Anwar-ul-Bayan - Al-An'aam : 86
وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًا١ؕ وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ
وَاِسْمٰعِيْلَ : اور اسمعیل وَالْيَسَعَ : اور الیسع وَيُوْنُسَ : اور یونس وَلُوْطًا : اور لوط وَكُلًّا : اور سب فَضَّلْنَا : ہم نے فضیلت دی عَلَي : پر الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان والے
اور اسماعیل کو اور الیسع کو اور یونس کو اور لوط کو۔ اور سب کو ہم نے فضیلت دی جہانوں پر
سب سے بڑے صالحین حضرات انبیاء (علیہ السلام) ہیں۔ پھر فرمایا (وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًا) اگر اس کو (وَ مِنْ ذُرِّیَتِہٖ ) کے بعد ذکر کیے جانے والے حضرات پر معطوف کیا جائے تو یہ اشکال ہوتا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ذریت میں سے نہیں تھے۔ نیز حضرت یونس (علیہ السلام) کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل سے نہیں تھے۔ اس اشکال کے رفع کرنے کے لیے یہاں اَرْسَلْنَا یا بَعَثْنَا یا ھَدَیْنَا محذوف مان لینے سے اشکال ختم ہوجاتا ہے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے تھے۔ اور ان کی نسل سے سیدنا محمد ﷺ تھے۔ جن کے لیے حضرت ابراہیم و اسماعیل ( علیہ السلام) دونوں نے یوں دعا کی تھی (رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مّنْھُمْ ) (الآیۃ) ۔ حضرت اسماعیل کے بعد اَلْیَسَعَ کا تذکرہ فرمایا۔ ان کو ابن اخطوب بن العجوز بتایا گیا ہے۔ مفسرین کہتے ہیں کہ یہ کلمہ عجمی ہے اس پر الف لام خلاف قیاس داخل ہوا۔ وقرء حمزۃ و الکسائی اللَّیْسَعْ علیٰ وٖزنۃِ ضَیْغَم، اور ایک قول یہ ہے کہ یوشع کا معرب ہے۔ وَ اللہ تعالیٰ اَعلم حضرت یونس (علیہ السلام) کے والد کا نام متی تھا یہ نینویٰ علاقہ کے رہنے والے تھے اور وہاں کے رہنے والوں کی طرف میراث ہوئے تھے۔ ان کا تذکرہ سورة انبیاء (ع 6) میں اور سورة صافات (ع 5) میں اور سورة نون و القلم (ع 2) میں قدرے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ہم اس کو انشاء اللہ سورة صافات کی تفسیر میں بیان کریں گے۔ پھر حضرت لوط (علیہ السلام) کا تذکرہ فرمایا آپ لوط بن ہاران بن آزر ہیں حضرت لوط (علیہ السلام) ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھائی کے بیٹے تھے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت پر انہوں نے بھی لبیک کہا اور ان کے ساتھ اپنے وطن سے ہجرت کر کے ملک شام میں تشریف لے آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی نبوت سے سر فراز فرمایا اور چند بستیوں کی طرف معبوث فرمایا جن کا تذکرہ سورة اعراف (رکوع نمبر 9) میں اور سورة شعراء وغیرہ میں فرمایا ہے۔ تفصیل جاننے کے لیے سورة اعراف کا مطالعہ فرمائیں۔ پھر فرمایا (وَ کُلًّا فَضَّلْنَا عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ) اور ہم نے ان سب کو جہانوں پر فضیلت دی۔ چونکہ خاتم النّبیین ﷺ ان سب سے افضل ہیں اس لیے مفسرین لکھتے ہیں علی عالمی عصر ھم یعنی اپنے اپنے زمانہ کے لوگوں پر ان کو فضیلت دی۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت انبیاء (علیہ السلام) فرشتوں سے افضل ہیں۔
Top