بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - Nooh : 1
اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اِنَّآ : بیشک ہم نے اَرْسَلْنَا : بھیجا ہم نے نُوْحًا : نوح کو اِلٰى قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم کی طرف اَنْ اَنْذِرْ : کہ ڈراؤ قَوْمَكَ : اپنی قوم کو مِنْ : سے قَبْلِ : اس سے پہلے اَنْ يَّاْتِيَهُمْ : کہ آئے ان کے پاس عَذَابٌ اَلِيْمٌ : عذاب دردناک
بلاشبہ ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ اپنی قوم کو اس سے پہلے ڈرایئے کہ ان پر دردناک عذاب آجائے
حضرت نوح (علیہ السلام) کا اپنی قوم سے خطاب، نعمتوں کی تذکیر، توحید کی دعوت، قوم کا انحراف اور باغیانہ روش یہاں سے سورة ٴ نوح شروع ہو رہی ہے اور بھی کئی سورتوں میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی بعثت کا اور ان کی قوم کی نافرمانی کا اور قوم کے انجام کا تذکرہ ہوچکا ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے تقریباً ایک ہزار سال کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) کی بعثت ہوئی وہ اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال رہے ان لوگوں میں بت پرستی پھیل گئی تھی۔ بت بنا لیتے تھے اور ان کے نام بھی تجویز کرلیتے تھے جو اس سورت کے دوسرے رکوع میں مذکور ہیں، حضرت نوح (علیہ السلام) نے انہیں طرح طرح سے سمجھایا توحید کی اور اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کی دعوت دی، لیکن ان لوگوں نے نہ مانا اور طرح طرح سے کٹ حجتی کرنے لگے جس کا کچھ تذکرہ سورة ٴ اعراف میں اور سورة ٴ ھود میں گزر چکا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ صرف اللہ کی عبادت کرو میں اللہ کا رسول ہوں میری بات مانو میں جس طرح کہوں اس طرح زندگی گزارو۔ ایمان قبول کرلو گے تو تمہارے گزشتہ سب گناہ معاف ہوجائیں گے اور اللہ تعالیٰ نے جو تمہارے لیے ایک اجل مقرر فرما دی ہے وہ تمہیں اس اجل تک پہنچا دے گا (یہ اجل ایمان اور اطاعت کی صورت میں ہے) اور اگر تم کفر اور معصیت پر جمے رہے تو وہ اجل تمہارا صفایا کر دے گی جو ایمان اور اطاعت والی اجل کے علاوہ ہے اور بصورت عدم ایمان تمہیں اس کے وقت پر ہلاک ہونا ہوگا، بلاشبہ اللہ نے جو اجل مقرر فرمائی ہے اس میں تاخیر نہیں کی جاتی لہٰذا تم اس اجل کے آنے سے پہلے ایمان قبول کرلو جو بحالت کفر تمہارے ہلاک ہونے کے لیے مقرر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مقرر فرمودہ اجل جب آتی ہے تو موخر نہیں کی جاتی کیا ہی اچھا ہوتا تم جانتے ہوتے حق کو مانتے، موحد بنتے۔ اوپر جن باتوں کا تذکرہ تھا یہ وہ باتیں تھیں جن کے ذریعہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے خطاب فرمایا ان کے مخاطب ان کی بات نہ مانیں تو اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں انہوں نے عرض کیا کہ اے میرے رب میں نے اپنی قوم کو رات دن دعوت دی ایمان کی طرف بلایا اور اس بارے میں کوئی کوتاہی نہیں کی سستی سے کام نہیں لیا۔ لیکن وہ لوگ الٹی ہی چال چلے۔ میں نے انہیں جس قدر بھی دعوت دی وہ اسی قدر دور بھاگے، میں نے کہا کہ ایمان قبول کرو اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت فرما دے گا تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیں یعنی بات سننا بھی گوارا نہ کیا اور اسی پر بس نہیں کیا بلکہ کپڑے اوڑھ کر لیٹ گئے تاکہ نہ مجھے دیکھ سکیں نہ میری بات سن سکیں، انہیں کفر پر اصرار ہے اور ان میں تکبر کی شان بھی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ میری بات مانیں گے (شرک کو چھوڑ کر توحید پر آجائیں گے) تو ان کی بڑائی میں فرق آجائے گا۔ قبول حق کی راہ میں تکبر رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے مزید عرض کیا کہ اے میرے رب میں نے انہیں زور سے بھی دعوت دی۔ شاید زور سے بات کرنے سے مان جائیں لیکن وہ نہ مانے، آہستہ آہستہ طریقہ پر بھی انہیں سمجھایا بجھایا۔ حق پر لانے کی کو شس کی لیکن انہوں نے دھیان نہ دیا ان سے میں نے کہا کہ دیکھو ایمان قبول کرلو اپنے رب سے مغفرت چاہو وہ بہت بڑا معاف فرمانے والا ہے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور خوب زیادہ بارش بھی بھیجے گا، یہ جو تمہیں قحط سالی کی تکلیف ہو رہی ہے دور ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اموال میں بھی اضافہ فرمائے گا اور بیٹوں میں بھی، وہ تمہیں باغ بھی دے گا اور نہریں بھی جاری فرما دے گا۔ اللہ تعالیٰ کی شان تخلیق اور اس کے انعامات تمہارے سامنے ہیں اس کی بنائی ہوئی چیزوں کو دیکھ رہے ہو اور یہ بھی جانتے ہو کہ یہ سب کچھ اسی نے پیدا فرمایا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عظمت کے قائل نہیں ہوتے۔ دیکھو اس نے تمہیں مختلف اطوار سے پیدا فرمایا تم پہلے نطفہ تھے پھر جمے ہوئے خون کی صورت بن گئے، پھر ہڈیاں بن گئیں اور ان پر گوشت چڑھ گیا۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی کاریگری ہے اس نے تمہیں پیدا فرما کر احسان فرمایا لیکن تمہیں کیا ہوگیا عقلوں پر پتھر پڑگئے کہ خالق تعالیٰ شانہ کی ذات پاک پر ایمان نہیں لاتے اور اس کی وحدانیت کے قائل نہیں ہوتے۔ انسانوں کے اپنے اندر جو دلائل توحید ہیں ان کے ذکر کے ساتھ حضرت نوح (علیہ السلام) نے دوسرے دلائل کی طرف بھی متوجہ کیا اور فرمایا کیا تم یہ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے نیچے اوپر سات آسمان پیدا فرمائے اور ان میں چاند کو نور بنایا اور سورج کو چراغ بنایا جس طرح ایک گھر میں ایک چراغ کے ذریعے سارے گھر کی چیزوں کو دیکھ لیا جاتا ہے اسی طرح سورج کے ذریعے اہل دنیا سورج کی روشنی میں وہ سب کچھ دیکھ لیتے ہیں جو زمین کے اوپر ہے۔ مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں زمین سے ایک خاص طریقہ پر پیدا فرمایا ہے جس کا ذکر حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے سلسلہ میں گزر چکا ہے پھر وہ تمہیں اسی زمین میں واپس فرما دے گا یعنی موت کے بعد اسی زمین میں چلے جاؤ گے پھر وہ تمہیں قیامت کے دن ایک خاص طریقہ پر قبروں سے نکالے گا ہڈیاں آپس میں مرکب ہوجائیں گی وہ ان پر گوشت پیدا فرما دے گا اور قبروں سے تیزی کے ساتھ نکل کر میدان حشر کی طرف روانہ ہوجاؤ گے۔ اس میں حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی شان خالقیت بھی بیان فرمائی اور میدان حشر کی حاضری کا بھی احساس دلا دیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو عالم علوی کے ذکر کے بعد عالم سفلی کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ دیکھو اللہ نے تمہارے لیے زمین کو بساط یعنی فرش بنا دیا جس طرح بستر بچھا ہوا ہوتا ہے اسی طرح زمین تمہارے لیے بچھی ہوئی ہے اس زمین میں چلتے پھرتے ہو یہاں سے وہاں آتے جاتے ہو، اللہ تعالیٰ نے جو راستے بنا دیئے ہیں ان سے فائدہ اٹھاتے ہو اپنی حاجات پوری کرتے ہو، زمین کو تمہارے قابو میں دے رکھا ہے، اس سے طرح طرح کے منافع حاصل کرتے ہو۔ قال تعالیٰ فی سورة الملک ﴿هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِيْ مَنَاكِبِهَا وَ كُلُوْا مِنْ رِّزْقِهٖ 1ؕ ﴾ (اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو مسخر فرمایا، سو تم اس کے راستوں میں چلو اور اللہ کے رزق میں سے کھاؤ) ۔ فائدہ : آفتاب کو جو سراج یعنی چراغ بتایا اس کے بارے میں صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ ممکن ہے سراج سے اس لیے تشبیہ دی ہو کہ چراغ میں خود اپنی ذاتی روشنی ہوتی ہے کسی دوسری چیز سے منعکس ہو کر نہیں آتی۔ سورج میں اپنی روشنی ہے جو کسی دوسرے سیارے سے نہیں آئی جبکہ چاند کی روشنی آفتاب سے منعکس ہو کر آتی ہے لہٰذا چاند کو نور اور شمس کو سراج فرمایا۔ اور ﴿وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِیْہِنَّ نُوْرًا﴾ جو فرمایا ہے اس کے بارے میں صاحب روح المعانی فرماتے ہیں : جعلہ فیھن مع انہ فی احداھن وھی السماء الدنیا کما یقال زید فی بغداد وھو فی بقعة منھا (چاند کا ذکر فرماتے ہوئے فیھن ضمیر جمع استعمال فرمائی ہے حالانکہ وہ سماء دینا یعنی قریب والے آسمان میں ہے یہ ایسا ہی ہے جیسے کہا جاتا ہے زید بغداد میں ہے حالانکہ وہ بغداد کے ایک حصے میں ہوتا ہے) ۔ اور صاحب بیان القرآن نے اس کی ترجمانی کرتے ہوئے یوں فرمایا ہے کہ چاند گو سب آسمانوں میں نہیں مگر فیھن باعتبار مجموعہ کے فرما دیا۔ زمین کو جو یہاں سورة ٴ نوح میں بساط فرمایا اور سورة ٴ نباء میں مہاد فرمایا اور سورة الغاشیہ میں ﴿ وَ اِلَى الْاَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْٙ0020﴾ فرمایا اس سے زمین کا مسطح یعنی غیر کرہ ہونا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ بڑے کرہ پر بہت سی چیزیں رکھ دی جائیں خواہ کتنی ہی بڑی ہوں تو یہ محسوس نہیں ہوگا یہ کرہ پر رکھی ہیں جیسے ایک گیند پر ایک چیونٹی بیٹھ جائے تو اس کے جسم کے اعتبار سے گیند ایک سطح ہی معلوم ہوگی اور یہ بات بھی سمجھ لینا چاہیے کہ زمین کا کرہ ہونا یا کرہ نہ ہونا کوئی امر شرعی نہیں ہے جس کا اعتقاد رکھا جائے زمین اگر کرہ ہو تو کسی آیت سے اس کی نفی نہیں ہوتی۔
Top