Anwar-ul-Bayan - Al-An'aam : 69
وَ مَا عَلَى الَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّ لٰكِنْ ذِكْرٰى لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
وَمَا : اور نہیں عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَتَّقُوْنَ : پرہیز کرتے ہیں مِنْ : سے حِسَابِهِمْ : ان کا حساب مِّنْ : کوئی شَيْءٍ : چیز وَّلٰكِنْ : اور لیکن ذِكْرٰي : نصیحت کرنا لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : ڈریں
اور جو لوگ احتیاط کرتے ہیں ان پر ظالموں کے حساب میں سے کچھ بھی نہیں ہے لیکن نصیحت ہے تاکہ وہ ڈرنے لگیں،
اہل کفر سے اگر بالکل ہی دور رہیں تو ان کو حق بات کیسے پہنچائی جائے۔ اور نصیحت اور موعظت کا راستہ کیسے نکالا جائے۔ اس کے لیے ملنے کی ضرورت ہوتی ہے اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : (وَ مَا عَلَی الَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِھِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّ لٰکِنْ ذِکْرٰی لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ ) ( اور جو لوگ احتیاط کرتے ہیں ان پر ظالموں کے حساب میں سے کچھ بھی نہیں ہے لیکن نصیحت ہے تاکہ وہ ڈرنے لگیں) ۔ اگر دینی یا دنیاوی ضرورت سے ان کے پاس جانا ہوجائے تو جو لوگ ایمان میں مضبوط اور منکر کو منکر جانتے ہوئے اپنی ذات کو محفوظ رکھ سکتے ہیں ان پر ان لوگوں کے حساب یعنی باز پرس اور طعن کرنے کے گناہ کا کوئی اثر نہ ہوگا جو تمسخر و استہزاء میں مشغول ہوں، یہ لوگ ان کے پاس جائیں ان کو نصیحت کریں۔ ممکن ہے نصیحت ان لوگوں کے حق میں کار گر ہوجائے اور وہ طعن وتشنیع اور عیب جوئی سے پرہیز کریں، جس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ وہ اسلام کو قبول کرلیں۔ صاحب روح المعانی ج 7 ص 184 نے ابو جعفر سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت کریمہ (فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ) نازل ہوئی تو مسلمانوں نے کہا کہ مشرکین جب قرآن کریم کا استہزاء کرنے لگیں اور ہم اسی وقت وہاں سے اٹھ جائیں۔ پھر تو مسجد حرام میں نہیں بیٹھ سکتے۔ اور بیت اللہ کا طواف بھی نہیں کرسکتے۔ (کیونکہ مشرکین تو اپنی حرکت سے باز آنے والے نہیں) اس پر آیت (وَ مَا عَلَی الَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِھِمْ مِّنْ شَیْءٍ ) نازل ہوئی۔ جس میں یہ بتادیا گیا کہ جب تم اپنے اعمال میں لگے ہوئے ہو ان کی مجلس میں شریک نہیں ہو تو تم پر ان کے اعمال کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ اور جب اختلاط ہوجائے تو ان کی نصیحت اور خیر خواہی سے بھی غافل نہ ہونا۔ ممکن ہے نصیحت اثر کر جائے۔
Top