بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - As-Saff : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ لِلّٰهِ : تسبیح کی ہے اللہ کے مَا فِي السَّمٰوٰتِ : ہر چیز نے جو آسمانوں میں ہے وَمَا فِي الْاَرْضِ : اور جو زمین میں ہے وَهُوَ الْعَزِيْزُ : اور وہ زبردست ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
اللہ کی تسبیح بیان کی ان سب چیزوں نے جو آسمانوں میں اور زمین میں ہیں اور وہ عزیز ہے حکیم ہے،
جو کام نہیں کرتے ان کے دعوے کیوں کرتے ہو ؟ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ سے روایت ہے کہ ہم چند صحابہ بیٹھے ہوئے تھے آپس میں ہم نے (اچھے) اعمال کا تذکرہ کیا اور ہم نے کہا کہ اگر ہمیں پتہ چل جاتا کہ کون ساعمل اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے تو ہم اس عمل کو اختیار کرلیتے اس پر اللہ جل شانہ نے ﴿سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ 1ۚ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ 001 يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ 002﴾ نازل فرمائی۔ (سنن الترمذی ابواب التفسیر سورة الصف) اور معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ جب صحابہ نے کہا کہ اگر ہمیں معلوم ہوجاتا کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب عمل کیا ہے تو ہم اس عمل کو اختیار کرلیتے اور ہم اپنے جان و مال خرچ کرتے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِهٖ ﴾ نازل فرمائی پھر قریب ہی غزوہ احد کا واقعہ پیش آگیا جب اس میں ابتلا ہوا تو بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت ﴿ لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ 002﴾ نازل فرمائی کہ تم وہ بات کیوں کہتے ہو جسے کرتے نہیں۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ جب شہداء بدر کا ثواب سنا تو صحابہ نے کہا کہ اگر آئندہ ہم کسی جہاد کے موقعہ پر حاضر ہوئے تو پوری قوت کے ساتھ جنگ کریں گے پھر اگلے سال جب غزوہ احد کا موقع آیا تو بھاگ کھڑے ہوئے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ وہ بات کیوں کہتے ہو جسے کرتے نہیں ہو۔ روح المعانی میں ابن زید ؓ سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت منافقین کے بارے میں نازل ہوئی جو وہ مسلمانوں سے جھوٹے وعدے کیا کرتے تھے کہ ہم مدد کریں گے پھر ساتھ نہیں دیتے تھے۔ مفسر قرطبی نے ایک اور بھی قصہ لکھا ہے کہ وہ یہ کہ ایک شخص مسلمانوں کو بہت ایذا دیتا تھا۔ حضرت صہیب ؓ نے اسے قتل کردیا قتل تو کیا انہوں نے لیکن ایک آدمی نے اس عمل کو اپنی طرف منسوب کرلیا اور خدمت عالی میں جاکر عرض کیا کہ فلاں شخص کو میں نے قتل کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو اس کے قتل کی خبر سے خوشی ہوئی اس کے بعد حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے حضرت صہیب ؓ کو توجہ دلائی کہ تم نے رسول اللہ ﷺ کو یہ خبر کیوں نہ دی کہ میں نے قتل کیا ہے دوسرے شخص نے اسے اپنی طرف منسوب کرلیا۔ (اور رسول اللہ ﷺ کو غلط خبر دیدی) اس پر صہیب ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو صحیح صورت حال بتادی۔ اس پر آیت کریمہ ﴿لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ 002﴾ نازل ہوئی۔ جس میں غلط خبر دینے والے آدمی کو تنبیہ فرمادی۔ آیت کریمہ کا سبب نزول اگر وہ سب امور ہوں جن کا مذکورہ بالا روایات میں تذکرہ کیا گیا ہے تو اس میں کچھ بعد نہیں ہے آیت میں مسلمانوں کو جو عمومی خطاب فرمایا ہے سب کو اس میں غور کرنا لازم ہے ہر شخص آیت کے مضمون کو سوچے اور اپنی جان پر نافذ کرے اور یہ دیکھے کہ زندگی میں کیا کیا جھول جھال ہیں اور قول اور فعل میں جو یکسانیت ہونی چاہئے وہ ہے یا نہیں، ہر مسلمان ایمان کے تقاضے پورے کرے اللہ تعالیٰ سے جو وعدے كئے ہیں ان کو پورا کرے جو نذر کرے اسے پوری کرے جس کسی سے جو وعدہ کرے اسے بھی پورا کرے۔ (بشرطیکہ گناہ کا وعدہ نہ ہو، گناہ کا وعدہ کرنا بھی گناہ ہے اور اسے پورا کرنا بھی گناہ ہے) جو کوئی کام خیر کا نہ کیا ہو اسے اپنی طرف منسوب نہ کرے، لوگوں کے سامنے دینی باتیں بیان کرے اور امرو نہی والی آیات اور احادیث پڑھ کر سنائے اور اس پر خود بھی عمل کرے۔ ﴿لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ 002﴾كے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ﴿ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ 003 ﴾ (اللہ کے نزدیک یہ ناراضگی کی بات ہے کہ تم وہ کہو جو نہ کرو) ۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچنے کی ہر شخص کوشش کرے اور اپنے قول اور فعل میں یکسانیت رکھے۔ ان خطباء کی بد حالی جن کے قول وفعل میں یکسانیت نہیں : حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے سیر کرائی گئی اس رات میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں، میں نے جبرائیل سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ آپ کی امت کے خطیب ہیں جو لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور اپنی جانوں کو بھول جاتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ آپ کی امت کے خطیب ہیں جو وہ باتیں کہتے ہیں جن پر خود عامل نہیں اور اللہ کی کتاب پڑھتے ہیں اور عمل نہیں کرتے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 438) واضح رہے کہ آیت کریمہ کا مضمون یہ ہے کہ اپنے قول وفعل میں یکسانیت رکھو جو بات کرو تمہارا اپنا عمل بھی اس کے مطابق ہو اس میں دعوت و تبلیغ امر بالمعروف ونہی عن المنکر بھی آگیا۔ آیت کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ عمل نہیں کرتے تو دینی باتیں بھی نہ کرو بلکہ مطلب یہ ہے کہ خیر کی باتیں بھی کرو اور ان پر عمل بھی کرو، یہ بات اس لئے واضح کی گئی کہ بہت سے وہ لوگ جو بےعمل ہیں امر بالمعروف ونہی عن المنکر نہیں کرتے اور یوں کہتے ہیں کہ جب ہم عمل نہیں کرتے تو ہم تبلیغ کر کے گناہگار کیوں بنیں یعنی کہ سورة الصف کی مخالف کیوں کریں۔ یہ ان لوگوں کی جہالت ہے اور نفس کی شرارت ہے۔ قرآن کریم نے یہ تو نہیں فرمایا کہ نہ حق کہو نہ عمل کرو، قرآن کریم کا مطلب تو یہ ہے کہ دونوں عمل کرو یہ بھی سمجھانا چاہئے کہ احکام شرعیہ پر چلنے کا مستقل حکم ہے اور حق بات کہنے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرنے کا مستقل حکم ہے۔ ایک حکم چھوٹا ہوا ہے تو دوسرے حکم کو چھوڑ کر گناہگار کیوں ہوں جس جس موقع پر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فرمان انجام دینے کا حکم ہے اسے پورا کریں دونوں حکموں کو چھوڑ کردوہرے گناہگار کیوں ہوں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : كلكم راع وكلكم مسول عن رعیتہ کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک سے ان کے بارے میں سوال ہوگا جن کی نگرانی سپرد کی گئی ہے۔ (رواہ البخاری صفحہ 783: ج 2) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ( من رای منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ و ذلک اضعف الایمان۔ ) (تم میں سے جو کوئی شخص منکر یعنی خلاف شرع کام دیکھے تو اسے ہاتھ سے بدل دے سو اگر ہاتھ سے بدلنے کی طاقت نہ ہو تو زبان سے بدل دے سو اگر زبان سے بدلنے کی طاقت نہ ہو تو دل سے بدل دے یعنی دل سے خلاف شرع کام کو برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے) ۔ (رواہ مسلم صفحہ 51: ج 1) اس حدیث میں ہر شخص کو برائی سے روکنے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ تبلیغ بھی کرو اور عمل بھی کرو۔ آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نہ عمل کرو نہ تبلیغ کرو۔
Top