Anwar-ul-Bayan - Al-An'aam : 98
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَّ مُسْتَوْدَعٌ١ؕ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّفْقَهُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْٓ : وہ۔ جو۔ جس اَنْشَاَكُمْ : پیدا کیا تمہیں مِّنْ : سے نَّفْسٍ : وجود۔ شخص وَّاحِدَةٍ : ایک فَمُسْتَقَرٌّ : پھر ایک ٹھکانہ وَّمُسْتَوْدَعٌ : اور سپرد کیے جانے کی جگہ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ : بیشک ہم نے کھول کر بیان کردیں آیتیں لِقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّفْقَهُوْنَ : جو سمجھتے ہیں
اور وہ ایسا ہے کہ جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا، سو ایک جگہ زیادہ رہنے کی ہے اور ایک جگہ تھوڑے سے وقت رہنے کی ہے، ہم نے ان لوگوں کے لیے آیات کھول کر بیان کردی ہیں جو سمجھتے ہیں
(وَ ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَأَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ) (اور اللہ وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا) یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) سے انسان کی ابتداء ہوئی اور نسلاً بعد نسل ان کی اولاد بڑھتی ہوئی چلی آئی ہے جس کا سلسلہ تو الد اس طرح سے ہے کہ اول نطفہ باپ کی پشت میں ہوتا ہے پھر ماں کے رحم میں آجاتا ہے پھر وہاں سے مختلف مدارج طے کرتے ہوئے جیتی جاگتی تصویر باہر آجاتی ہے۔ مُسْتَقَرٌّ سے باپ کی پشت اور مُسْتَوْدَعٌ سے ماں کا رحم مراد ہے باپوں کی پشتیں تو اصل مستقر یعنی ٹھہرنے کی جگہیں ہیں کیونکہ مادہ منویہ وہاں اور کہیں سے نہیں آیا۔ اور ماؤں کے رحموں کو مُسْتَوْدَع فرمایا کیونکہ ان میں نطفہ مرد کی طرف سے آتا ہے اور کچھ مدت کے لیے بطور ودیعت وہاں رکھ دیا جاتا ہے۔ بعض مفسرین مستقر اور مستودع کے وہ معنی لکھے ہیں جیسا ہم نے ابھی بیان کیے لیکن حضرت ابن عباس ؓ سے اس کے خلاف منقول ہے انہوں نے فرمایا کہ مستودع سے باپ کی پشت اور مستقر سے ماں کا رحم مراد ہے۔ رحم مادر کو مستقر کہنا تو اس اعتبار سے سمجھ آتا ہے کہ رحم میں نطفہ داخل ہونے کے بعد وہاں ٹھہر جاتا ہے اور مختلف ادوار سے گزر کر انسانی صورت میں باہر آجاتا ہے لیکن باپ کی پشت کو جو مستودع فرمایا یعنی ودیعت رکھنے کی جگہ۔ اس کے بارے میں صاحب روح المعانی ج 7 ص 236 فرماتے ہیں کہ اس کی تقریر اس طرح ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یوم میثاق میں حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے ساری ذریت کو نکالا تھا اور پھر عہد (اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ) کے بعد ان کو واپس کردیا تھا تو گویا ان کا واپس کرنا ایک طرح ودیعت رکھنا ہوا۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس ودیعت کو واپس نکال لے گا۔ مستقر و مستودع کی تیسری تفسیر یوں کی گئی ہے کہ مستقر سے زمین پر ٹھہرنا اور رہنا مراد ہے اور مستودع سے قبر مراد ہے یہ تفسیر بھی الفاظ قرآن سے بعید نہیں۔ (قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّفْقَھُوْنَ ) (کہ تحقیق ہم نے آیات بیان کی ہیں ان لوگوں کے لیے جو سمجھتے ہیں) ۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں نجوم کے تذکرہ میں یَعْلَمُوَنَ فرمایا اور (اَنْشَأَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ) کا تذکرہ فرما کر آخر میں (لِقَوْمٍ یَّفْقَھُوْنَ ) فرمایا۔ کیونکہ نفس واحدہ سے پیدا فرمانا اور پیدا ہونے والوں کے احوال مختلفہ میں تصرف فرمانا زیادہ لطیف اور دقیق ہے۔
Top