القران) ھو الحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السماء اوائتنا بعذاب الیم۔ (8:32) اے اللہ اگر یہ قرآن تیری طرف سے سچ ہے (تو ہمارے اس انکار پر) تو ہم آسمان سے پتھر برسا دے یا لے آہم پر دردناک عذاب۔ یا مثلاً ان سے قبل قوم ہود (علیہ السلام) نے کہا فاتنا بما تعدنا ان کنت من الصدقین (7:70) اگر تم سچے ہو تو لے آئو ہم پر وہ عذاب جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔ یا حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم نے کہا وقالوا یصالح ائتنا بما تعدنا ان کنت من المرسلین (7:77) اور انہوں نے کہا کہ اے صالح لے آئو ہم پر اس عذاب کو جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو اگر تم (سچ مچ) اللہ کے فرستادگان میں سے ہو۔ یا مثلاً حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کا کہنا قالوا ینوح قد جاد لتنا فاکثرت جدالنا فاتنا بما تعدنا ان کنت من الصادقین۔ (11:32) اے نوح تم نے ہم سے جھگڑا کیا اور جھگڑے کو بہت طول دیا۔ (اس مباحثہ کو رہنے دو ) اگر تم سچے ہو تو لے آئو ہم پر وہ عذاب جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو۔ صاحب تفہیم القرآن رقمطراز ہیں : یہ جواب ہے کفار مکہ کی ان احمقانہ باتوں کا جو وہ بار بار حضور نبی کریم ﷺ سے کہتے تھے کہ بس لے آئو وہ عذاب جس سے تم ہمیں ڈرایا کرتے ہو۔ اوپر کے بیان کے بعد معاً یہ فقرہ ارشاد فرمانے کی غرض اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ بےوقوفو ! خیر مانگنے کی بجائے عذاب مانگتے ہو تمہیں کچھ اندازہ بھی ہے کہ خدا کا عذاب جب کسی قوم پر آتا ہے تو اس کی کیا گت بنتی ہے ! اور اگر اس آیت سے یہ مطلب لیا جاوے کہ یہ خطاب سب انسانوں کے لئے ہے تو اس بارہ تفسیر ابن کثیر میں ہے :۔ انسان کبھی کبھی دلگیر اور ناامید ہو کر اپنی سخت غلطی سے خود اپنے لئے برائی کی دعا مانگنے لگتا ہے کبھی اپنے مال واولاد کے لئے بددعا کرنے لگتا ہے کبھی موت کی کبھی ہلاکت کی کبھی بربادی کی دعا کرتا ہے لیکن اس کا خدا خود اس سے بھی زیادہ اس پر مہربان ہے ادھر یہ دعا کرے ادھر وہ قبول فرمائے تو ابھی ہلاک ہوجائے۔ حدیث شریف میں بھی ہے کہ اپنی جان ومال کے لئے بد دعا نہ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ کسی قبولیت کی ساعت میں ایسا کوئی کلمہ ٔ بد زبان سے نکل جائے (اور وہ بددعا اپنے خلاف ہی قبول ہوجائے) اس کی وجہ سے صرف انسان کی اضطرابی حالت اور اس کی جلد بازی ہے۔ یہ ہے ہی جلد باز۔ عجولا۔ عجل سے مبالغہ کا صیغہ ہے ۔ بہت جلد باز ۔ بوجہ خبر کان منصوب ہے۔
Top