Anwar-ul-Bayan - Al-Hijr : 14
وَ لَوْ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَآءِ فَظَلُّوْا فِیْهِ یَعْرُجُوْنَۙ
وَلَوْ : اور اگر فَتَحْنَا : ہم کھول دیں عَلَيْهِمْ : ان پر بَابًا : کوئی دروازہ مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان فَظَلُّوْا : وہ رہیں فِيْهِ : اس میں يَعْرُجُوْنَ : چڑھتے
اور اگر ہم آسمان کا کوئی دروازہ ان پر کھول دیں اور اس میں چڑھنے بھی لگیں
(15:14) فظلوا۔ ماضی جمع مذکر غائب ظل اور ظلول سے (باب فتح وسمع) الظل سایہ یہ الضح دھوپ کی ضد ہے ظل اور ظلول کے معنی دن میں کسی کام کو انجام دینے کے ہیں جس طرح بات یبیت کا استعمال رات گذارنے کے لئے ہوتا ہے ایسے ہی ظل یظل کا استعمال دن گذارنے کے لئے ہوتا ہے۔ یہ افعال ناقصہ میں سے ہے اور کسی کام کو دن کے وقت کرنے کے معنی میں آتا ہے کیونکہ دن کے وقت (از طلوع آفتاب تا غروب آفتاب) چیزوں کا سایہ موجود رہتا ہے۔ یہ صار کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے لیکن اس وقت دن کی تخصیص نہیں رہتی مثلاً لظلوا من بعدہ یکفرون۔ (30:51) تو اس کے بعد وہ ناشکری کرنے لگ جائیں گے۔ فظلوا فیہ یعرجون۔ پھر وہ دن دہاڑے چڑھنے لگیں۔ فیہ۔ ای فی ذلک الباب۔ اس دروازہ میں۔ فظلوا فیہ یعرجون۔ لفظی ترجمہ یہ ہے اور وہ روز روشن میں اس میں چڑھنے لگیں۔ اس میں ضمیر کا مرجع مشرکین و کفار ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اگر ان مشرکین کے لئے آسمان میں ایک دروازہ ہم کھول دیں اور وہ اس میں دن دہاڑے چڑھ جائیں اور عالم بالا کے عجائبات اپنی آنکھوں سے واضح طور پر دیکھ لیں تب بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔
Top