Anwar-ul-Bayan - As-Saff : 10
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِیْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ : اے لوگو اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے ہو هَلْ اَدُلُّكُمْ : کیا میں رہنمائی کروں تمہاری عَلٰي تِجَارَةٍ : اوپر ایک تجارت کے تُنْجِيْكُمْ : بچائے تم کو مِّنْ عَذَابٍ : عذاب سے اَلِيْمٍ : دردناک
اے ایمان والو ! کیا میں تم کو ایسی سودا گری بتلاؤں جو تم کو ایک درد ناک عذاب سے بچالے
ایسی تجارت کی بشارت جو عذاب الیم سے نجات کا ذریعہ اور جنت ملنے کا وسیلہ ہوجائے ان آیات میں اہل ایمان کو آخرت کی تجارت کی طرف توجہ دلائی ہے دنیا میں کھانے پینے، پہننے اور دیگر ضروریات کے لئے کسب مال کی ضرورت ہوتی ہے جسے بہت سے لوگ تجارت کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں اس میں بہت سے لوگ بہت زیادہ انہماک کرلیتے ہیں موت اور موت کے بعد کے حالات اور آخرت کے اجرو ثواب میں دھیان ہی نہیں دیتے زیادہ مال کی طلب میں ایسے لگتے ہیں کہ آخرت میں کام دینے والے اعمال کو بھول ہی جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ شانہ نے فرمایا کہ اے ایمان والو کیا میں تمہیں ایسی تجارت اور سودا گری نہ بتاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دیدے، تجارت میں دونوں چیزیں دیکھی جاتی ہیں اول یہ کہ نفع ہو دوسرے یہ کہ نقصان نہ ہو اور دوسری چیز کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے اور یہ مقولہ تو مشہور ہے کہ دفع مضرت جلب منفعت سے بہتر ہے لہٰذا عذاب سے نجات دینے کو پہلے بیان فرمایا بعد میں جنت کے داخلہ کی بشارت دی۔ دونوں چیزوں میں کامیاب ہونے کا یہ راستہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرو۔ یہ عمل تمہارے لئے بہتر ہے جب یہ عمل کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ بھی بخش دے گا (جو عذاب کا سبب ہیں) اور تمہیں ایسے باغوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور عمدہ عمدہ اچھے رہنے کے گھروں میں رہنا نصیب ہوگا جو اقامت کرنے کی جنتوں میں ہوں گے یعنی وہ جنتیں ایسی ہوں گی جہاں رہنا ہی رہنا ہوگا وہاں سے کبھی نکلنا نہ ہوگا اور وہاں سے نکلنا بھی نہ چاہیں گے اسی کو سورة کہف میں فرمایا ﴿ لَا يَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا 00108﴾ اور سورة فاطر میں اہل جنت کا قول نقل فرمایا : ﴿اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرُۙ0034 ا۟لَّذِيْۤ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِنْ فَضْلِهٖ﴾ (بیشک ہمارا پروردگار غفور ہے شکور ہے جس نے اپنے فضل سے ہمیں رہنے کی جگہ میں نازل فرمایا) ۔ معلوم ہوگیا کہ ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ (جو نفس سے جہاد کرنے کو بھی شامل ہے) عذاب الیم سے بچانے کا بھی ذریعہ ہیں اور جنت دلانے کا بھی دنیا کی تجارت اس منفعت عظیمہ کے سامنے کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتی وہ تو فنا ہونے والی چیز ہے اور گناہوں کے ذریعہ جو دنیا حاصل کی جائے وہ تو آخرت میں وبال بھی ہے اور عذاب بھی لہٰذا مومن بندے آخرت کی تجارت میں لگیں وہاں کی کامیابی سے بڑھ کر کوئی کامیابی نہیں ہے اسی کو فرمایا ﴿ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُۙ0012﴾ مفسر قرطبی نے لکھا ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون نے عرض کیا کہ یارسول اللہ اگر مجھے یہ معلوم ہوجاتا کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ کونسی تجارت محبوب ہے تو میں وہ تجارت اختیار کرلیتا اس پر آیت بالا ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ ﴾ نازل ہوئی سورة توبہ میں اسی تجارت کو ﴿ فَاسْتَبْشِرُوْا۠ بِبَيْعِكُمُ الَّذِيْ بَايَعْتُمْ بِهٖ﴾ اور سورة فاطر میں ﴿ يَّرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُوْرَۙ0029﴾ فرمایا ہے۔ ﴿وَ اُخْرٰى تُحِبُّوْنَهَا﴾ (اور تمہارے لئے ایک نفع کی چیز اور بھی ہے یعنی اللہ کی مدد اور زمانہ قریب میں حاصل ہونے والی فتح) اس میں یہ بتادیا کہ جو مومن اور مجاہد ہوں ان کی تجارت کا نفع صرف آخرت ہی نہیں بلکہ دنیا میں بھی اس کے منافع ملیں گے جنہیں تم پسند کرتے ہو اس میں سے ایک تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوگی اور دوسرے یہ کہ عنقریب فتح نصیب ہوگی، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا ہے کہ اس سے فارس اور روم کا فتح ہونا مراد ہے اور بعض علماء نے فرمایا ہے کہ فتح مکہ مراد ہے۔ ﴿وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ 0013﴾ (اور مومنین کو خوشخبری دے دو ) اس میں دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل ہونے پر پیشگی خوشخبری دی گئی ان بشارتوں کا با رہا ظہور ہوچکا ہے (اگر مسلمان آج مذکورہ تجارت میں لگیں تو پھر مدد اور فتح کا ظہور ہو) ۔
Top