Anwar-ul-Bayan - As-Saff : 5
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِیْ وَ قَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ١ؕ فَلَمَّا زَاغُوْۤا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَ مُوْسٰى : کہا موسیٰ نے لِقَوْمِهٖ : اپنی قوم سے يٰقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِيْ : اے میری قوم کیوں تم مجھ کو اذیت دیتے ہو وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ : حالانکہ تحقیق تم جانتے ہو اَنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ : بیشک میں اللہ کا رسول ہوں اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف فَلَمَّا زَاغُوْٓا : پھر جب وہ ٹیڑے ہوئے اَزَاغَ اللّٰهُ : ٹیڑھا کردیا اللہ نے قُلُوْبَهُمْ : ان کے دلوں کو وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَهْدِي : نہیں ہدایت دیتا الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ : فاسق قوم کو
اور جب کہ موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم مجھ کو کیوں ایذا پہنچاتے ہو حالانکہ تم کو معلوم ہے کہ میں تمہارے پاس اللہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں پھر جب وہ لوگ ٹیڑھے ہی رہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔ اور اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کا اعلان کہ ہم اللہ کے رسول ہیں پہلی آیت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس بات کا تذکرہ فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا۔ ” تم مجھے کیوں ایذا دیتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ کے رسول کی تعظیم اور احترام ہونا چاہئے اور ایذا دینا اس کے بالکل خلاف ہے۔ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کو طرح طرح سے ایذادی جس کا تذکرہ سورة البقرہ میں گزر چکا ہے اور سورة ٴ احزاب کے آخری رکوع میں بھی اس کا ذکر ہے۔ ان کو سمجھایا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسول کی اطاعت کرو ایذامت دو ، لیکن بات ماننے اور حق قبول کرنے کو تیار نہ ہوئے اسی کو فرمایا ﴿ فَلَمَّا زَاغُوْۤا اَزَاغ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ ﴾ (پھر جب وہ حق سے ہٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو حق سے ہٹا دیا) ۔ گمراہوں کا یہی طریقہ ہے کہ وہ حق کو قبول نہیں کرتے، حق پہنچنے اور بار بار سمجھانے کے باوجود حق پر نہیں آتے جب باطل پر ہی جمے رہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی اس ضد اور عناد اور مخالفت کی وجہ سے محرومیت کی مار پڑتی ہے پھر انہیں حق قبول کرنے کی توفیق نہیں ہوتی لہٰذا برابر نافرمانی کو ہی اختیار کرتے چلے جاتے ہیں اور فرما نبرداری کو اختیار نہیں کرتے اور اپنے دلوں میں ہدایت کو جگہ دینے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوتے۔ آیت کے ختم پر فرمایا ﴿ وَ اللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ 005﴾ کہ اللہ تعالیٰ ایسے نافر مانوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ اراء ۃ الطریق یعنی راہ حق دکھانے کے بعد انہیں قبول حق کی توفیق نہیں دی جاتی دوسرے آیت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر ہے کہ انہوں نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ یقین جانو میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں تمہارے پاس جو پہلے سے کتاب یعنی توراۃ ہے اس کی تصدیق کرتا ہوں اور میرے بعد جس رسول ﷺ کی آمد ہوگی ان کی آمد کی خوشخبری دیتا ہوں ان کا نام احمد ہوگا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل سے بہت سی باتیں کیں انہیں توحید کا سبق دیا شرعی احکام سکھائے لیکن ان میں سے چند ہی لوگوں نے بات مانی جنہیں حواری کہا جاتا ہے اکثر بنی اسرائیل ان کے دشمن ہوگئے اور ان کے قتل کے درپے ہوگئے، قتل تو نہ کرسکے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اوپر اٹھالیا جیسا کہ سورة النساء میں رکوع نمبر 22 میں بیان فرمایا ہے لیکن بعد میں بعض یہودیوں کے ورغلانے اور بہکانے سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہونے کا عقیدہ بنالیا جیسا کہ سورة المائدہ اور سورة توبہ میں بیان ہوچکا ہے یہ لوگ آج تک اسی عقیدہ پر جمے ہوئے ہیں۔
Top