Anwar-ul-Bayan - Al-An'aam : 85
وَ زَكَرِیَّا وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَ١ؕ كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَۙ
وَزَكَرِيَّا : اور زکریا وَيَحْيٰى : اور یحییٰ وَعِيْسٰي : اور عیسیٰ وَاِلْيَاسَ : اور الیاس كُلّ : سب مِّنَ : سے الصّٰلِحِيْنَ : نیک بندے
اور زکریا کو اور یحییٰ کو اور عیسیٰ کو اور الیاس کو۔ سب صالحین میں سے ہیں،
اس کے بعد فرمایا (وَ زَکَرِیَّا وَ یَحْیٰی وَ عِیْسٰی وَ اِلْیَاسَ ) یہ بھی وَ وَ ھَبْنَا کے ماتحت ہے یعنی یہ حضرات بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ذریت سے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی نبوت سے سر فراز فرمایا۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) ، حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے والد تھے۔ اور انہوں نے اللہ پاک سے دعا کی تھی کہ مجھے ذریت طیبہ عطا فرمائیں۔ باوجود ان کے بیوی کے بانجھ ہونے کے اللہ تعالیٰ نے بیٹا عطا فرمایا جس کا نام یحییٰ رکھا۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) ہی کے زمانہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ مریم بتول بھی ان کی والدہ کے دعا مانگنے پر پیدا ہوئیں۔ انہوں نے نذر مانی تھی کہ میرے لڑکا پیدا ہوا تو میں بیت المقدس کی خدمت میں لگا دوں گی لیکن وہ لڑکے کی بجائے لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام مریم رکھا اور یہ لڑکی جلدی جلدی بڑی ہوتی چلی گئی۔ اور پھر اس کے بطن سے بغیر کسی مرد کے واسطہ کے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ یہ سارا واقعہ سورة آل عمران کے چوتھے پانچویں رکوع میں گزر چکا ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی بنی اسرائیل میں سے تھے اور ان کا یہ نسب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے صرف والدہ کے توسط سے ملتا ہے۔ اس اعتبار سے وَ مِنْ ذُرِیَّتِہٖ کے عموم میں وہ بھی شامل ہیں اس سے بعض حضرات نے استدلال کیا ہے کہ ذریت کا لفظ بیٹیوں کی اولاد کو شامل ہے و فیہ خلاَفٌ بین العلما۔ (راجع روح المعانی) حضرت عیسیٰ کے بعد حضرت الیاس کا ذکر فرمایا ان کو بعض حضرات نے حضرات اسماعیل کی اولاد میں سے بتایا ہے۔ پھر فرمایا (کُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ ) (یہ حضرات صالحین میں سے تھے) یعنی صالحیت میں کامل تھے ہر وہ کام کرنا جس کا کرنا مستحسن ہو اور ہر اس کام سے بچنا جس سے بچنے کا حکم ہو یہ سب صالحیت کے مضمون میں شامل ہے۔
Top